مولانا آزاد کے لاہور میں آب حیات تلاش کرتا ایک شاعر


آئیں  اندرون لاہور چلیں  اورچار صدیاں پیچھے ہو آئیں.

میاں قصہ  یہ رہا کہ ہمارے ایک دوست حسان صاحب ہیں جو فرزندِ دلبند محمد اظہار الحق صاحب کے ہیں اور اظہار صاحب ہیں شاعرِ بے بدل اپنے اُسلوب کے اور اُسلوب وہ ایسا ہے کہ اُس کی روایت آنے والی  نسل کے شعرا  نے خوب  نبھائی۔ حسان سے ہماری دوستی اسلام آباد میں اُن دِنوں پیدا ہوئی جب ہم اور وہ آئی ایٹ میں ہمسائے ہوا کرتے تھے اور شعرو ادب پر پہروں چڑھائی کرتے تھے ۔ شہر کی گلیاں گھومتے تھے اور فیض و راشدکو زبان کی سان پر چڑھاتے تھے ۔ پھر یہ ہوا کہ  حسان میاں تو سول سروس میں چلے گئے اور اُن کے سرکاری آدمی بننے کے بعد ہم لاہور چلے آئے  ۔ دو دن پہلے جو ملنے آئے تو سوچا کیوں نہ آج اندرون  پھِرا جائے ۔ سہر پہر 4 بجے مال روڈ پی سی ہوٹل سے نکلے اور مال روڈ سے پرانی انار کلی ،وہاں سے ناصر باغ ،اور یہاں سے گورنمنٹ کالج کو دائیں ہاتھ رکھتے ہوئے ، سیدھے کربلا گامے شاہ جا نکلے ،اُدھر سے داتا صاحب کے پہلو سے ہو کر لوہاری گیٹ  کو پیچھے چھوڑا اور کشمیری دروازے کے اندر سے ہو کر دہلی گیٹ جا پہنچے ۔ ہماری پہلی منزل یہاں سے اکبری منڈٰی تھی۔ مَیں کوئی پچیس سال پہلے یہاں آیا تھا ۔اُس وقت آغا سلمان باقر صاحب سے ایڈریس لے کر یہاں حاضری دی تھی ۔ تب مَیں کہیں 15 سال کا تھا اور بہت چِکنا تھا ،جب مولوی محمد حسین آزاد کی آبِ حیات نئی نئی پڑھی تھی اور مجھے مولانا سے عشق ہو چکا تھا۔ میں مولانا کا مسکن دیکھنے اوکاڑا سے خاص لاہور آیا تھا اور گھنٹوں یہاں پھرتا رہا تھا ۔ مگر اب تو نقشہ ہی کچھ اور ہو چکا تھا ، تب بہت آسانی سے پہنچ گیا تھا اور اب سب کچھ پہچان سے باہر تھا ۔

 دہلی گیٹ کے باہر برگد کا ایک بڑا پیڑ ہے ،کوئی پان سو سال پرانا ہو گا اور غالباً جلال الدین  اکبر ہی کے دور کا ہو گا ۔ اُسی برگد کی طرف سے ہو کر اور چھوٹی گلیوں کو کاٹتے ہوئے نکلے اور رُخ تھا ہمارا اکبری منڈی کی طرف ، یہ منڈٰی بھی اُسی دور کی ہے اور اکبر بادشاہ کے نام سے موسوم ہے  پوچھتے پاچھتے  اور چلتے چلتے آخر ہم پہنچ ہی گئے۔ یہ جگہ ویسے تو تنگ تھی مگر اندرون لاہور کی نسبت کافی کھلی تھی ۔ چار سو سال پہلے اور اُس کے کافی بعد یعنی مولوی آزاد کے دور تک بھی کافی کھلی ہو گی ۔ یہاں آ کر ہمیں عصر کا ویلا سا ہو گیا ۔ منڈٰی کی سب دکانیں پرانی طرز کی تھیں ۔لکڑی کے تختے ، پرانی سوتی بوریاں اور نیم اور پیپلوں کے سائے ۔ دکانیں اول تا آخر بند تھیں ، سبب شاید یہ ہو کہ اتوار کا روز تھا ۔

وہاں دو پرانے پیپل ایسے تھے کہ اُن کی داڑھیاں صدیوں کا جھمیلا دیکھے ہوئے تھیں ۔ جن کی بزرگی کے سائے  میں ہزاروں گھُڑ سوار، سینکڑوں پنج ہزاری اور بیسیوں  بادشاہ سستائے ہوں گے ۔ اِن پیپلوں کے استھان میں بڑے بڑے دو چبوترے بھی تھے، جہاں کچھ دیر ہم بھی پِسر گئے اور صدیوں کی مہار کو چرخے کی لَے میں  اُلٹے گھما کر شاہ حسین کی کافیوں میں کھو گئے ۔ خدا قسم یہ پیپل کے پیڑ اور اُن کے قدموں میں بنے چبوترے نہ تھے ،گویا زمانوں کے پھیر تھے جن میں ہم اٹک کے رہ  گئے۔ اور ہم تو یہ بھی سوچتے رہ گئے کہ مولانا آزاد یہاں سے آٹا ، گھی ، پیاز اور دال چاول خرید کر لے جاتے ہوں گے اور ابراہیم کی  یہاں کچھ دیر راحت پکڑتے ہوں گے ۔ یہاں سے ہمارا اگلا قیام آزاد بازار کی طرف تھا کہ وہاں آزاد منزل کے قُرب میں پہنچنا ہمارا مقصود تھا ۔ بھئی مولانا محمد حسین آزاد سے کون واقف نہیں ۔ ہاں وہی آبِ حیات ، نیرنگِ خیال ، سیرِ ایران ، دربارِ اکبری اور سخن دانِ فارس والے مولانا آزاد ، کہ جن کا ذکر آتے ہی میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے ۔ مولانا آزاد نے گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی زبان کی پروفیسری کے دوران  اِسی اکبری منڈی کے پہلو میں اپنا مکان اور مکان کے پہلو میں امام بارگاہ  بنایا تھا۔ مکان کا نام آزاد منزل رکھا ، اور جس بازار میں وہ مکان تھا اُسے آزاد بازار کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے مگر اب یہاں کے لوگ نہیں جانتے کہ یہاں کس نابغہ ہستی کا قیام رہا ہے ،اور اِن گلیوں میں کون فرشتہ سیرت ہلکے قدموں کی چاپ سناتا چلا گیا ہے ۔

ہم کافی دیر آزاد منزل کے پاس رُکے رہے ،سچ پوچھیں تو اب یہاں آزاد منزل کی روح موجود ہے آزاد منزل کہیں نہیں۔ مکان کہیں تقسیم در تقسیم ہو کر دکانوں اور مختلف لوہے کے شٹروں میں تحلیل ہوچکا ہے، اور بسیرا اِن بوسیدہ مکانوں میں  کرخنداروں کا ہے۔  ہاں مگر امام بارگاہ والی جگہ پر ابھی امام بارگاہ ہے مگر وہ  بالکل نئی ہے ۔ ہم نے اپنی چشمِ تصور میں مولانا آزاد کی روح کو پکارا اور اُسی زمانے میں جا نکلے مگر یہ چند لمحے ہی ہوا ، ہائے مبارک ہیں یہ گلیاں اور مبارک ہیں یہ کوچے جہاں اب یادوں کے سوا کچھ نہیں ۔ کاش کوئی حکومت پڑھے لکھوں کی ہوتی تو اِس نابغے کا کوچہ اور مکان برباد ہونے سے بچ جاتا۔ اِس بازار میں امام بارگاہوں کا ایک تسلسل ہے۔ مگر آبادی یہاں کی اب ساری کرائے دار ہے اصل مالکان اِن مکانوں اور آباد کرنے والے امام بارگاہوں کے اندرون لاہور سے باہر پوش علاقوں میں جا بسے ہیں ۔ ساتھ ہی مبارک حویلی ہے ۔

میں اور حسان مبارک حویلی میں داخل ہوئے تو ہمارا سامنا ایک پٹھان سے ہو گیا جو وہاں کا چوکیدار تھا ۔  پیاس نے ستا رکھا تھا ، ہم نے کہا  میاں ذری ٹھنڈا پانی ملے گا ، کہنے لگا ، نہ بھائی میں نے کبھی یہاں ٹھنڈا پانی نہیں رکھا ،یہ حوض میں سے پی لو۔ حویلی کے درمیان میں ایک حوض بھی تھا ، ہم نے کہا بھئی خدا کا خوف کرو ، یہ حوض کا پانی بھلا پینے کا ہے؟ آپ نے امام بارگاہ میں ٹھنڈا پانی کیوں نہیں رکھا ، کہنے لگا بات یہ کہ میرا گلا خراب ہے اور جب مَیں خود ٹھنڈا پانی نہیں پیتا تو دوسرے کیوں پیئیں ؟  پوچھنے پر بتایا کہ ہم یہاں دو سو سال سے نسل در نسل  چوکیدار ہیں ۔ ہمارا کام صرف چوکیداری ہے۔ لکڑ دادا نوابوں کا ملازم تھا اور وفاداری اتنی کی کہ وہ ملازمت آج تک  ہاتھ سے جانے نہیں دی ۔ مبارک حویلی سے  اگلی نثار حویلی ہے اور یہی وہ حویلی ہے جہاں صدیوں سے عاشورے کا مرکزی جلوس نکلتاہے ۔ حویلی کو قفل چڑھا تھا، جو عاشورہ کے دنوں ہی میں کھلتا ہے ۔ اِ س بازار میں ہم کافی دیر رُکے اور گئی رُتوں کو یاد کیا۔ کبھی بیٹھ کے ،کبھی رُک کے کبھی چل پھر کے ۔ اِس مقام سے آگے نکلے تو تو سو سو گلیاں ہمارے سامنے تھیں ،ہم نے ایک گلی پکڑی ،اللہ جانے کیا نام تھا ،ہاں مگر کشمیری بازار کو نکلتی تھی۔ اِس گلی میں پیڑے والے ، نان بائی ، کھوئے والے ، حلیم والے ،شیر مال والے ، دودھ قلفے والے اور برفی والے ،اپنا اپنا مال لگائے بیٹھے تھے ۔ ہم نے ایک دوکان سے برفی خریدی ، دکاندار کا نام  بھلا سا تھا اور سفید داڑھی میں کافی عمردراز لگتا تھا ۔ برفی واقعی کھانے کے لائق ،صرف دودھ کھوئے میں گھلی تھی ۔ پاس ہی چائے والے کا کھوکھا ،ویسا ہی پرانی طرز کا جو ہمیں  بھاتا ہوتا ہے ۔

کچھ بے فکرے اُس تنگ گلی میں بیٹھے لڈو سے شغل فرما رہے تھے ، چائے کی چسکیاں لیے جاتے تھے  اور دل پرچا تے تھے ۔ہم اور آگے چلے گئے ۔ ایک پٹھان جوتے گانٹھ رہا تھا ۔ ہمارا جوتا بہت خستہ ہو چلا تھا ، کہا بھائی یہ لیجیے ،پالش کر دیجیے ۔ اُس نے جوتا پکڑا اور خوب پالش کر کے چمکا دیا ، پوچھا بھئی ایسی اچھی پالش کیسے کی ؟ کہاں کے ہو ، کہنے لگا  باجوڑ کا ہوں۔ اُس کے اِس اچھے کام پر ہم نے اُسے پچاس روپے اور دو ٹکڑے برفی کے دیے اور آگے ہو نکلے ۔ اور وہاں پہنچے جہاں ایک چبوترے پر سنہری مسجد ہے ، ایک سنہری مسجد ہم نے دہلی میں بھی دیکھی تھی بیرم خاں کے تراہے کے پاس۔ ہم وہاں اُس مسجد میں دو گھنٹے آرام بھی فرما چکے ہیں۔ مگر یہ لاہور والی سنہری مسجد بہت خوبصورت طرز کی ہے ۔ درمیان میں وہی حوض کہ جہاں وضو کا سلسلہ ابھی جاری ہے ۔ ہمارے ہاں کی تمام مسجدوں کا پتھر تو رنجیت سنگھ اُکھڑوا کر لے گیا تھا مگر ہیئت ویسی موجود ہے ۔ اِس مسجد کے تینوں گنبد ابھی سنہرے اور تین بالائی کے ہیں ، ڈاٹوں کی شکل دارا شاہی مزاج کی ہے اور سیڑھیاں سُرخ پتھر کی ہیں ۔غرض بہت خوبصورت مسجد ہے اور یہاں بھی ایک پیپل کا درخت گذشتہ صدیوں کا نوحہ گر موجود ہے ہم نے تھوڑٰی دیر یہاں بھی قیام کیا مسجد بنانے والے اور پیپل لگانے والے کے حق میں دعائے خیر کی اور آگے ہو لیے ۔

اب ہم شاہی حمام کے صحن میں تھے جہاں آج کل لاہوری ناشتے کا ڈنکا خوب بجتا ہے ، حمام کو ایک ہوٹل کی شکل دے دی گئی ہے ، بھئی اس حکومت میں آپ اور توقع بھی کیا کر سکتے ہیں ۔ ، البتہ اِس حمام کی محرابیاں ، ڈاٹیں ، طاق، فرش ، راہداریاں ،روشیں، دالان در دالان ، غلام گردشیں ،حوض،گنبد ، سقف ،کنویں ،غرض جو کچھ بھی ہے لا جواب ہے ۔ یہاں کچھ دیر ٹھہر کے ہم مسجد وزیر خاں میں جا رُکے ، یہاں حسان میاں نے نماز ادا کی اور ہم نے اِس عرصے میں عینِ محرابِ مسجد میں بیٹھ کر غزل کے دو شعر کہے ، آپ بھی سُن لیجیے ۔

لال مکانوں   کے  سائے جب لمبے پڑتے شام  ڈھلے

چھوٹی اینٹ کی چوڑی سڑکوں پر ہم چلتے شام ڈھلے

منت    ماننے   ایک صنم کی جا نکلے ہم مسجد میں

آئتیں  پڑھتے ،آہیں بھرتے ، سجدے کرتے شام  ڈھلے

جس کے گھر کی اُونچی چھتوں پر دھوپ میں کنکوے اُڑتے تھے

اُن پاک بنیروں کے کنگروں پر بھاگتے پھرتے شام ڈھلے

 مسجد وزیر خاں در اصل شاہجہانی دور میں لاہور کے گورنر وزیر خاں کے حسنِ نیت کا کارنامہ ہے اور یہ خوبصورت تحفہ نہایت دل آویز ہے ، مسجد کے درو بام یہاں بھی دارا شاہی اسٹائل کے ہیں ، تمام مسجد چھوٹی انیٹوں سے تیار ہوئی ہے اور اِس کے محراب و طاق و مینار پر چونے کے پلستر  پر کچے رنگوں سے بیل بوٹۓ نہایت شوخ انداز مین آج بھی دیکھنے کے لائق ہیں  ۔ صحن میں حوض ہے اور پاس ہی صحن میں وزیر خاں کا مقبرہ ہے جو مسجد کے سبب آباد بھی ہے ، نمازی یہاں فاتحہ خوانی کا حق بھی ادا کرتا ہیے ۔ میری صلاح ہے ،باہر سے جو آئے مسجد وزیر خاں کو ضرور دیکھ کر جائے ۔ مسجد کے گردا گرد مسافرانہ سرائیں ہیں جنھیں چھوٹے چھوٹے دروازوں میں بانٹا گیا ہے ۔ مسجد وزیر خاں اور شاہی حمام کے گرد آج بھی کافی کھلی جگہ ہے ، اور چوک کا سا منظر پیش کرتی ہے ۔ یہاں سے نکلے تو ہم  دہلی دروازے میں موجود آثارِ قدیمہ کے عملے کے پاس جا رُکے جو دو لڑکیوں پر مشتمل تھا ، ایک لڑکی شکلاً جمیل تھی ،آپ اُسے حسین بھی کہہ سکتے ہیں۔ خیر،  ہم نے اُنہیں جھوٹ بول کے یوں  اپنا تعارف کرایا کہ دراصل ہم ہندوستان سے آئے ہیں اور پاکستان سے محبت کرتے ہیں تو وہ بہت پُر جوش ہو گئیں ۔ میں نے اپنا نام راہول بتایا اور حسان نے کہا کہ وہ شنکر بھیا ہیں ۔ یہ سُن اور دیکھ کر اُنھٰں بہت اچھا لگا جس کا فائدہ ہم نے یوں اُٹھایا  کہ دونوں نے  دونوں کے بیچ بیٹھ کے ایک ایک تصویر بنوائی اور دوبارہ اُن کے سامنے نہ آنے کی قسم کھائی ۔

لیجیے بھائی یہاں سے ہم پیدل نکلے ، ہوا اِتنی ٹھنڈی چل رہی تھی کہ ایسی ہوا کشمیر میں کاہے کو چلتی ہو گی۔  دہلی دروازے سے نکلے اور سڑک پر آئے تو بارش شروع ہو گئی ۔ ہم نے ایک رکشا لیا اور انار کلی بازار کا رُخ کیا ۔ انارکلی پہنچ کر بارش رُک گئی تھی، یا شائد ہلکی ہلکی چلی رہی تھی ، کچھ ہی دیر میں پاک ٹی ہاوس میں آ نکلے ، یہاں حلقہ اربابِ ذوق کا اجلاس ابھی ابھی ختم ہوا تھا ۔ وہیں کچھ ادیبوں سے ملاقات ہوئی، احباب ہم سے حلقہ میں آنے کی قسمیں لیتے رہے اور ہم جھوٹی قسمیں کھاتے رہے ۔ وااللہ آج کل یہاں تنقید کے نام پر شرفا کی تذلیل کی جاتی ہے ،وہ بھی نئے ترقی پسند لڑکوں کے ہاتھوں، خیر ہم نے یہاں بیٹھ کے ٹھنڈا پانی پیا ، دودھ پتی پی اور واپس پی سی ہوٹل کو سدھارے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).