جو سوچیں گے وہ ٹی وی سکرین پہ نظر آئے گا؛ کیوٹو یونیورسٹی کا حیرتناک تجربہ


جاپانی ماہرین نے دیکھی جانے والی یا سوچی جانے والی تصاویر کو دماغی سگنلوں کے ذریعے دوبارہ اسکرین پر دکھانے کی حیرت انگیز ٹیکنالوجی وضع کرلی ہے۔ فوٹو: فائل

جاپانی ماہرین نے دیکھی جانے والی یا سوچی جانے والی تصاویر کو دماغی سگنلوں کے ذریعے دوبارہ اسکرین پر دکھانے کی حیرت انگیز ٹیکنالوجی وضع کرلی ہے۔

اس ٹیکنالوجی کا دل و دماغ مصنوعی ذہانت (آرٹیفشل انٹیلی جنس) سے استفادہ کرنے والا ایک خصوصی سافٹ ویئر ہے جو کسی منظر کو دیکھتے یا سوچتے وقت اس کی تفصیلات جان کر انہیں ایک ٹی وی ڈسپلے پر دکھاتا ہے۔ اسے بلاشبہ دماغی آنکھ قرار دیا جاسکتا ہے۔

اس عمل کو سائنسی کہانیوں یا فلموں کی طرح قرار دیا جاسکتا ہے جس میں لوگ اپنی یادوں کو اسکرین پر دوبارہ دیکھتے اور ریکارڈ کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسی ایک فلم ’بلیک مِرر‘ بھی مقبول ہوئی جس میں انسانی یادداشت کو فارورڈ اور ریوائنڈ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

کیوٹو یونیورسٹی کی کامیٹانی لیبارٹری کے پروفیسر یوکائی یاسو کامیٹانی نے اپنی ٹیم کے ساتھ یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ انہوں نے ایف ایم آرآئی اسکین کو دیکھتے ہوئے ایک نیورل نیٹ ورک استعمال کیا ہے جو ان اسکین کے ذریعے دماغ میں خون کی تبدیلی سے ہونے والے برقی سگنل کو پڑھتا ہے۔

دماغی اسکین سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو اسکرین پر دکھایا گیا جس میں رضاکاروں سے کہا گیا تھا کہ وہ ایک الو، شیشے والی کھڑکی یا ڈاک کے سرخ ڈبے کو چشمِ تصور سے۔ اس کے بعد رضاکاروں سے کہا گیا کہ وہ ہنس، چوکور شکل، تیندوے، باؤلنگ گیند، گولڈ فش یا ضرب (کراس) کے نشان پر غور کریں۔ اس کے بعد دماغی اسکین کو پڑھتے ہوئے اس سافٹ ویئر نے اسکرین پر قریب قریب ویسی ہی تصاویر بنائیں جو لوگوں نے سوچی تھیں یا دیکھنے کے بعد ان کا تصور کیا تھا۔

مزید بہتری کرکے اس ٹیکنالوجی کو خیالات، یادیں اور دیگر دماغی تصاویر اور سوچ کو اسکرین پر دکھانے کا راستہ ہموار ہوگا۔ تاہم اس کی درستگی ہر شخص میں مختلف ہوسکتی ہے۔ ان تحقیقات پر مبنی ایک تحقیقی مقالہ ’’بایو آرکائیو‘‘ (BioArixv) نامی ویب سائٹ پر شائع ہوچکا ہے۔

ماہرین نے اپنی تحقیق میں کہا ہے، ’ہم نے دماغی سوچ کی تصاویر کو ظاہر کرنے کا ایک نیا طریقہ پیش کیا ہے۔ اس میں انسان ایک منظر دیکھتا ہے اور اس کی دماغی سرگرمی کو پکسل میں دیکھا جاتا ہے جس میں گہرے نیورل نیٹ ورک کے فیچرز استعمال کیے گئے ہیں۔ اس طرح دماغی عکس نگاری کو پرت در پرت کئی سطحوں میں ظاہر کیا گیا ہے۔

جب انسانی آنکھوں سے دیکھی جانے والی تصاویر کا عکس کمپیوٹر نیورل نیٹ ورک نے بنایا تو وہ حیرت انگیز طور پر ان مناظر سے مشابہ تھا جو وہ خود دیکھ رہے تھے۔

یوکائی یاسو کے مطابق یہ پورا نظام دماغی سرگرمی کو پڑھ کر تصاویر بناتا ہے اور اس ماڈل کو پہلے قدرتی مناظر پر تربیت دی گئی ہے لیکن یہ اگر کوئی چوکور، گول اور تکونی شے دیکھ رہا تب بھی یہ اس کا دماغ پڑھ کر اسے اسکرین پر دکھاتا ہے۔

واضح رہے کہ نیورل نیٹ ورک عین اسی طرح سیکھتا ہے جس طرح ہم کوئی شے پڑھ کر یا دیکھ کر اسے سیکھنے یا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان مصنوعی نیٹ ورکس کو کسی بھی معلومات کو پہچاننے کے قابل بنایا جاسکتا ہے خواہ وہ تقریرہو، متن (ٹیکسٹ) ہو یا کوئی تصویر ہو۔ اسی بنیاد پر چہرے پہچاننے والے نیٹ ورک بھی بنائے گئے ہیں۔

کیوٹو ماہرین کی ٹیم نے پہلے ڈیپ نیورل نیٹ ورک کو 50 قدرتی مناظر دکھائے اور تربیت دی۔ اس کے بعد رضاکاروں کو وہ مناظر دکھا کر ان کے ایف ایم آر آئی کو پڑھ کر انہی تصاویر کو دوبارہ بنانے کی کوشش کی گئی جو بہت حد تک کامیاب رہی اور ان تصاویر میں بھی بیان کی گئی ہے۔ تاہم اس نیٹ ورک کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).