عشق کی جان لیوا بیماری اور اس کا علاج


“Life is to be fortified by many friendships. To love and to be loved is the greatest happiness of existence.” – Sydney Smith

ایک مرتبہ ایک نوجوان کو ابن سینا کے پاس علاج کے لیے لایا گیا جو بظاہر کوئی بیماری نہ ہونے کے باوجود گھلتا چلا جارہا تھا۔ ابن سینا نے اس کی نبض پر ہاتھ رکھا اور اس سے ادھر ادھر کے لوگوں اور علاقوں‌ کی بات چیت کرنے لگے۔ جب اس کی محبوبہ کے محلے اور گھر کا ذکر آیا تو اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ ابن سینا نے اس میں عشق کی بیماری یعنی لو سکنس تشخیص کی اور علاج یہ بتایا کہ اس کو اپنی معشوقہ سے ملا دیا جائے۔ اس کہانی کا انجام اچھا ہوا۔

love sickness

ہر محبت کی کہانی کا انجام ضروری نہیں‌ کہ ملنے سے ہی اچھا ہو، کبھی کبھار محبت میں‌ گرفتار افراد ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہوتے ہیں کہ ان کا الگ ہوجانا ہی ان کی اور ان کے اردگرد کے افراد کی زندگی کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ محبت کرنے کا یہ مطلب نہیں‌ کہ ہم جن لوگوں‌ سے محبت کرتے ہوں ان کو اپنے قبضے میں‌ رکھیں بلکہ محبت اپنے پیاروں‌ کو قید سے آزاد کردینے کا نام ہے۔

محبت ایک طاقت ور جذبہ ہے۔ محبت ایک طرف انسانوں‌ کو اور معاشرے کو جوڑتی ہے تو دوسری طرف زندگیاں‌ برباد بھی کرتی ہے۔ شواہد بتاتے ہیں کہ امریکہ میں‌ خواتین کو موت کی سزا مردوں کے مقابلے میں‌ کم ملتی ہے اور ایک نوجوان اور خوبصورت خاتون کو موت کی سزا نہیں دی جاتی۔ جوڈی ایریاس کا کیس کافی مشہور ہوا۔ 2008 میں‌ جوڈی ایریاس نے اپنے بوائے فرینڈ کو تعلقات ختم ہوجانے کے بعد سر میں‌ گولی مار کر اور 27 بار چاقو کے وار کرکے قتل کیا۔ وہ تعلقات ختم ہوجانے کے بعد بھی الیگزینڈر کو اپنے ذہن میں‌ سے نہیں‌ نکال سکی اور اس کی نئی گرل فرینڈ سے شدید حسد محسوس کرتی تھی۔ وہ گھنٹوں گاڑی کا سفر کرکے اس کے گھر میں‌ گھس جاتی تھی۔ جوڈی ایریاس نے پہلے اس بات سے انکار کردیا تھا کہ وہ اس قتل سے پہلے الیگزینڈر سے ملی تھی لیکن پھر الیگزینڈر کے فون میں‌ سے اس کی قتل والے دن کھینچی ہوئی برہنہ تصویریں برآمد ہوئیں‌ اور فورینزک شہادت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قتل سے پہلے وہ ملے تھے۔ یہ فیٹل اٹریکشن یا جان لیوا کشش کی ایک مثال ہے۔

Fatal attraction

سائنسی تحقیق سے ہم یہ بات جانتے ہیں کہ محبت میں‌ دماغ کے حصے بالکل ویسے ہی ہوجاتے ہیں جیسے کسی کوکین کے نشئی کا دماغ ہو۔ ہمارے دماغ نے ارتقاء کے ذریعے ایسا کرنا اس لیے سیکھا تاکہ مل جل کر نسل آگے بڑھائی جائے۔ محبت جنسی جذبے سے زیادہ طاقت ور ہوتی ہے۔ محبت کے شکار جس سے محبت کریں، اس کی موجودگی میں‌ ڈوپامین کا لیول زیادہ ہوتا ہے جس سے وہ خوش محسوس کرتے ہیں اور جدائی سے غم۔ لیکن کسی بھی اور نشے کی طرح‌ محبت کا علاج بھی ممکن ہے۔ مہینوں‌ اور سالوں‌ دور اور مصروف رہ کر محبت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔

برطانوی فلم لو ایکچؤلی میں‌ ایک سوتیلے باپ کا کردار دکھایا گیا ہے جس کی بیوی ایک نو سال کا بیٹا چھوڑ کر کینسر سے مر جاتی ہے۔ اس کے مرنے کے بعد یہ بچہ اپنے کمرے میں‌ مہینوں‌ کے لیے بند رہتا ہے۔ اس کا سوتیلا باپ بہت پریشان تھا کہ اس صورت حال سے کس طرح‌ نبٹے۔ وہ اپنے دوستوں‌ سے کہتا ہے کہ مجھے کچھ معلوم نہیں‌ کہ کہیں‌ وہ اپنی آنکھوں‌ میں‌ ہیروئین کے ٹیکے تو نہیں‌ لگا رہا؟ آخر کار وہ باہر چہل قدمی کے لیے جاتے ہیں اور باپ اس سے پوچھتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ تو وہ بچہ جواب دیتا ہے کہ مجھے محبت ہوگئی ہے۔ یہ سن کر اس کا باپ ہنس پڑتا ہے کہ اچھا، تم اس کے لیے کچھ زیادہ کم عمر نہیں‌ ہو؟ اور میں‌ تو کچھ سنجیدہ تکلیف دہ بات سمجھا تھا تو یہ بچہ اس کو ناراضگی سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ ہرگز نہیں اور محبت ہوجانے سے زیادہ تکلیف دہ بات اور کیا ہوسکتی ہے؟ پھر یہ دونوں ملکر ٹائٹینک مووی دیکھتے ہیں اور ولیم اینڈ کیٹ کے کرداروں‌ کی طرح‌ بازو پھیلا کر کھڑے ہونے کی اداکاری کرتے ہیں۔ کیا تم مجھ پر بھروسہ کرتے ہو؟ اس کے باپ نے پوچھا! ہاں میں‌ آپ پر بھروسہ کرتا ہوں۔ وہ ایک تعلیم یافتہ، حساس اور احساس ذمہ داری رکھنے والا اپنے سوتیلے بیٹے کی بھلائی چاہنے والا باپ تھا۔

Love Actually

ویلنٹائن ڈے پر جب ایک دس سال کا لڑکا ایک لڑکی کے لیے چاکلیٹ اور پھول لاتا ہے اور وہ انہیں پھینک کر بھاگ جاتی ہے تو وہ دو باتیں سیکھتا ہے۔ ایک یہ کہ محبت کے اظہار کا کیا طریقہ ہے اور دوسری یہ کہ ٹھکرا دیے جانے کا کس طرح‌ سامنا کیا جاتا ہے۔

زندگی مشکل ہے اور اس کے سوالات بھی مشکل ہیں۔ زندگی وقت کے ساتھ آسان نہیں‌ ہوتی جاتی، دنیا بھی وقت کے ساتھ پیچیدہ ہوتی چلی گئی اور ہم پیچھے رہ گئے کیونکہ ہم نے اپنے اندر اتنی ہمت ہی پیدا نہیں گی کہ حالات کا سامنا کرسکیں۔ پہلے سے بنے سانچوں‌ میں‌ نئے آنے والے انسانوں‌ کو بٹھاتے بٹھاتے کتنی زندگیاں تباہ ہوئیں۔ زندگی سے سیکھنا ہوگا۔ میں‌ نے پچھلے پچیس سالوں‌ میں دور سے یہ دیکھا ہے کہ ساؤتھ ایشیا وقت کے ساتھ ذہنی اور جذباتی ارتقاء میں‌ آگے جانے کے بجائے کئی لحاظ سے پیچھے گیا ہے۔ انڈیا اور پاکستان میں‌ نوجوانوں‌ کی تعداد بہت زیادہ ہوچکی ہے اور عمر رسیدہ، عقلمند افراد کم ہیں۔ جو ہیں بھی، ان کی صحت خراب ہے۔ دنیا میں‌ جہاں‌ بھی نوجوانوں‌ کی تعداد اس طرح‌ زیادہ ہوجائے وہاں‌ جنگ چھڑ جاتی ہے۔ خاص طور پر ایسی جگہ جہاں‌ ان کی توانائی خرچ کرنے کے لیے صحت مندانہ راستے نہ ہوں۔ اگلے مہینے پھر سے ویلنٹائن ڈے آئے گا جب تمام دنیا محبت کا دن منائے گی۔ جن مشکل سوالات کا سامنا کرنے کی ہمت پیدا نہ کی جائے ان کی موجودگی کا انکار کردینے سے وہ غائب نہیں ہوجاتے بلکہ مختلف مسائل کی شکل میں‌ سامنے آتے ہیں۔

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

کچھ تو مرے پندار محبت کا بھرم رکھ
تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لیے آ

پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو
رسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ

اک عمر سے ہوں لذت گریہ سے بھی محروم
اے راحت جاں مجھ کو رلانے کے لیے آ

اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ

یہ غزل ایک قابل فکر شاعری ہے جس میں‌ دو لوگ ایک تکلیف دہ رشتے میں سماج کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے بندھے رہنے پر مجبور ہیں۔ شادیوں‌ کے بیس پچیس سال کے بعد کا وقت خاص طور پر جوڑوں‌ کے لیے مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس وقت نہ صرف لوگ بدل چکے ہوتے ہیں بلکہ مڈ لائف کرائسس سے بھی گزرتے ہیں۔ اس وقت یا تو وہ اس بدلے ہوئے شخص سے دوبارہ محبت کرنا سیکھ لیں‌ گے یا نہیں اور ٹینگو کرنے کے لیے دو افراد کی ضرورت ہے۔ اکیلے ٹینگو نہیں ہوسکتا۔ میرے سامنے کتنی مثالیں موجود ہیں‌ جن میں‌ یہ لوگ ایک دوسرے کو تباہ کرنے پر تلے ہیں اور اس جنگ میں‌ اپنا سب کچھ جھونک دینے کو تیار ہیں۔ لوگ اچھے یا برے ہوں، ضروری نہیں، مختلف ہونے کی وجہ سے بھی ناخوش ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ایک صحت مند معاشرہ تخلیق کرنے کے لیے یہی ضروری نہیں‌ کہ محبت میں‌ گرفتار ہونے کے آداب اور محبت نبھانے کے آداب سیکھے جائیں بلکہ یہ بھی لازمی ہے کہ محبت ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو قتل کیے بغیر، ایک دوسرے کی کردار کشی کیے بغیر، ایک دوسرے پر تیزاب پھینکے بغیر راستے جدا کرنا سیکھا جائے۔ یہ ناممکن محسوس ہوتا ہے لیکن عشق کی بیماری کو مانا جائے، اس کو سمجھا جائے تو اس کا علاج بھی ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).