جدید علمیات اور علم الکلام کے بعض مسائل


چند دنوں قبل ایک تحریر میں جدید سیکولر تصور علم کے چند پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا تھا جس میں اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ اصولی طور پر جس عہد کو جدید کہا جاتا ہے وہ اپنی علمیات میں سیکولرہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس دور میں انسانی علم میں ایک دوئی کی حدود طے کردی گئی ہیں۔ یعنی اب علم کا مقصد یہ نہیں ہے کہ موجود اور مادی حقیقت کو کسی مطلق، مقدس اور ازلی حقیقت کی روشنی میں دیکھا جائے بلکہ اب علم سے مراد یہ ہے کہ انسانی تجربہ اور فہم کی حدود و شرائط کے اندر رہتے ہوئے اپنے گردوپیش کی صورتحال کی کوئی تاویل کی جائے۔ یعنی جدید دور کے سیکولر تصورعلم میں بنیادی اہمیت مطلق اور مقدس sacred کی بجائے ظاہر اور موجود profane کی ہے۔ یہ تصور علم جدید دورکے بنیادی تعارف میں شامل ہے جس کیوجہ سے جدید دور کو سیکولر دور بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ تاہم جدید علم لازمی طور پر مقدس کی نفی نہیں کرتا بلکہ اس سے لاتعلق رہتا ہے اور یہ بات سمجھنا کافی آسان ہے کیونکہ جدید علم جس انداز میں کائنات کو بطور موضوع دیکھتا ہے وہ اس انداز سے بہت مختلف ہے جو دور قدیم کے نان سیکولر علوم میں اپنایا جاتا تھا۔ جدید علم جس حقیقت کو تشکیل دیتا ہے یہ وہ حقیقت نہیں جس کا عرفان حاصل کرنا قدیم علم کا بنیادی مقصد ہوا کرتا تھا۔ قدیم و جدید علم میں یہ فرق اتنا اصولی ہے کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کے انسان کی کائنات آج سے ہزار سال پہلے کے انسانوں کی کائنات سے بالکل مختلف ہے۔ سیکولر علم اپنی مخصوص حدود اور اہداف کے اندر رہتے ہوئے اس مطلق حقیقت کو اس طرح دیکھ ہی نہیں سکتا اور نہ ہی قدیم علمیات کی طرح اس موضوع پر کوئی حتمی دعویٰ پیش کرنے کا اہل ہے۔ لہذا یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اصولی طور پر سیکولر علمیات مطلق کے سوال سے بامعنی طور پر لاتعلق ہیں۔

اس تحریر کا بنیادی موضوع سیکولر تصور علم نہیں ہے۔ ہمارا موضوع جدید علمیات اور علم الکلام کے باہمی رشتے کے بعض پہلوؤں کا احاطہ کرنا ہے۔ علم الکلام سے مراد ایک ایسا میتھڈ ہے جس میں مذہبی دعویٰ جات کو دیگر علوم مثلا فلسفہ، ریاضی اور سائنس وغیرہ کے تعلق سے سچ ثابت کیا جاتا ہے۔ یہ علم الکلام کی جامع تعریف نہ سہی لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ بعض قارئین کو اس کے مفہوم کا کچھ اندازہ ہوجائے۔ ہم اس سوال سے آغاز کرتے ہیں کہ کیا جدید علمیات کے اندر رہتے ہوئے روایتی علم الکلام ممکن ہے؟

اسلامی تاریخ میں روایتی علم الکلام سے مراد وہ فکری سرمایہ ہے جو یونانی و مصری نیز ایرانی قدیم علوم کے مقامی زبانوں میں ترجمہ ہونے کے بعدسامنے آیا۔ بعض فلسفی اور مفکرین ان علوم سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اسلامی اعتقادات کی تشریح و تعبیر بھی انہی علوم کی روشنی میں کرنا شروع کی۔ ان علوم میں قدیم فزکس، منطق، ہندسہ، جیومٹری اور مابعد الطبیعات وغیرہ شامل تھے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اسلام سے پہلے عیسائیت کو بھی ان علوم کا سامنا کرنا پڑا تھا اور مسیحی علما نے بھی ان علوم اور اپنے مذہب میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بہرحال قدیم دور میں بھی شعبہ جاتی طور علمی و تحقیقی سرگرمی ایک علیحدہ روایت تھی جس کا سامنا عیسائیت اور یہودیت سمیت اسلام کو کرنا پڑا۔ اس سطح پر علم الکلام کے دو مختلف پرتیں سامنے آتی ہیں۔ اولین طور پر وہ مفکرین ہیں جو ان علوم کی روشنی میں مذہبی اعتقادات کی تشریح کرتے ہیں اور ایک ایسا فکری نطام پیش کرتے ہیں جس میں ان علوم سے حاصل شدہ انکشافات کو وحی و الہام سے جانی گئی مطلق سچائیوں کے ساتھ ملا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مسلم علمی روایت میں اس رجحان کی ایک نمائندہ مثال ایرانی فلسفی بوعلی سینا ہے۔

علم الکلام کی دوسری سطح زیادہ پیچیدہ ہے اور تاریخ میں اس مقام پر سامنے آتی ہے جب بعض علما نے یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ اگر مذہبی حقائق کی تشریح ان نو وارد علوم کی روشنی میں کی جاتی رہی تو لازمی طور پر مذہب میں بگاڑ پیدا ہوگا۔ ان حضرات کے خیال میں مذہب اوران علوم میں کہیں نا کہیں بنیادی اختلاف ضرور موجود تھا جس کو پیش نظر نہ رکھا گیا تو عقیدہ خالص نہ رہے گا۔ مذہب اور علم کا یہ اختلاف ان علما کے لیے ایک چیلنج تھا جس کا جواب دیا جانا ضروری تھا تاکہ ناصرف ان علوم کا نقص سامنے لایا جا سکے بلکہ مذہبی حقیقت کو بھی برتر ثابت کیا جا سکے۔ علم الکلام کی یہ دوسری سطح اپنی ساخت میں اولین سطح سے زیادہ پیچیدہ اور دور رس اہمیت کی حامل ہے جو دور جدید میں بھی کسی نہ کسی حد تک زیادہ متعلق محسوس ہوتی ہے۔ اس کے کلاسیکل نمائندوں میں اشعری، غزالی، ابن تیمیہ اور شیخ احمد سرہندی شامل ہیں۔

ان حضرات نے علوم کی روشنی میں مذہب کی تشریح کرنے کی بجائے علم اور عقیدے میں اختلافی امور پر روشنی ڈالی۔ ان اختلافی امور کی فہرست ہرمفکر کے ہاں اپنی مخصوص فکری پوزیشن کی وجہ سے مختلف ہے لیکن یہ بنیادی مقدمہ سب میں مشترک ہے کہ ایک خاص مقام کے بعد علوم اور مذہب الگ الگ راستوں پر چلنے لگتے ہیں اور اس مقام پر ضروری ہے کہ علم میں موجود نقائص کو واضح کیا جائے تاکہ اختلافی موضوعات کے متعلق مذہب کی رائے کو حتمی سچ ثابت کیا جا سکے۔ چنانچہ غزالی کے نزدیک فزکس، منطق اور ہندسہ اصولی طور مذہب سے متصادم نہیں ہیں اور صرف مابعد الطبیعات کے بعض مخصوص مسائل مذہبی اعتقادات کے مطابق نہیں ہیں لہذا غزالی کا بنیادی مسئلہ بھی صرف ان مسائل کی حد تک وحی کی برتری کو ثابت کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے غزالی نے عقل اور عقلی منہاج پر سوالات اٹھائے کیونکہ قدیم علم کی بنیاد مطلق عقلیات پر قائم تھی۔ جبکہ ابن تیمیہ کے ہاں ان اختلافی امور کا دائرہ منطق اور شیخ سرہندی کے ہاں ہندسہ تک بڑھ جاتا ہے۔

تاریخٰ طور پر روایتی علم الکلام سے مراد وہ فکری روایت ہے جو قدیم علوم کے ردعمل میں سامنے آئی۔ دور جدید کےآغازسے قبل یہ قدیم علوم مغرب میں بھی پہنچ چکے تھے جس میں لازمی طور پر مسلم عہد کے تراجم سے مدد بھی لی گئی۔ وسیع تر سماجی و سیاسی تبدیلیوں کے ایک لہر کی وجہ سے مغرب میں جدید دور شروع ہوا اور ایک نئے تصور علم کی بنیاد یں پڑنا شروع ہوئیں جو قدیم علم سے قطعی مختلف تھا۔ جدید فلسفہ اور سائنس قدیم علم کی طرح مطلق عقلیات پر قائم نہیں تھے بلکہ شروع سے ہی تجربیت اور موضوعی عقلیت کا رجحان تقویت پاتا رہا۔ جدید سیکولر تصور علم جیسے جیسے واضح ہوتا گیا قدیم علوم کی گرفت ڈھیلی پڑتی گئی۔ یہاں کئی اہم نکات قابل توجہ ہیں۔

1۔ جدید تصور علم اور قدیم تصور علم اپنی بنیاد میں مختلف ہیں۔ قدیم علم میں مادی گردوپیش اور موجود حقیقت کو ازلی و ابدی سچائی سے کاٹ کر علیحدہ نہیں کیا جاتا تھا۔ قدیم علم میں لازمی طور پر sacred کا ایک مخصوص مقام تھا اور اسے مطلق سچائی سمجھا جاتا تھا۔ یہ سچائی عقل کے ذریعے معلوم ہوتی تھی۔ قدیم فزکس اور الکیمی اس کی بنیادی مثالیں ہیں۔ قدیم دور میں فزکس، ہندسہ، طب سمیت ایسے تمام علوم کی فکری بنیاد ایک ہی مشترکہ سچائی پر قائم تھی جوازلی اور مطلق تھی۔ یہ علوم اپنے مخصوص دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے بتدریج بلند ہوتے ہوئے اس برتر سچائی کی وحدت میں ضم ہوجاتے تھے۔

2۔ جدید تصور علم میں صورتحال اس کے الٹ ہے۔ علم کا مقصد کسی مطلق حقیقت یا ازلی سچائی کو جاننا نہیں ہے اور sacred کو الگ کر کے ساری توجہ صرف ظاہر اور موجود تک محدود رکھتے ہوئے ایک مخصوص اور مشروط حقیقت کو تشکیل دینا ہے۔ جدید فزکس، کیمسٹری اور طب میں بتدریج بلند ہوتے کسی برتر اور واحد حقیقت میں ضم ہونے کی بجائے اپنے مخصوص دائرہ کار میں مزید سے مزید تخصیصی رجحان اپناتے ہیں۔ جدید علم اپنی کلیت میں کائنات کی ایسی کوئی منظم تشریح پیش نہیں کرتا جو قدیم علم کی طرح مطلق اور مکمل ہو۔

3۔ جدید دور کے آغاز سے ہی قدیم تصور علم ماند پڑنا شروع ہوا اور وہ چیلنج زیادہ مربوط انداز میں پورا کیا گیا جو کسی دور میں مسلم فکری روایت میں علم الکلام کی دوسری لہر کے مفکرین کی عمر بھر کی ریاضت رہا تھا۔ چنانچہ غزالی سے کئی صدیاں بعد ڈیوڈ ہیوم بھی نظریہ تعلیل کے انکار کی منزل سے گزرا اور کانٹ کو بھی بعض مخصوص مسائل میں عقل مطلق کی نارسائی کا اعلان کرنا پڑا۔ ایک مخصوص حد تک جدید مفکرین اور ہمارے روایتی علم الکلام کی دوسری لہر کے علما کا مقصد ایک سا رہا ہے لیکن ان کو آپس میں اس طرح مماثل قرار دینا ہرگز درست نہیں جیسے علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں غزالی اور کانٹ کو آپس میں ملایا ہے۔ تاہم علم الکلام کی وہ پہلی لہر جس میں قدیم علوم سے مدد حاصل کی گئی تھی وہ نسبتاً غیر متعلق ہوگیا ہے کیونکہ جدید علمیات میں مطلق عقل کا وہ مقام باقی نہیں رہا جس کی بنا پر قدیم علوم کی بنیادیں رکھی گئی تھیں۔ تاہم ایک بڑی سطح پر جدید سیکولر تصور علم کے اندر رہتے ہوئے روایتی علم الکلام کی دونوں شکلوں کا امکان ہی باقی نہیں رہا کیونکہ مطلق عقلیات کے ساتھ ساتھ جدید علمی میدان میں وحی اور مطلق روحانیات کو بھی سابقہ مقام حاصل نہیں رہا جس کی مدد سے قدیم علوم کو جواب دیا جاتا تھا۔

4۔ قدیم تصور علم اور مذہب میں اہم اشتراکات موجود ہیں۔ دونوں کے نزدیک حقیقت کی بنیاد کسی مطلق سچائی پر ہے جس کو بنیاد بنا کر کائنات اور انسان کو سمجھا جا سکتا ہے۔ مذہب میں وحی اور علم میں عقل کے ذریعے اس مطلق کو جانا جاتا تھا۔ آج جدید دور میں کھڑے ہو کر تاریخ میں واپس جھانکا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ابن رشد کا یہ موقف درست تھا کہ فلسفہ اور وحی ایک ہی حقیقت تک پہنچنے کے دو راستے ہیں جو آپس میں متخالف نہیں ہیں۔ قدیم علم اور مذہب ایک ہی قسم کی حتمی سچائی کا حصول چاہتے تھے۔ قدیم تصور علم اور مذہب میں اس بنیادی اشتراک کی جہت سے دیکھا جائے تو روایتی علم الکلام کی پہلی لہر کے وہ مفکرین حقیقت کے قریب نظر آتے ہیں جو قدیم علوم اور مذہبی اعتقادات کو باہم مربوط رکھتے ہوئے حقیقت کی ایک بڑی تصویر پیش کرتے تھے۔

5۔ مغرب میں یہ جدید علمیات براہ راست سماجی و معاشی حالات سے جڑی ہوئی تھی۔ اس کے نتیجہ میں انفرادیت پسندی، سیاسی حقوق، ریاست اور کلیسا کی علیحدگی، ریاست اور آزادی کی نئی تعریفات سامنے آئیں۔ گردوپیش کی مادی کائنات کی تشریح تجربی سائنسز کا فریضہ قرار پایا جس کے نتائج کے عملی اطلاق سےٹیکنالوجی کا ظہور ممکن ہوا۔ قدیم علوم اور مذہب سمیت تعقلی فلسفہ اورتصوف کی وہ کائنات غائب ہوگئی جس میں مطلق کو برتر قرار دیتے ہوئے موجود کو اس کی روشنی میں سمجھا جاتا تھا۔ ان مخصوص حالات میں مغربی فکری روایت میں اس روایتی علم الکلام کو زوال آگیا جو مسلمانوں کی طرح ان میں بھی قدیم علوم کی ردعمل میں سامنے آیا تھا۔ مغربی روایت میں علم الکلام کے نمائندوں کو محسوس ہوگیا کہ اب ان کے دائرہ کار میں اخلاقیات اور فرد کے بعض باطنی و وجودی مسائل کے علاوہ کوئی موضوعات نہیں رہے۔ جدیدحقیقت ایک نئی صورتحال تھی جسے تشکیل دیا گیا تھا جس میں وہ مطلق سما ہی نہیں سکتا تھا جسے ظاہر اورموجود سے ماورا اور بے نیاز سمجھا جاتا تھا۔

کالونیل دور میں جب مسلم معاشروں پر یورپی تسلط قائم ہوا تو جدید علوم یہاں بھی متعارف ہونا شروع ہوئے۔ چونکہ یہ جدید علوم بجائے خود ہی قدیم علوم سے مختلف تھے لہذا ان کا جواب ایک طے شدہ شکل میں ہمارے روایتی علم الکلام میں موجود نہیں تھا۔ دوسری بات یہ کہ چونکہ یہ علوم ان غیر ملکی آقاؤں کے توسط سے ہم تک پہنچے جو ہم پر طاقت کے زور سے قابض تھے لہذا ان علوم کا چیلنج اور سیاسی جدوجہد کا آپس میں ایک لازمی رشتہ تھا۔ ان مخصوص حالات میں مسلم معاشروں میں ایک نیا رجحان سامنے آیا جسے بعض اوقات جدید علم الکلام بھی کہا جاتا ہے۔ قدیم علم الکلام کی طرح اس جدید رجحان میں بھی مختلف سطحیں دیکھی جا سکتی ہیں جس میں سیاسی جدوجہد اور مذہبی شناخت کا باہمی تعلق ایک بنیاد کا کردار ادا کرتا ہے۔ چونکہ اس تحریر کا موضوع صرف علمی و فکری مسائل ہیں لہذا جدید علم الکلام کے ان نمائندوں کو بطور مثال لیا جائے گا جن کے ہاں مذہبی دعویٰ جات اور جدید علوم کے تعلق پر کوئی رائے ملتی ہے۔ برصغیر کے تناظر میں اس کی اہم مثالیں سرسید احمد خان اور علامہ اقبال ہیں بلکہ سرسید بجا طور پر جدید علم الکلام کے خالق بھی ہیں۔

جدید اور قدیم علم الکلام میں اہم فرق موجود ہیں۔ قدیم علم الکلام کا سامنا قدیم علوم سے تھا جبکہ یہ بات پیش نظر رہے کہ قدیم علوم میں مطلق کا متعین مقام موجود تھا جو مذہب سے اصولی اتفاق ہے۔ جدید علم الکلام کا سامنا جدید علوم سے ہے جبکہ جدید علوم میں مطلق اور sacred کا ایسا کوئی متعین مقام موجود نہیں جو علمی سرگرمی میں ایک مقصد اور منبع کے طور پر سامنے رکھا جائے۔ اسی طرح قدیم اور روایتی علم الکلام کے متعارف ہونے کے وقت مسلم معاشروں پر کالونیل سیاسی قبضہ نہ ہوا تھا اور قدیم علوم بھی انہوں نے اپنے سیاسی غلبے کی نتیجہ میں سیکھے تھے۔ یہ صورتحال جدید علم الکلام کے معاملہ میں الٹ ہے۔

ہم کچھ دیر کے لیے اس سوال کی طرف واپس چلتے ہیں جہاں سے اس تحریر کا آغاز ہوا تھا کہ کیا جدید علمیات کے ساتھ ایک مخصوص رشتہ میں رہتے ہوئے روایتی علم الکلام ممکن ہے؟
ہم دیکھ چکے ہیں کہ روایتی علم الکلام بنیادی طور پر قدیم علوم کے ردعمل میں سامنے آیا تھا اور جدید دور میں یہ علوم اپنے تصور علم سمیت بدلے جا چکے ہیں۔ لہذا اصولی پر روایتی علم الکلام کی وہ شکل اب ممکن نہیں جس میں وحی سے حاصل شدہ مطلق اور ازلی سچائی کو برتر سمجھتے ہوئے دیگر علوم خصوصا ً مادی علوم کے انکشافات کو اس سچائی کی روشنی میں پیش کیا جاتا تھا۔ جدید دور کا سچ ایک مختلف سچ ہے جو تشکیل دیا گیا ہے۔ اسی طرح روایتی علم الکلام کی وہ صورت بھی اب ممکن نہیں جو مطلق سچ کو ایک برتر مقام پر برقرار رکھتے خود علم اور علوم کی بنیاد پر ہی سوال اٹھاتی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ علم الکلام کی اس نفی پسند شکل میں جس علم کا انکار کیا جاتا تھا وہ قدیم تصور علم تھا۔ اس کا انکار جدید دور کے اوائل میں کیا جا چکا ہے۔

جدید دور میں روایتی علم الکلام کے امکان کی نفی کی تائید اس تاریخی امر سے بھی ہوتی ہے کہ مسلم معاشروں میں جدید علم الکلام کی تحریکیں پیدا ہوئیں جو روایتی علم الکلام کے کارآمد ہونے کی صورت میں برمحل نہ ہوتا۔ روایتی علم الکلام میں اس سیاسی مسئلہ پر بھی کوئی ڈسکورس موجود نہیں تھا جو جدید کالونیل استبداد کے شکار مسلم معاشروں کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا تھا۔
مندرجہ بالا تناظر میں وہ بنیادی سوال سامنے آتا ہے جو اس تحریر کا مرکزی نکتہ ہے۔ کیا جدید علمیات میں جدید علم الکلام ممکن ہے؟

یہ سوال گذشتہ سوال جتنا اہم اور اتنا ہی وضاحت طلب ہے۔ موجودہ تحریر اس کا مکمل احاطہ نہیں کر سکتی۔ یہ موضوع مضامین کے ایک سلسلے کا متقاضی ہے جو یقیناً کئی اہل علم کی مشترکہ کاوش سے ہی ممکن ہے۔ تاہم اس تحریر کے مرکزی خیال کے اندر رہتے ہوئے جدید علم الکلام پر ایک محدود تبصرہ ضرور ممکن ہے۔

جدید علم الکلام بنیادی طور پر ایک متناقض فکری صورتحال کا نام ہے جہاں ایک طرف علمی تو دوسری طرف عملی تقاضے ہیں۔ مذہبی شناخت کے اعتبار سے ایک طرف جدید علوم کا چیلنج درپیش ہے تو دوسری طرف کالونیل قبضہ کے دوران سامنے آنے کی وجہ سے سیاسی سوالات حل طلب ہیں۔ سرسید اور اقبال کی مثالوں میں یہ دونوں تقاضے اور رجحانات بطور بنیاد صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ جدید علم الکلام کے لیے یہ طے کرنا جلد سے جلد ضروری تھا کہ اگر حکمران کے علوم اپنا لیے جائیں تو ایسا تو نہ ہوگا کہ ہم حکمرانوں کی تشکیل کردہ حقیقت میں داخل ہوجائیں اور اگر ایسا ہوگیا تو پھر ہم ان سے سیاسی آزادی کیسے اور کیونکر حاصل کرسکیں گے۔

یورپ میں جدید دور اور جدید تصورعلم میں ہی سیاسی حقوق، قومیت اور آزادی کے جدید تصورات پیدا ہوئے۔ ایک ڈسکورس کے طور پر جدید دنیا میں جدید علوم کا انکار ممکن نہیں تھا۔ جدید علوم یہاں بھی متعارف ہوئے اور سیاسی آزادی بھی آئی۔ سرسید اور اقبال نے جدید علوم کو بطور خاص اہمیت دی اور جدید ذہن کے سوالات کی طرف متوجہ ہوئے۔ تاہم جدید علوم اور جدید صورتحال کے ساتھ ان کی مفاہمت کی وجہ سے ہماری روایت کا ایک وافر حصہ غیر متعلق ہوگیا اور اس میں ان حضرات کا قصور نہیں اور نہ ہی یہ ایسا ہونے سے روک سکتے تھے۔ اس امرکو تاریخی جبر سمجھنا چائیے جو ہماری توقعات اور خواہشات سے آزاد ہے۔

علم الکلام میں جدید علوم کے ساتھ مفاہمت کا رشتہ کئی اہم سوالات پیدا کرتا ہے۔ دور جدید میں ایک طویل کشمکش کے بعد مذہب کو کلچرل اعتبار تک محدود کر کے فرد کا ذاتی مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ جدید علوم بھی اسی بڑے فریم ورک کے اندر ناصرف کام کرتے ہیں بلکہ اس فریم ورک کو تشکیل دیتے ہیں۔ مسلم معاشروں میں ابھی سیکولرازم کی روایت موجود نہیں اور مذہب کو سیاست و معاشرت میں اہم کردار حاصل ہے۔ جدید علم الکلام کے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ جدید علوم کے ساتھ فکری مفاہمت کس مقام پر جا کر ہمارے روایتی مذہب کو تبدیل شروع کرتی ہے۔ عوامی سطح پر اس اعتبار سے چنداں غور نہیں کیا جاتا اور آئے روز ایسے حضرات اور کتب و مضامین وغیرہ سامنے آتے رہتے ہیں جس میں جدید سائنسی انکشافات کی تشریح و تاویل کے ذریعے مذہبی اعتقادت کو نہایت سادگی سے ثابت کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ کوئی صاحب جدید نظریہ ارتقا کی کسی تشریح کی مدد کسی مذہبی معجزے کی تاویل کرتے ہیں تو کوئی اور حضرت نظریہ اضافیت سے کوئی اور تاویل کرتے ہوں گے۔ ایسے حضرات یہ نہیں سوچتے کہ جدید سائنس اپنی علمیاتی حدود میں جس کائنات سے سروکار رکھتی ہے وہ ایسی نہیں جس میں روایتی مذہب کی مطلق سچائی کو اس کا شایان شان مقام مل سکے۔ یہ حضرات سدسکندری کو زبان سے چاٹ چاٹ کرگرانا چاہتے ہیں اور ہر بار جب تھکتے ہیں تو اس خوش گمانی میں سکون ڈھونڈتے ہیں کہ آج نہیں تو کل وہ اسے گرا لیں گے۔

جدیدعلمیات میں مذہبی تصور حقیقت کی تحدید بھی لازمی ہے جس طرح قدیم تصور علم سے پیدا شدہ کئی نظریات کی تحدید کی گئی۔ تاہم کلچر میں مذہب کا نفوذ تعلقی فلسفہ اور قدیم علوم کی نسبت کہیں زیادہ ہے جس کی اہمیت کے پیش نظر جدید دور میں مذہب کو کلچر کی کلیت میں اہم جزو سمجھا جاتا ہے۔ جدید علم الکلام کا بنیادی چیلنج یہ ہے کہ وہ جدید علمیات میں موجود تحدید و تخصیص کے غالب رجحان پر اپنی پوزیشن واضح کرے۔

جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا کہ یہ تحریر جدید علم الکلام کے امکان کے سوال کا مکمل احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ چنانچہ اب ایک آخری پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کا اختتام کیا جاتا ہے۔

جدید الہیاتی فکرمیں اب ہمارے یہاں کئی شخصیات موجود ہیں جن کی فہرست مودودی، پرویز اور غامدی تک آتی ہے۔ ان کے موقف گونا گوں ہیں۔ ان پر جامع تبصرہ ممکن نہیں تاہم جدید علم الکلام کی کلی صورت کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بنیادی سوال ضرور پوچھا جانا چائیے جس سے ناصرف جدید علم الکلام کی حدود واضح ہوسکتی ہیں بلکہ اس کے امکان کے سوال پر پیش رفت بھی ممکن ہے۔
جدیدعلم الکلام میں پیش رفت کے قائل اور متجدد مزاج ریفارمرز کے نزدیک بھی فکر میں حرکت کا بنیادی اصول اجتہاد ہے۔ اقبال سمیت یہ ریفارمرز جدید علم اور جدید ذہن کے مسائل کی اہمیت کے بھی قائل ہیں۔ مسلم معاشرے میں جس کلی بحران کے نتیجہ میں جدید علم الکلام کا ڈسکورس سامنے آیا ہے اس میں رہتے ہوئے یہ ریفارمرز دراصل مسلم ریفارمیشن اور تنویر کے نمائندے ہیں۔ اگر اجتہاد میں تقلید ترک بھی کر دی جائے جیسا کہ اقبال تجویز دیتے ہیں تب بھی دیکھنا چائیے کہ اپنے خالص تصور میں اجتہاد کی حدود کیا ہیں اور جدید علمیات سےتعلق میں ریفارمیشن اور تنویر کے مقصد کی خاطر اپنی حدود میں رہتے ہوئے اجتہاد کے ٹول سے کیا کچھ حاصل کیا جا سکتاہے۔ کیونکہ اجتہاد میں روایتی نظام اعتقاد کی قلب ماہیت نہیں ہوتی۔ کیا جدید علم الکلام اجتہاد کو ریفارمیشن کے اصول کے طور پر استعمال کر سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).