عوام خوشی منانے کا حق مانگتے ہیں!


وہ جامنی پیلے اور لال رنگ کے تنبو ہوتے تھے۔ بیچ میں گول چکر سا بنا ہوتا اور سائیڈوں پہ انگریزی حرف V جیسا پیٹرن موجود ہوتا تھا۔ جس کے یہاں شادی ہوتی، گلی بند کی جاتی، محلے والے بھی کوئی خاص شکایت نہ کرتے اور یہی تنبو گلی کے تارکول یا اینٹوں میں بڑی میخوں سے ٹھونک دئیے جاتے تھے۔ ساتھ والی گلی سے اگر تنبو والی گلی کی طرف مڑنا بھی ہوتا تو اکثر نکڑ پہ بیٹھا ہوا کوئی بزرگ سگریٹ جھاڑتے ہوئے بتا دیتا کہ پُت فلانیاں دے گھر شادی اے، راہ ڈکیا جے، پرلے پاسوں ہو کے لنگھ جاؤ (بیٹا فلانوں کے گھر شادی ہے، راستہ بند ہے، دوسری گلی سے ہو کے نکل جاؤ)۔ سائیکل موٹر سائیکل سوار بھی آرام سے مڑ جاتا تھا۔

جتنی مرضی وی آئی پی شادی ہوتی اندر وہ فیروزی رنگ کے پینٹ، پلاسٹک کی نارنجی سیٹ اور پشت والی کرسیاں ترتیب سے رکھ دی جاتیں۔ ایک آدھا قورمہ، نان، کٹی ہوئی سلاد اور فرنی پہ ساری برادری نمٹ جاتی تھی۔ پانی پینے کے جگ اور گلاس سٹیل کے ہوتے تھے اور پانچ بندوں میں ایک گلاس رکھا ہوتا تھا۔ اس وقت سب سے زیادہ بھرم پکوئیے کے ہوتے تھے۔ ایک چارپائی پہ سارا سامان تیار ہو رہا ہوتا، دوسری پہ وہ مامے چاچے ہوتے جو خاندان کی ہر شادی میں اسی چارپائی کے بے لوث پروٹوکول آفیسر ہوا کرتے تھے، اور سامنے بہت سی اینٹوں پہ بلائے جانے والے مہمانوں کے حساب سے دیگیں پک رہی ہوتی تھیں۔ دولہا ایک سے پانچ روپے تک کے ہاروں میں سجا سٹیج پہ ہوتا، دو چار قریبی دوست یا بزرگ اس کے آس پاس انہی صوفوں پہ بیٹھے ہوتے جو بیٹھک سے نکال کے لائے جاتے تھے۔

اس وقت ہسپتال میں آنے والی موت اور شادی ہال سے جانے والی بیٹی کی بارات ایک قسم کا طعنہ ہی سمجھی جاتی تھی۔ پھر زمانہ بدل گیا۔ بھٹو دور میں جب بے تحاشا ان سکلڈ لیبر باہر گئی تو ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر، وی سی آر، پکے مکانوں اور جاپانی گاڑیوں سے شروع ہونے والا یہ سفر میرج ہال میں ہونے والی شادیوں تک پہنچا۔ اب گھر کے باہر ولیمے یا شادی کے لیے تنبو قناتیں لگانے والے غریب غربے سمجھے جاتے ہیں۔ پھر لوگوں میں پہلی سی برداشت بھی نہیں ہے۔ شادی تو ایک طرف جنازے یا قل کے لیے بھی گلی بند ہونے پہ آئے روز پھڈے ہوتے ہیں۔ بات بھی درست ہے۔ اس وقت چھ ماہ بعد گلی بند ہوتی تھی چار پانچ گھنٹوں کے لیے، اب تو ہفتوں کے لیے مین سڑکیں تک بلاک ہو جاتی ہیں، چوکوں پہ دھرنے لگتے ہیں۔

چھوٹی بہن کی شادی کا مرحلہ درپیش تھا۔ ہم لوگ بیٹھے، مہمانوں کا حساب لگایا، باقی چیزیں طے کیں اور تین ماہ پہلے ایک شادی ہال میں جا کے بکنگ کروا لی۔ گرمیاں عموماً شادی بیاہ کے لیے آئیڈیل نہیں سمجھی جاتیں۔ نومبر، دسمبر، جنوری، فروری کے چار مہینے فل شادی کا سیزن ہوتا ہے۔ ہر روز آسمان پہ کہیں نہ کہیں کی گئی آتش بازی نظر آتی ہے، سڑک پہ چلتے چلتے اچانک سست رفتار گاڑیوں کا ایک قافلہ آپ کا راستہ روکتا ہے، وہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ لو بھیا ایک اور بارات کا سامنا تھا مجھ کو… تو ہم لوگوں نے بھی ان دنوں کا پروگرام بنایا تھا اور کوئی بھی دوسرا کام کرنے سے پہلے ہال بک کروانے کو ترجیح دی۔ اس کی وجہ بڑی سالڈ تھی۔ چونکہ شادی ہالز کا سیزن ہی یہ ہوتا ہے اس لیے لوگ تین چار ماہ پہلے مطلوبہ تاریخ بک کروا لیتے ہیں، بعد میں جب فنکشن سر پہ ہو اور اس وقت جگہ بک کرانے کے لیے جائیں تو قسمت سے ہی کوئی اچھی جگہ نصیب ہوتی ہے۔ تو خیر، سارے کام ہو گئے، ہال، مینیو، سجاوٹ، فوٹوگرافی، میک اپ، جیولری، پتہ نہیں کیا کیا مرحلے تھے جو خدا کے فضل سے تمام ارینج ہو گئے۔ کل ابا کسی کام سے فیصل آباد گئے تو واپسی پہ لاہور آ گئے۔ صبح اٹھ کے دھوپ میں بیٹھے تھے، مزے سے اخبار پڑھ رہے تھے کہ اچانک میری طرف اخبار بڑھایا اور کہا کہ یار دیکھو یہ جو میرج ہالز کا نوٹس آیا ہے اس میں کہیں ہمارے والے ہال کا نام تو نہیں ہے؟ بھائی سورج کی طرف کمر کیے مزے سے دھوپ سینک رہا تھا، ایکدم پسینوں پسین ہو گیا۔ شہر لاہور کے 164 شادی ہال ہوں اور آپ والے کا نام نہ ہو، آئین سٹائن کے نظریہ آفت کے مطابق ایسا گھٹ ہی ہوتا ہے۔

اس اشتہار کو تین مرتبہ پڑھا، ہر بار ایسے‘ جیسے ماں کسی لاڈلی اولاد کی جوئیں نکالتی ہے۔ ایک ایک حرف غور سے، ایک ایک نام پہ انگلی رکھ کے، ملتے جلتے ناموں کو کھلی آنکھوں اور پسینے بھری پیشانی سے، صد شکر کہ اس لسٹ میں واقعی اپنے والے ہال کا نام نہیں تھا۔ فقیر واحد وجہ اس معجزے کی یہ جانا کہ بکنگ ابا کے نام پہ کروائی گئی تھی۔ اپنا نام نامی تو سونے کی رسید پہ استعمال کیا جائے تو خریدار مٹی وصول پائے، زمین خریدی جاوے اور حسنین جمال لکھا ہو تو چھ ہی ماہ بعد وہ فراڈ نکل آئے، اور تو اور پانچ ہزار والا نوٹ اے ٹی ایم سے بھی نکلے تو بندہ ہاتھ جوڑے کہیں آس پاس سے چیک کرواتا ہے کہ مقدر بفضل تعالیٰ ایسے تمام معاملات میں گہن لگا پایا گیا ہے اور ہر بار ایک نئے انداز سے سحر ہوتی ہے۔

اس نوٹس میں پہلی تنبیہہ تو یہ تھی کہ ”شہریوں کو مطلع کیا جاتا ہے‘‘ اس کے بعد مضمون کا مفہوم کچھ ایسے تھا کہ درج ذیل ناموں والے ہال مختلف قوانین کی خلاف ورزی کرکے بنائے گئے ہیں، یہ ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، عام شہریوں کو پریشانی ہوتی ہے، ان کے خلاف فوری ایکشن شروع کرنے کا ارادہ ہے، عوام الناس کو اس اشتہار کے بعد تیس دن کی مہلت ہے، وہ اپنے اپنے فنکشن بھگتا لیں ورنہ ٹھیک تیس دن کے بعد نہ شادی ہال ہو گا نہ شادی ہو گی، نقصان کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے‘‘۔

یہ کیسا مذاق ہے سمجھ سے باہر ہے۔ کم از کم تین سے چار ماہ کی مہلت تو دی جاتی۔ سب جانتے ہیں شادیاں سردیوں میں زیادہ ہوتی ہیں، لوگ بے چارے پتہ نہیں کتنا پہلے سے بک کرواتے ہیں تاکہ کارڈ وغیرہ چھاپ کے وقت سے بانٹ دئیے جائیں اور باقی کاموں کی طرف توجہ ہو۔ یہ ایک مہینے کے نوٹس والی بات سمجھ نہیں آئی۔ اب ایک ماہ کی وارننگ دینے کا مقصد کسے پریشان کرنا ہے؟ اندازہ کریں کہ ایک ہال کی اگر روز بکنگ نہ بھی ہو، مہینے میں بیس دن بک ہوں۔ فروری کے بیس اور مارچ کے بیس دن۔ کل ہوئے چالیس دن، یعنی چالیس خاندان ایک شادی ہال پر پابندی کے خوف سے دربدر ہو جائیں گے۔ 164 کو چالیس سے ضرب دیجیے تو ساڑھے چھ ہزار کا فگر آتا ہے۔ یعنی پورے شہر میں بہت گھٹا لیجئے تو پانچ ہزار خاندانوں کے فنکشن اس وارننگ سے اتھل پتھل ہو جائیں گے۔ کوئی بے چارہ نیا ہال ڈھونڈے گا جہاں ریٹ اب دگنے کر دئیے جائیں گے، کوئی جا کے پابندی لگنے پہ ہال والوں کا سر پھاڑے گا اور کوئی دل پکڑ کے بیٹھ جائے گا کہ اب کریں تو کیا کریں۔

کیا یہ سارے کے سارے ہال ایک ہی دن زمین سے اگ آئے؟ جون جولائی کی گرمیوں یا محرم کے دنوں میں شادی ہالوں کے خلاف یہ قدم کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ کڑی وہیں جا کے ملتی ہے کہ ہال مالکان کو انڈر پریشر رکھ کے بہتر سے بہتر معاملہ طے کیا جائے گا اور تین چار ماہ کی مہلت مل جائے گی۔ جو ڈیل نہ کر پایا اس کے یہاں سارے فنکشن والے رل جائیں گے۔ اس معاملے میں حکومت سے ہاتھ جوڑ کے التجا ہے کہ متعلقہ ادارے کو لوگوں کے رنگوں میں بھنگ نہ ڈالنے دے۔ یہ مارچ اپریل تک ٹھنڈے ہو جائیں اس کے بعد جو دل میں آئے کریں۔ لوگ پہلے کدھر کوئی بھنگڑے ڈال رہے ہیں جو یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی عذاب بن جائیں۔ رحم عالی جاہ رحم، عوام خوشی منانے کا حق مانگتے ہیں۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain