شہنشاہ موسیقی بڑے فتح علی خاں


جنوری 2015 کی ایک سہانی شام میرے لیے ہمیشہ یادگار رہے گی جب ایک دیرینہ دوست سید مجتبیٰ حیدر کے توسط سے مجھے اور میرے بڑے بھائی کو استاد بڑے فتح علی خاں سے پہلی مرتبہ ملاقات کا شرف ملا۔ کہتے ہیں کہ ایک سچا اور بڑا فنکار برگد کے درخت کی مانند ہوتا ہے جو طویل عرصہ تک اپنے پاس آنے والوں کو چھاؤں فراہم کرتا ہے۔ موسیقی سے محبت کرنے والے افراد اس بات کی تائید کریں گے کہ فتح علی خان کی ذات بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ پہلی ہی ملاقات میں ایسا محسوس ہوا جیسے خان صاحب سے برسوں کی شناسائی ہے۔ خان صاحب سے ملاقات سے قبل میں نے اور میرے بھائی نے متفقہ فیصلہ کیا تھا کہ چونکہ موسیقی سے متعلق ہمارا علم محدود ہے اس لئے خان صاحب جیسی قد آور شخصیت کے قیمتی وقت کا ضیاع بالکل بھی مناسب نہ ہوگا۔ لہذا ملاقات کو آدھ گھنٹے تک ہی محدود رکھا جائے۔ ملاقات کی ابتدا سے ہی خاں صاحب نے انتہائی شفقت کا اظہار کیا اور کلاسیکی موسیقی سے متعلق ہمارے سوالات کے مدلل جواب دئیے۔ اسی دوران گھڑی پر نظر ڈالی تو ملاقات کو ایک گھنٹہ سے زائد وقت گزر چکا تھا ہم نے خان صاحب سے اجازت لینا چاہی لیکن انہوں نے حیرت کا اظہار کیا اور کہا ” کدھر جا رہے ہو؟ ابھی تو بات شروع بھی نہیں ہوئی۔ چائے پی کر چلے جانا “۔ یہ تھی اپنے عہد کے شہنشاہ موسیقی بڑے فتح علی خاں کی انسان دوستی۔

قریب 2 برس بعد جنوری کی ہی ایک شام کو یہ افسوسناک خبر ملی کہ خان صاحب اب ہم میں نہیں رہے- استاد بڑے فتح علی خاں کا شمار عہد حاضر کے صف اول کے فنکاروں میں کیا جاتا ہے۔ پٹیالہ گھرانہ سے تعلق رکھنے والے استاد بڑے فتح علی خاں نے خیال گائیکی کے ساتھ ساتھ ہندوستانی موسیقی کی جملہ اصناف میں اپنے منفرد اور دلچسپ انداز گائیکی کی بدولت بہت نام کمایا۔ 1935 میں بھارت کے شہر ہوشیارپور (شام چوراسی ) میں پیدا ہونے والے استاد بڑے فتح علی خاں نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد استاد اختر حسین خان سے حاصل کی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے چچا استاد عاشق علی خان سے بھی موسیقی کی تعلیم لی۔ موسیقی کی ابتدائی تعلیم کے دور سے ہی فتح علی خان کو اپنے بڑے بھائی استاد امانت علی خان کا ساتھ رہا۔ فتح علی خان نے صاحب نے پہلی بار عوام کے سامنے محض 11 برس کی عمر میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ کلکتہ میں ہونے والی آل انڈیا میوزک کانفرنس میں انہوں نے اپنے بھائی استاد امانت علی خان کی سنگت میں گایا اور خوب داد وصول کی اور یہ جوڑی پورے ہندوستان میں مشہور ہوگئی۔ اس کے بعد سے موسیقی کے ہر پروگرام میں پٹیالہ گھرانہ کی اس جوڑی کی شرکت لازمی ٹھہری۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے ریڈیو پاکستان اور پھر پاکستان ٹیلیویژن کے لئے انہوں نے لاتعداد راگ، ٹھمریاں اور گیت ریکارڈ کروائے۔ 1974 میں استاد امانت علی خان کی اچانک وفات کے بعد فتح علی خاں نے موسیقی سے کنارہ اختیار کر لیا لیکن بعد ازاں اپنے بزرگوں اور خیر خواہوں کے اصرار پر دوبارہ گانے لگے۔ امانت علی خان کی وفات سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لیے خان صاحب کو کافی محنت کرنا پڑی لیکن انہوں نے اس چیلنج کو خوش اسلوبی سے قبول کیا اور کامیاب رہے- خان صاحب کو امانت علی خان کے چلے جانے کا ہمیشہ دکھ رہا اور اپنی زندگی کے آخر تک امانت علی خان کے ذکر پر ہمیشہ آبدیدہ ہوجاتے اسی طرح انہیں اسد امانت علی خان کی وفات کا بھی دکھ تھا۔ ایک اور موقع پر خان صاحب سے ملاقات کے دوران اسد امانت علی کا بلاس خانی ٹوڈی میں گایا ہوا ایک گیت سنا تو خان صاحب فرط جذبات سے آبدیدہ ہوگئے وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے ایسے فنکار اب دوبارہ پیدا نہیں ہوں گے۔ بڑے فتح علی خان نے ہندوستانی موسیقی کی جملہ اصناف میں اپنا لوہا منوایا جن میں خیال ترانہ۔ ٹھمری۔ دادرا۔ غزل۔ کافی۔ گیت۔ نعت۔ مرثیہ۔ نوحہ اور سوز بھی شامل ہے۔ پاکستان کے علاوہ خان صاحب نے بھارت۔ افغانستان۔ امریکہ۔ نیپال۔ ناروے سمیت دنیا بھر میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور پٹیالہ گائیکی کو چار چاند لگا دئیے۔ اپنے فنی سفر میں انہوں نے بہت سے تجربے بھی کئے اور اسی سلسلہ میں ہندوستانی اور مغربی موسیقی کو ملایا اور “راگا ساگا ” کے نام سے ایک البم ریلیز کیا جو بے حد مقبول ہوا۔

اکثر ملاقاتوں میں خان صاحب اس بات سے نالاں نظر آئے کہ حکومتی سطح پر اس فن کی سرپرستی نہیں کی جاتی۔ ان کے بقول ہندوستان۔ ناروے۔ امریکہ سمیت کئی ممالک نے ان کو شہریت دینے کی پیشکش کی اور وہاں کے لوگوں کو سکھانے کی درخواست کی۔ ایسی لاتعداد اور پر کشش پیش کشوں کو خان صاحب نے ہمیشہ نظر انداز کرتے ہوئے ایک ہی جواب دیا “وہ فنکار نہیں جس کو وطن سے پیار نہیں”۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں کہ انہوں نے کبھی کسی کو سکھانے سے انکار کیا ہو۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ۔ افغانستان۔بھارت۔ ناروے کے علاوہ دنیا بھر کے کئی نامور فنکار خان صاحب کے ہی شاگرد ہیں۔اپنی زندگی کے آخری ایام تک بڑے فتح علی خان نوجوانوں کو علم موسیقی سے آراستہ کرتے رہے اور سینکڑوں شاگرد ان سے فیضیاب ہوتے رہے۔ خان صاحب تو اب مومن پورہ قبرستان لاہور میں ابدی نیند سو رہے ہیں لیکن علم موسیقی کو پھیلانے کا کام آج بھی جاری ہے جو ان کے بڑے فرزند استاد سلطان فتح علی خان بہ خوبی انجام دے رہے ہیں۔ آج پٹیالہ گھرانہ کے اس چراغ کی پہلی برسی کے موقع پر انکو یاد کرنے اور خراج دینے کے لئے ان کا گایا ہوا راگ بھوپالی سنتے ہیں جو انہوں اپنے بیٹے رستم فتح علی خاں کی سنگت میں گایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).