جمہوریت کے لیے ایک مشکل سال


2017ء کا سال ہمارے لیے ایک ہنگامہ خیز سال تھا۔ ہم میں سے کس نے سوچا تھا کہ دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہونے اور حکومت بنانے والے وزیراعظم کو دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف نا اہل قرار دیا جائے گا بلکہ انھیں عمر بھر کے لیے سیاست سے بے دخل بھی کردیا جائے گا ۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ میاں نواز شریف اتنا بڑا دھچکا برداشت نہیں کر پائیں گے اور سیاست سے کنارہ کرلیں گے، لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس، انھوں نے اپنی نا اہلی کا فیصلہ سنا، وہ جی ٹی روڈ پر عوام سے اور اپنے ووٹروں سے خطاب کرتے ہوئے نکلے اور پاکستانی سیاست کے منظر نامے پر چھا گئے۔

آج وہ پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں ۔ ان کی بیگم کلثوم نواز لندن کے ایک اسپتال میں موت اور زیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ میاں صاحب عدالت میں پیش ہوتے ہیں، اپنا مقدمہ لڑتے ہیں اور پھر عدلیہ سے اجازت لے کر چند دنوں کے لیے لندن جاتے ہیں، بیگم کی تیمارداری کرتے ہیں اور پھر واپس آکر عدالت میں پیش ہو جاتے ہیں ۔

ایک عام پاکستانی کے لیے قانون کی حکمرانی کو تسلیم کرنے کا یہ رویہ ایک خوش آیند بات ہے ، ورنہ ہمارے یہاں تو سامنے کی مثال (ر) جنرل پرویز مشرف کی ہے جو علاج کے بہانے سے دبئی گئے اور وہیں جاکر بیٹھ رہے۔ ہر مرتبہ جب انھیں عدالت سے بلاوا آتا ہے تو وہ اپنی کمر کے درد کا عذر پیش کردیتے ہیں۔ پنجابی کے مشہور شاعر امام دین کے ایک مصرعے میں قدرے تحریف کرتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’میرے گھٹنے میں دردِ کمر مام دینا‘۔

کچھ لوگ ہمارے یہاں جمہوریت کا بستر لپیٹنے کے لیے ہمہ وقت بے قرار رہتے ہیں، سال کے آخری دنوں میں ان کے اشارے پر اسلام آباد اور پنڈی کو ملانے والے چوک پر جو فیض آباد کے نام سے مشہور ہے، ایسا دھرنا دیا گیا کہ دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی میں کاروبار زندگی رک گیا۔ تین ہفتوں تک دونوں شہروں کے لاکھوں شہریوں نے جو عذاب اٹھائے وہ ان ہی سے پوچھیے۔ آخر کار وہ دھرنا ختم ہوا اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ۔

کچھ سیاسی حکیم جو سال بھر موجودہ حکومت کے جانے کی تاریخیں دیتے رہے تھے، اب نئے سرے سے تاریخیں دینے کا کھیل کھیلنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ عوام اس کھیل کو سمجھ چکے ہیں ۔ نئے سال کا سورج طلوع ہو چکا ہے۔ دنیا بھر میں سمندروں اور دریاؤں کے کنارے، سبزہ زاروں اور صحراؤں میں اس کی آمد کا جشن منایا جاچکا ہے۔ سندھ کے ادیبوں نے نئے سال کے استقبال سے پہلے گزرے ہوئے سال کو رخصت کیا، جو ان کی قدیم روایت ہے۔ ہر سال سندھی ادیب دریائے سندھ کے کنارے جمع ہو کر گزشتہ برس کو پھولوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔

365 دنوں میں اس نے دنیا اور سندھ پر جو عنایتیں کیں، اس پر شکر بجا لاتے ہیں۔ یہ دل آویز رسم اگر کراچی کے ادیب بھی اختیار کرلیں تو کیا ہی اچھا ہو۔ ہمارے حصے میں دریا نہیں سمندر آیا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ عریضے سمندر میں بہاتے ہیں، تو کیوں نہ اگلے برس کی آمد سے چند گھنٹوں پہلے ہم بھی ڈھیروں ڈھیر پھول لے کر سمندر کے کنارے جائیں اور گزرے ہوئے سال کی کرم فرمائیوں کو یاد کرتے ہوئے ان پھولوں کو لہروں کی نذر کریں۔

ذاتی طور پر مجھے خوشی اس وقت ہوئی جب سندھ کے وزیراعلیٰ نے 31 دسمبر کی شام یہ اعلان کیا کہ گزشتہ کئی برسوں سے کراچی والوں پر سمندر کے کنارے نئے سال کا جشن منانے پر جو پابندی تھی، وہ ختم کی جاتی ہے۔ انھوں نے سمندر جانے والے راستوں سے مختلف رکاوٹیں ہٹانے کا اعلان کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کراچی والے جن میں نوجوان لڑکے لڑکیاں عورتیں مرد اور بچے سب ہی شامل تھے، وہ ہزاروں کی تعداد میں ساحل سمندر جا پہنچے اور انھوں نے جی کھول کر نئے سال کا جشن منایا ۔ شہر میں کئی جگہوں پر آتش بازی بھی ہوئی اور تقریباً ہر علاقے میں بارہ بجے رات سے پہلے ہی پٹاخوں اور فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا ۔

یہ پٹاخے گزشتہ برسوں میں بھی چلتے تھے اور ان سے کہیں زیادہ ریپیٹر چلنے کی آوازیں آتی تھیں۔ یہ وہ آوازیں تھیں جن سے لوگ خوفزدہ ہوجاتے تھے۔ شہر والوں کو مراد علی شاہ کا شکر گزار ہونا چاہیے جنہوں نے سالہا سال بعد اس شہر کو خوف کی غیر مرئی زنجیروں سے آزاد کیا۔ جمہوری عمل جاری رہے اور منتخب نمایندے لوگوں کے مسائل کو سمجھ کر ان کے درد کا درماں کریں تو عام آدمی کی زندگی کچھ دیر کے لیے ہی سہی، سہل ضرور ہوجاتی ہے۔

اب کچھ باتیں سیاست کے حوالے سے جو2017ء میں نہایت غیر یقینی حالات کا شکار رہی۔ ڈان لیکس، پاناما لیکس اور اقامہ کے نام پر شکوک وشبہات کا وہ گردو غبار اڑایا گیا کہ اچھے اچھوں کی عقل چرخ ہو کر رہ گئی۔ وہ ادارے جن سے براہِ راست سیاست میں مداخلت کی امید نہیں تھی، انھوں نے سیاسی بساط پر اس طرح اپنی چال چلنی شروع کردی کہ جس کی اس سے پہلے پاکستانی سیاست میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس مداخلت کے پاکستانی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔

اب 2018 کے بارے میں جمہوریت دوست حلقے یقین رکھتے ہیں کہ یہ انتخابات کا سال ہوگا لیکن اس وقت بھی ایک مضبوط جمہوریت دشمن لابی موجود ہے جو کسی نہ کسی بہانے موجودہ جمہوری نظام کو لپیٹ دینے میں اپنی بقا محسوس کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی صدارتی نظام حکومت کی تجویز پیش کی جاتی ہے، کبھی دو یا تین برس کے لیے ٹیکنوکریٹ حکومت کا مشورہ دیا جارہا ہے۔

براہ راست اقتدار پر قبضہ موجود ہ بین الاقوامی صورتحال میں تقریباً نا ممکن ہوچکا ہے، اسی لیے جمہوریت مخالف کیمپ پر ایک اضطراری کیفیت طاری ہے، اگر افغانستان میں حالات معمول پر آچکے ہوتے تو پاکستان میں جمہوریت نواز حلقے کی گردن مروڑنا آسان ہوگیا ہوتا لیکن افغانستان میں انتہا پسندوں نے طے کرلیا ہے کہ وہ خود کش دھماکوں سے باز نہیں آئیں گے۔ وہ اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں، تب ہی نماز جنازہ پڑھنے والوں کو بھی بخشنے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں۔

اس پہلو پر ابھی ذرا کم غور کیا گیا ہے کہ عراق اور شام میں جن انتہا پسند اور متشدد عناصر کی پسپائی ہوئی ہے، پاکستان میں وہ حلقے اپنی طاقت و بنیاد رکھتے ہیں اور ان کے گزشتہ پینتیس چالیس برس سے اس خطے میں حمایتی، معاون اور سہولت کار موجود ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے اقتدار پر غاصبانہ قبضے کے بعد وہ تنظیمیں برساتی کھمبیوں کی طرح پاکستان میں پیدا ہوئیں جو آنے والے دنوں میں انتہا پسندوں اور متشدد گروہوں کا بیس کیمپ بننے والی تھیں۔ ان عناصر کی صرف پاکستان کے بعض مقتدر حلقوں نے ہی نہیں بلکہ امریکا نے بھی اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے پرورش کی۔ انھیں بھاری مالی امداد، جدید اسلحہ او ر محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی گئیں۔

آج امریکی صدر کو اس بات پر غصہ آتا ہے کہ پاکستان اپنے علاقوں سے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں کیوں ختم نہیں کرتا ۔ اس الزام میں کس قدر حقیقت ہے اور یہ کتنا مفروضہ ہے، اس سے قطع نظر یہ سوال تو امریکا سے بھی ہونا چاہیے کہ یہ پناہ گاہیں اس کی مرضی اور اس کی پشت پناہی کے بغیر وجود میں تو نہیں آئی تھیں۔ ایسے میں صرف پاکستان کے سر تمام ذمے داری ڈال کر اور ہاتھ جھاڑ کر الگ ہوجانا، اس قدر آسان نہیں ہوگا۔ کبھی امریکی وزیر خارجہ اور کبھی سی آئی اے کے سربراہ واضح الفاظ میں پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں۔

ایسے میں یہ حضرات اس بارے میں غور نہیں کرتے کہ ان کی یہ دھمکیاں پاکستان میں جمہوریت کے لیے کس قدر خطرناک ہیں۔ وہ پاکستانی حلقے جنھیں جمہوریت کے نام سے ہی نفرت ہے، ان کے لیے امریکا کی طرف سے آنے والا یہ شدید دباؤ بہت خوش آیند ہے۔ یہ عناصر جانتے ہیں کہ اندرونی طور پر طاقتور حلقوں کی طرف سے دباؤ میں آنے والی جمہوری قوتوں کو اگر امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی دھونس اور دھمکی سے دبائے گی تو انھیں کئی محاذوں سے پسپائی اختیار کرنی پڑے گی اور آخر کار یہ پسپائی صرف پاکستانی جمہوریت کے لیے ہی نہیں، اہم بین الاقوامی طاقتوں کے لیے بھی کچھ اچھی ثابت نہیں ہوگی۔

2017 جمہوریت کے لیے ایک مشکل سال تھا، اگر پاکستان کی جمہوری قوتوں نے اندرونی اور بیرونی محاذوں پر یک جان ہوکر مزاحمت نہیں کی تو ہم 2018 سے بھی اچھی توقعات نہیں رکھ سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).