سعودی عرب کیوں لبرل ہو رہا ہے؟


گزشتہ مضمون میں ہم نے ایران میں تنگ نظری کے خاتمے کی بات کی تھی کہ وہاں معاشی حالات کے علاوہ شہریوں کی ذاتی زندگی میں مداخلت کے سبب ایک لاوا پھوٹ پڑا ہے اور اب رہبر علی خامنہ ای کو ہٹانے اور ”اسلامی ریاست“ کے خاتمے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اب ہم سعودی عرب کی موجودہ اصلاحات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

سعودی عرب میں 1979 میں مسجد الحرام پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد سے آل سعود نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے شدت پسندوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اس سے پہلے وہاں عورتوں مردوں کے لباس اور باہر گھومنے پھرنے پر پابندیاں نہیں تھیں۔ ستر کی دہائی میں آپ کو سعودی ساحلوں پر بکنی میں ملبوس گوریوں کی تصاویر مل جاتی ہیں۔ بازاروں میں عورتیں عبایا پہننے یا سر ڈھانپنے کی پابند نہیں تھیں۔ مگر 1979 کے فیصلہ کن سال میں جب ملا کو سماج سدھار مشن دیا گیا تو سعودیوں کی آزادیاں چھن گئیں۔

نتیجہ یہ کہ وہاں تفریح کے مواقعے ختم ہو گئے۔ اپنے وطن کے اندر یہ گھٹ گھٹ کر رہنے پر مجبور تھے۔ تفریح اور ثقافتی سرگرمیوں کو ختم کر کے صرف سخت گیر مذہبی احکامات نافذ کیے جانے لگے۔ کچھ عرصے تو سب حالات کنٹرول میں رہے مگر پہلی خلیجی جنگ کے بعد جب یہ تنگ نظری کی فضا میں پلے بڑھے نوجوانوں نے اسی بنیاد پر سعودی حکومت کے خلاف جنگ شروع کرنے کی کوشش کی جس بنیاد پر وہ افغانستان کی سوشلسٹ حکومت کے خلاف لڑ رہے تھے تو سعودی حکمرانوں کو اندازہ ہونے لگا کہ صورت حال ٹھیک نہیں ہے۔ نائن الیون نے دنیا کا رخ بدل دیا۔ نائن الیون کے ہائی جیکروں میں سے تقریباً تمام ہی سعودی نکلے۔ اس کے بعد شاہ عبداللہ نے کچھ اصلاحات شروع کیں اور ملا کا زور توڑنا شروع کیا۔

گزشتہ برسوں میں تیل کی قیمت تیزی سے کم ہوئی۔ نتیجہ یہ کہ وہ سعودی عرب جو تیل کی فروخت کے بل پر بے تحاشا امیر تھا اس کا بجٹ خسارے میں جانے لگا۔ عوام میں بے چینی پیدا ہونے لگی۔ حکومت نے تیزی سے اقدامات کیے۔ سال کو 355 دن کی ہجری تقویم سے ہٹا کر 365 دن کی عیسوی تقویم پر لایا گیا تاکہ دس دن کی تنخواہیں بچیں۔ غیر ملکی محنت کشوں کو ملک سے نکالنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تاکہ بے روزگار سعودی نوجوانوں کو ملازمتیں دی جائیں۔ اور اب کرپشن کے خاتمے کے نام پر آل سعود کی گرفتاریاں شروع ہوئیں تاکہ عوام کو یہ احساس ہو کہ ان کی معاشی تکالیف کے اسباب ختم کیے جا رہے ہیں۔ اس سے شہزادہ محمد بن سلمان کو نوجوانوں میں خاص طور پر بہت زیادہ مقبولیت ملی۔

لیکن شہزادہ محمد بن سلمان صرف آل سعود کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے دلیرانہ قدم پر اکتفا کرنے والے نہیں تھے۔ انہوں نے یہ جان لیا تھا کہ عوام کو اگر شخصی آزادیاں دی جائیں تو پھر وہ معاشی اور سیاسی تکالیف کو برداشت کر لیں گے۔ دوسرا ان کو مذہبی شدت پسندی سے دور ہٹانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کو خوشی فراہم کرنے کے لئے کچھ کیا جائے۔ آزادی کے سانس لینے کے لئے سعودی شہری دبئی اور یورپ سمیت دوسرے ممالک میں سیاحت کے لئے جاتے تھے اور بیس کھرب روپے سے زیادہ کا زرمبادلہ خرچ کرتے تھے۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے یہ فیصلہ کیا کہ سعودی شہریوں کو ملک کے اندر ہی وہ تفریحات فراہم کی جائیں جن کے لئے یہ دوسرے ملکوں میں جاتے تھے۔ اس سے نہ صرف سعودی شہریوں کا بیس کھرب روپے کا زرمبادلہ بچتا، بلکہ دوسرے ممالک کے شہری ویسے ہی سعودی معیشت میں زرمبادلہ شامل کرتے جیسے دبئی میں کر رہے ہیں۔ یوں سعودی عرب میں ایک ایسے بڑا تفریحی علاقہ بنانے کے منصوبے کی داغ بیل پڑی جہاں مروجہ سعودی قوانین کا نفاذ نہیں ہو گا بلکہ یورپ جیسے قوانین ہوں گے۔ وہاں سیاح اسی طرح ساحل سمندر اور دوسری تفریحات سے لطف اندوز ہو سکیں گے جیسے بحیرہ روم کے ساحلوں پر ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ انہوں نے ملک کے اندر مختلف تفریحی سرگرمیوں کو شروع کیا تاکہ نوجوان ادھر اپنی زائد انرجی خرچ کر سکیں۔ ہر ویک اینڈ پر مختلف میوزک کنسرٹ اور دوسرے تفریحی میلے شروع کیے گئے۔ مرد و زن کے اختلاط پر سے پابندی ہٹا لی گئی اور جوڑے ادھر اکٹھے جا کر لطف اندوز ہونے لگے۔

ان اقدامات کے دو اہداف تھے۔ پہلا معاشی ترقی اور دوسرا نوجوانوں کو شدت پسندی سے دور لے جا کر یہ بات بتانا کہ یہ دنیا بہت خوبصورت ہے۔ زندگی کو پرلطف بنا کر جینا چاہیے نہ کہ اپنے اور دوسروں کے لئے عذاب بنا کر۔ سعودی ولی عہد کی اس جرات مندانہ پالیسی کی وجہ سے ان کی مقبولیت سعودی نوجوان طبقے میں بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اور اب یہ نوجوان ان کو اپنا نجات دہندہ اور ایک دانشمند حکمران سمجھ کر ان کی بھرپور حمایت کریں گے اور یوں آل سعود کے اقتدار کو مزید دوام ملے گا۔

پاکستانی حکومت کو اس سعودی پالیسی سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ہم نے سنہ اسی کی دہائی میں تنگ نظری کی جو فصل بوئی تھی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایشیا کا دروازہ کراچی کی بجائے دبئی بن گیا۔ کراچی اترنے والی پچاس سے زیادہ ائیرلائنز کی منزل دبئی بن گیا۔ سرمایہ پاکستان میں آنے کی بجائے یہاں سے باہر جانے لگا۔ ہم سنہ اسی کی دہائی میں سعودی عرب کے فکری غلام ہو کر تنگ نظری اور شدت پسندی کے گہرے گڑھے میں جا گرے تھے، اب وقت ہے کہ ہم اس سے باہر نکلیں اور سعودی عرب سے ہی یہ سیکھ لیں کہ انتہاپسندی صرف تباہی لاتی ہے۔ ملک کی بقا تنگ نظری میں نہیں بلکہ لبرل ازم کی وسیع النظری میں ہے۔

ایران میں ریاستی تنگ نظری کی موت

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar