انور سدید… تمام اپنی صحبت ہوئی، والسلام


\"nasirابھی اردو دنیا جمیل الدین عالی، انتظارحسین، ندا فاضلی، فاطمہ ثریا بجیااور زبیر رضوی کے انتقال کے صدمے سے سنبھلنے نہیں پائی تھی کہ انور سدید کے سانحہ ارتحال کی خبر سننے کو ملی۔ اردو دنیا پر بہت بھاری وقت گزررہاہے۔ اس نسل کے سب بڑے ایک ایک کرکے رخصت ہوتے جارہے ہیں، جس نے سنتالیس سے پہلے آنکھ کھولی تھی، اور جس کے پاس زندگی، ادب، دنیا کی وہ بصیرت تھی، جو چند بڑے سانحات جھیلنے سے حاصل ہوئی تھی۔ شناور اسحاق نے شاید اس حوالے سے کہا ہے:

اب تو وہ نسل بھی معدوم ہوئی جاتی ہے

جو بتاتی تھی فسادات سے پہلے کیا تھا

1928ءمیں سرگودھا کے ایک قصبے میانی میں ایک معمولی متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے انوارالدین کو اردو دنیا نے ڈاکٹر انور سدید کے نام سے پہچانا۔ ان کی ساری زندگی سخت محنت، ریاضت اور لگن کی غیر معمولی مثال تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان کے عام سرکاری سکولوں میں ہوئی۔ میٹرک کے بعد اسلامیہ کالج، لاہور میں داخل ہوئے، لیکن سیاسی سرگرمیوں میں دلچسپی اور عملی شرکت کی وجہ سے ایف ایس سی نہ کرسکے، ا ور والدین کو وقت طور پرمایوس کیا، جو انھیں سائنس کی تعلیم دلاکر ڈاکٹر، انجینئر \"anwar\"بناناچاہتے تھے (ہائے جنوبی ایشیا کے والدین کے اس خواب نے کتنے نوجوانوں کی زندگی برباد کر ڈالی!) در اصل اس زمانے میں انوارالدین اپنے اس راستے کی تلاش میں تھے، جو تقدیر نے ان کے لیے لکھا تھا، مگر جسے ہر شخص کو خود دریافت کرنا ہوتاہے، اور اکثر اپنے بڑوں سے لڑ جھگڑ کر دریافت کرنا ہوتا ہے۔ ایف ایس سی میں ناکامی کے بعد انھوں نے محکمہ آبپاشی میں ایک معمولی ملازمت شروع کردی۔ ایک طرف، یہ بالغ اور ذمہ دار فر دکے طور پر زندگی شروع کرنے کا اعلان تھا، تو دوسری طرف انٹر میںاپنی ناکامی کی تلافی بھی تھی۔ اس کے باوجود وہ سخت مضطرب تھے، اور اس کی شدت سے وہ خود بھی واقف نہیں تھے۔ ابتدا میں ان کی طبیعت کے اضطراب نے افسانے لکھنے کی صورت میں اظہار کا راستہ تلاش کیا ؛یہ افسانے اس زمانے کے بڑے ادبی پرچوں بیسویں صدی، نیرنگ خیال اور عالمگیرمیں شایع ہونے لگے۔ آگے کے واقعات بتاتے ہیں کہ انوارالدین کو رفتہ رفتہ اپنے اضطراب کے غیر معمولی پن کا احساس ہوا۔ اگر اس اضطراب کے ساتھ، فطرت نے انھیں ذہانت نہ دی ہوتی تو انوارالدین محض دوسرے درجے کے افسانہ نگار بن کررہ جاتے، اور محکمہ آب پاشی کی اسی معمولی ملازمت سے ریٹائر ہوتے۔ انھوں نے نہ تو اس ملازمت پر اکتفا کیا، نہ افسانے لکھنے پر۔ انھوں نے اپنی تعلیمی اہلیت میں اضافے کا فیصلہ کیا۔ ان کے ذہن میں تعلیمی اہمیت کا تصور بہ یک وقت سائنسی، عملی اور ادبی تھا۔ چناں چہ انھوں نے ایک طرف گورنمنٹ انجینئرنگ کالج رسول سے ایسوسی ایٹ انجینئر کا ڈپلومہ حاصل کیا، جس کے بعد انھیں سب انجینئر کی ملازمت مل گئی، نیز انجینئر کا اعلیٰ امتحان ڈھاکہ انجینئرنگ انسٹی ٹیوٹ سے پاس کیا، جس کی مدد سے وہ ایگزیکٹو انجینئر کے اعلیٰ عہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، اور دوسری طرف انھوں نے ایم اے اردو کا امتحان اوّل بدرجہ اوّل پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا، اور پھر یہیں سے اردو ادب کی تحریکیں کے عنوان سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

افسانہ نگار انورسدید کی ملاقات جب وزیر آغا سے ہوئی تو ان کی زندگی میں ’انقلابی ‘ تبدیلی رونما ہوئی۔ ان پر منکشف ہوا کہ وہ بنیادی طور پر نقاد ہیں۔ ان کے پی ایچ ڈی کے نگران بھی وزیر آغا بنے۔ وزیر آغا کے رسالہ اوراق میں وہ مسلسل لکھنے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیر آغا \"il\"کا انور سدید کی زندگی میں وہی مقام ومرتبہ ہے، جو ایک ہادی اورمرشد کا ہوتا ہے۔ انورسدید کی انا کبھی آڑے نہیں آئی، اس حقیقت کو قبول کرنے میں کہ انھیں تنقیدکا راستہ دکھانے والے، اور اسے اپنی زندگی کی سب سے بامعنی سرگرمی بنانے کی تحریک بلکہ انسپیریشن دینے والے وزیر آغا تھے۔ انور سدید نے آخر دم تک وزیر آغا سے اپنے فکری اور جذباتی تعلق کو قائم رکھا۔ ہر لکھنے والے کی زندگی میں ایک وقت آتا ہے، جب وہ اپنے اساتذہ، مربیوں، یہاں تک کہ اپنے والدین سے خود کو مختلف محسوس کرتا ہے، اور اس کی ایغو ایک الگ اپنی پہچان بنانے پر اسے سخت مجبور کرتی ہے۔ ذہین آدمی کے یہاں تو یہ وقت خاصا جلدی آجاتا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی بات ہے کہ انورسدید نے اپنی تحریروں میں کہیں ظاہر نہیں کیا کہ ان کی ایغو نے انھیں وزیر آغا کے اثر سے آزاد ہونے پر مجبور کیا ہو۔ وزیر آغا کا انتقال ستمبر 2010ءمیں ہوا، تو اس کے بعد بھی انھوں نے آغا صاحب کو مسلسل یاد رکھا۔ یہی نہیں انورسدید کے ادب کی دنیا کے اہم ترین دوست بھی وہی بنے جو رسالہ اوراق میں لکھنے والے تھے، اور مخالفین بھی وہی بنے جو اوراق کے حریف فنون کے لکھنے والے تھے۔ غلام جیلانی اصغر، غلام الثقلین نقوی، سجاد نقوی، صاحبزادہ غلام رسول، ہارون الرشید تبسم، پرویز بزمی، حیدرقریشی، فرخندہ لودھی، صابر لودھی، یوسف خالد، سلیم آغا، شاہد شیدائی ان کے قریبی احباب میں شمار ہوتے ہیں، اور باقی احباب وہ سب تھے جو سرگودھا میں ہیں۔ انھوں نے سرگودھا کے نئے لکھنے والوں کی سرپرستی اسی طرح جاری رکھی، جس طرح آغاصاحب نے اپنے زمانے میں جاری رکھی تھی۔ ذوالفقاراحسن، عابد خورشید اور سکندرحیات کی صورت میں انھیں سرگودھا دبستان ایک نئے عہد میں داخل ہوتا محسوس ہوتاتھا۔ سرگودھا اور وزیر آغا سے جذباتی وابستگی بعض اوقات انھیں غلو سے کام لینے کی ترغیب دیتی تھی، اور وہ آسانی سے اس کا شکار ہوجاتے تھے۔ یہ غلو دوستوں اور مخالفین دونوں کے لیے تھا!

انورسدید میں تخلیق اور تنقید کی صلاحیت کو جناتی کہنا غلط نہ ہوگا۔ انھوں نے 1988ءمیں ریٹائرمنٹ کے بعد نہ صرف نئی ملازمت شروع کی، بلکہ لکھنے کی سابق رفتار میں مزید اضافہ کیا۔ انھوں نے اس مرتبہ ملازمت کے لیے صحافت کا انتخاب کیا، جس کاتجربہ انھیں اردو \"dr__anwar_sadeed_by\"زبان سرگودھا کی ادارت سے حاصل تھا، نیز وہ جسارت، مشرق، امروز، حریت اور پاکستان ٹائمز میں کالم نگاری کا تجربہ بھی رکھتے تھے۔ پہلے نئی زندگی، قومی ڈائجسٹ اور روزنامہ خبریں میں کام کیا، بعد میں مستقل طور پر نوائے وقت سے وابستہ ہوگئے، اور آخر دم تک وابستہ رہے۔ نوائے وقت سے ان کی وابستگی محض پیشہ ورانہ نہیں تھی، بلکہ نظریاتی بھی تھی۔ انور سدید کی زندگی کا یہ ایک انوکھا رخ ہے کہ وہ ایک طرف وزیر آغا کے زمین اساس ثقافتی اور ادبی نظریے، جو وزیر آغا کے سیکولر ہونے کی گواہی دیتا ہے، اس میں کشش محسوس کرتے تھے، اور دوسری طرف نوائے وقت کی مذہب اساس قومی نظریاتی صحافت کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ اس تضاد کا احساس رکھتے تھے یا نہیں، اور اگر رکھتے تھے تو اس کا حل کیا تھا ان کے پاس؟ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ اگر کسی تضاد کا احساس ہو، مگر اس کو حل نہ کیا جائے تو وہ آدمی کی نفسی دنیا کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔ انور سدید کے یہاں ہمیں کسی نفسی سطح کے عذاب کے شواہد نہیں ملتے۔ ایک امکان یہ ہے کہ وہ نظریات کی جدلیت کے بجائے، ان میں مفاہمت اور مکالمے میں یقین رکھتے ہوں۔

 جو لوگ انورسدید کی تحریریں باقاعدگی سے پڑھتے تھے، وہ جانتے ہیں کہ وہ صحافت اور ادب دونوں میں یکساں دل چسی سے، اور مسلسل کام کرتے تھے۔ اردو ادب کے دو چار رسالے ایسے ہوں گے، جن میں وہ نہ لکھتے ہوں۔ اتنا لکھنے کے لیے جناتی اعصاب چاہییں۔ معاصر ادیبوں پر حوصلہ افز اتحریریں سب سے زیادہ انھوں نے لکھیں، اور ا س بات کی پروا کیے بغیر کہ اس سے ان کی ناقدانہ رائے پر انگلی بھی اٹھ سکتی ہے۔ وہ ادب کی مشعل کو نئی نسل کے ہاتھوں تھمانے میں یقین رکھتے تھے۔

انور سدید نے افسانے سے آغازکیا۔ ان کے افسانوں کو کچھ عرصہ پہلے ذوالفقار احسن نے شایع کیا ہے۔ انھوں نے شاعری لکھی، انشایئے لکھے، خاکے لکھے، ادبی کالم لکھے، تبصرے لکھے، اور سب سے زیادہ تنقید لکھی، اور تمام اصناف پر تنقید لکھی۔ کلاسیکی ادب پر لکھا، جدید ادب پر لکھا، معاصر ادب پر لکھا۔ اردو ادب، خواہ وہ پاکستان میں لکھا جارہاہے یا بھارت میں، یہ سب ان کے مطالعے میں آتا تھا، اور وہ اس پر اپنی رائے دیتے تھے۔ اردو میں سالانہ ادبی جائزے بھی سب سے زیادہ انھوں نے لکھے، اور ان میں سے کچھ طویل ترین ادبی جائزے تھے۔ انھوں نے اسی (80)سے زائد کتابیں لکھیں، جن میں سے اردو افسانے کی کروٹیں، اردو افسانے میں دیہات کی پیش کش، میرا نیس کی اقلیم سخن، اردو ادب کی مختصر تاریخ، اردو ادب میں سفرنامہ، انشائیہ اردو ادب میں، قبال کے کلاسیکی نقوش، اردو ادب کی تحریکیں، وزیر آغا، ایک مطالعہ، پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ، ادب کہانی بہ طور ِ خاص قابل ذکر ہیں۔ اردو ادب کی تحریکیں، ان کا پی ایچ، ڈی کا مقالہ تھا۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے، جس کے ہوتے ہوئے، انھیں اردو دنیا فراموش نہیں کرے گی۔

انور سدید کے انتقال کے ساتھ اردو ادب کا ایک عہد ختم ہوا۔ وہ عہد جس میں نظریاتی کش مکش تھی، کہیں مجادلہ تھا، کہیں مکالمہ تھا، کہیں شخصی کش مکش تھی، اور شدت کے ساتھ تھی مگر جس میں دوسروں کی آرا کے احترام، اوران کی ادبی خدمات کا اعتراف بھی موجود تھا۔ اس سب سے اردو ادب میں ایک غیر معمولی تحرک تھا، رنجشیں تھیں، سیاست تھی، اور رونق بھی تھی، جس کا غیر جانب دارانہ جائزہ آنے والا مﺅرخ لے گا۔ ہمیں اس پر میر کی مثنوی در مذمت دنیا کا آخری شعر یاد آرہا ہے:

قلم رکھ دے کر میر ختم کلام

تمام اپنی صحبت ہوئی، والسلام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments