براک اوباما کی بہن اور باپ کی کہانی


تحریر: براک اوباما۔
ترجمہ: ڈاکٹر مجاہد مرزا۔

( براک اوباما کی سوتیلی بہن آؤما، جو ان کے باپ کی پہلی بیوی سے تھی، جب براک جوان تھے، سے ملنے امریکہ آئی تھی۔ اس نے اپنے باپ سے متعلق جو گفتگو کی اسے پڑھ کر مجھے لگا کہ کوئی کسی کو نہیں سمجھتا، یا سمجھ نہیں سکتا، یا سمجھنا نہیں چاہتا کیونکہ باہمی تعلق میں ہم سب نے اپنی ذات کو پہلے رکھا ہوتا ہے جس کے طیف کے عکس ایک دوسرے کو سمجھنے میں اپنے رنگ اجاگر کرتے رہتے ہیں۔ میں نے مناسب جانا کہ اسے اردو قارئین کے لیے ترجمہ کر دوں۔ مترجم )

ہم نے اپنے والد سے متعلق زیادہ گفتگو نہیں کی تھی صرف اس رات کے کھانے کے بعد جب میں نے آؤما کو چائے بنا کر دی تو اس نے مجھے ”بڈھے شخص“ ( وہ اسے اولڈ مین کے نام سے یاد کیا کرتی تھی، مترجم )کے بارے میں بتانا شروع کیا، کم از کم وہ کچھ جو وہ یاد کر پائی۔

”براک، میں نہیں کہہ سکتی کہ میں اسے واقعی جانتی تھی۔ شاید کوئی بھی نہیں۔ واقعی نہیں۔ اس کی زندگی اس قدر بکھری ہوئی تھی۔ لوگوں کو بس کچھ ٹکڑے یا ریزے معلوم تھے، تاحتٰی اس کے بچوں کو بھی۔

” میں اس سے ڈرتی تھی۔ تم جانتے ہی ہو کہ جب میں پیدا ہوئی وہ پہلے ہی ملک سے باہر جا چکا تھا۔ پہلے ہوائی میں تماری ماں کے پاس اور پھر ہارورڈ میں۔ وہ جب کینیا لوٹا تو ہمارا سب سے بڑا بھائی رائے اور میں چھوٹے بچے تھے۔ ہم تب تک اپنی ماں کے ساتھ دیہات میں رہتے تھے۔ علیگو میں۔ میں بہت چھوٹی تھی اس لیے اس کے آنے سے متعلق زیادہ نہیں یاد نہیں رکھ سکی۔ میں چار برس کی تھی اور رائے چھ سال کا، ممکن ہے وہ تمہیں اس کے بارے میں زیادہ بتا پائے۔ مجھے بس اتنا یاد ہے کہ وہ روتھ نام کی ایک امریکی عورت کے ساتھ آیا تھا ( براک کو جوانی میں ان کی ماں نے بتایا تھا کہ تمہارا دادا سفید فام عورت کا خون اپنی نسل میں شامل کیے جانے کے خلاف تھا، اس لئے مجھے تمہارے باپ کو چھوڑنا پڑا تھا، مترجم ) اور اس نے ہمیں ہماری ماں سے لے لیا تھا تاکہ ہم نیروبی میں ان کے ساتھ رہیں۔ روتھ پہلی سفید فام شخصیت تھی جس کے میں نزدیک ہوئی تھی اور یکایک چاہا تھا کہ وہ خود کو میری نئی ماں خیال کرے۔ “

” تم اپنی سگی ماں کے پاس کیوں نہیں رہیں؟ “
آؤما نے سر کو جھٹکا دیا۔ ” مجھے حقیقت تو معلوم نہیں۔ کینیا میں البتہ طلاق کے بعد اگر مرد چاہیں تو بچے اپنے پاس رکھتے ہیں۔ ایسا ہی ہے۔ میں نے اپنی ماں سے اس بارے میں پوچھا تھا، مگر اس کے لیے اس معاملے میں بات کرنا مشکل ہے۔ اس نے صرف اتنا بتایا کہ بڈھے کی نئی بیوی نے شوہر کی پہلی بیوی کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا تھا اور اس نے، مطلب میری ماں نے سوچا کہ بچے بڈھے کے پاس اچھے رہیں گے کیونکہ وہ امیر تھا۔

”ان پہلے سالوں میں بڈھے کا واقعی کام خوب چلا۔ وہ ایک امریکی آئل کمپنی کے لیے کام کر رہا تھا، شیل، میرے خیال میں۔ آزادی کے چند برس بعد بڈھے کے اعلٰی سرکاری عہدیداروں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات استوار ہو گئے تھے۔ ان میں سے بہت سے اس کے ساتھ سکول میں پڑھے تھے۔ نائب صدر، وزراء، وہ سب کبھی کبھار گھر میں آیا کرتے تھے، اس کے ساتھ بیٹھ کر پیتے اور سیاست پر بات کیا کرتے تھے۔ اس کے پاس بہت بڑا گھر تھا، بڑی سی گاڑی تھی اور ہر ایک اس سے متاثر تھا کہ اس نے اتنا جوان ہوتے ہوئے غیر ملک سے اتنی تعلیم حاصل کر لی ہوئی ہے۔ اور اس کی ایک امریکی بیوی بھی ہے، ایسا ہونا ان دنوں نادر ہوا کرتا تھا۔ اگرچہ بعد میں جب ابھی وہ روتھ کا شوہر تھا وہ کبھی کبھار میری سگی ماں کے ساتھ بھی گھومنے نکلتا تھا۔ جیسے کہ اسے لوگوں کو دکھانا تھا، سمجھتے ہو ناں۔ کہ وہ جب چاہے اپنی حسین افریقی بیوی سے بھی متمتع ہو سکتا ہے۔ اس دوران ہمارے مزید چار بھائی پیدا ہوئے۔ مارک اور ڈیوڈ روتھ کے بچے تھے، جو ویسٹ لینڈز میں ہمارے بڑے سے گھر میں پیدا ہوئے تھے۔ ایبو اور برنارڈ، میری ماں کے بچے تھے جو دیہات میں اس کے اور اس کے گھرانے کے ساتھ رہتے تھے۔ تب مجھے اور رائے کو ایبو اور برنارڈ کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ وہ ہم سے ملنے کبھی ہمارے ہاں نہیں آئے تھے اور جب بوڑھا انہیں ملنے جاتا تھا وہ روتھ کو بتائے بغیر اکیلا ہی وہاں جایا کرتا تھا۔

” میں نے کچھ عرصہ پہلے تک بہت دیر اس بارے میں نہیں سوچا تھا کہ ہماری زندگیاں کیسے دو حصوں میں بنٹی ہوئی تھیں کیونکہ میں چھوٹی تھی۔ میرے خیال میں رائے کے لیے دشوار تھا کیونکہ وہ اتنا بڑا تھا کہ اسے یاد رہا ہوگا کہ علیگو میں ماں اور اپنے لوگوں میں ہماری زندگیاں کیسی تھیں۔ میرے لیے سب ٹھیک تھا۔ روتھ ہماری نئی ماں کا سلوک تب ہمارے ساتھ اچھا تھا۔ وہ ہمارے ساتھ کم و بیش اپنے بچوں کا سا سلوک روا رکھتی تھی۔ میرا خیال ہے کہ اس کے والدین امیر تھے اور وہ امریکہ سے ہمارے لیے خوبصورت تحائف بھیجا کرتے تھے۔ جب بھی ان کی طرف سے کوئی پارسل پہنچتا میں واقعی بہت خوش ہوا کرتی تھی۔ مگر مجھے یاد ہے کہ اکثر اوقات رائے تحفہ لینے سے انکار کر دیا کرتا تھا، چاہے وہ ٹافیاں ہی کیوں نہ ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار اس نے ان کے بھیجے ہوئے چاکلیٹ لینے سے انکار کیا، لیکن رات کو دیر بعد جب اسے لگا کہ میں سوئی ہوئی ہوں، تو میں نے دیکھا کہ اس نے میز پر پڑے میرے چھوڑے ہوئے چاکلیٹ اٹھا لیے تھے۔ مگر میں نے کچھ نہیں کہا تھا کیونکہ میں جانتی تھی کہ وہ خوش نہیں تھا۔

” پھر چیزیں تبدیل ہونے لگیں۔ جب روتھ نے مارک اور ڈیوڈ کو جنم دے لیا تو اس کی توجہ ان کی طرف ہو گئی۔ بڈھے نے امریکی کمپنی چھوڑ کر حکومت کے لیے وزارت برائے سیاحت میں کام کرنا شروع کر دیا۔ اس کی شاید سیاسی خواہشات ہوں، شروع میں وہ حکومت میں اچھا کام کرتا رہا۔ لیکن 1966 یا 1967 میں کینیا میں سیاسی تقسیم زیادہ گہری ہو گئی۔ صدر کیناٹا سب سے بڑے قبیلے کیکویوس سے تھا۔ لواوس جو دوسرا بڑا قبیلہ تھا نے شکایات کرنا شروع کر دی تھیں کہ بہترین عہدے کیکویوس والوں کو دیے جا رہے ہیں۔ حکومت میں سازشوں کی بھرمار تھی۔ نائب صدر اوڈنگو لواوس سے تھا اور اس نے کہنا شروع کر دیا کہ حکومت میں بدعنوانی ہو رہی ہے۔ کینیا کے سیاستدانوں نے نوآبادکاروں کی جگہ لے لی ہے جنہوں نے کاروبار اور زمینیں خرید لی ہیں جو لوگوں میں تقسیم کیے جانا چاہیے تھا۔ اوڈنگو نے اپنی پارٹی بنانے کی کوشش کی تھی مگر اسے کمیونسٹ قرار دے کر گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ ایک اور مقبول لوواؤ وزیر ٹام مبویا کو کیکویوس گن مین نے قتل کر دیا۔ لوواؤ والے سڑکوں پر احتجاج کرنے نکلے تو ان پر حکومتی پولیس نے حملہ کر دیا۔ لوگ مارے گئے۔ اس سب سے قبائل کے درمیاں مزید شبہات نے جنم لیا۔

” بڈھے کے اکثر دوست چپ سادھے رہے اور انہوں نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا۔ مگر بڈھے نے بولنا شروع کر دیا۔ وہ لوگوں کو بتایا کرتا کہ قبائلیت ملک کو برباد کرکے رکھ دے گی اور یہ کہ نا اہل لوگ بہترین عہدوں پر قابض ہوئے جا رہے ہیں۔ اس کے دوستوں نے اسے لوگوں میں ایسی باتیں کرنے سے متعلق متنبہ کیا تھا مگر اس نے پرواہ نہ کی۔ وہ ہمیشہ یہی سمجھتا کہ اسے معلوم ہے کہ بہترین بات کیا ہے، سمجھتے ہو ناں۔ جب اسے عہدے پر ترقی دینے کی بات ہوئی تو وہ باآواز بلند شکایت کرنے پر اتر آیا۔ تم میرے سینئر کیسے ہو سکتے ہو، اس نے ایک وزیر سے کہا، جبکہ میں تمہیں سکھا رہا ہوں کہ تمہیں اپنا کام مناسب طریقے سے کیسے کرنا چاہیے؟ بات کینیاٹا تک پہنچ گئی کہ بوڑھا پریشان کرنے والا شخص ہے۔ اسے صدر کے سامنے پیش ہونے کو کہا گیا۔ سنی سنائی باتوں کے مطابق کینیاٹا نے بڈھے سے کہا چونکہ تم اپنی زبان بند نہیں رکھ سکتے اس لیے تب تک کام نہیں کرو گے جب تک تمہارے پاؤں کسی جوتے میں نہ ہوں۔

” مجھے نہیں معلوم کہ یہ سب باتیں کتنی درست ہیں مگر میں اتنا جانتی ہوں کہ صدر کی مخالفت کی وجہ سے بڈھے کے لئے حالات بہت خراب ہو گئے تھے۔ اسے حکومتی محکموں میں بلیک لسٹ کر دیا گیا تھا۔ اسے کسی وزارت میں کام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ جب اس نے کام ڈھونڈنے کے لیے غیر ملکی کمپنیوں سے رجوع کیا، تو کمپنیوں کو دھمکایا گیا کہ اسے کام نہ دیں۔ اس نے غیر ممالک کی جانب رخ کیا تو اسے عدیس ابابا میں افریکن ڈویلپمنٹ بینک میں ملازمت مل گئی مگر اس سے پہلے کہ وہ وہاں جاتا حکومت نے اس کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا۔ یوں وہ کینیا سے جا ہی نہ سکا۔
” بالآخر اسے واٹر ڈیپارٹمنٹ میں ایک معمولی کام قبول کرنا پڑا۔ یہ ملازمت بھی اس لیے ملی کہ اس کے دوستوں میں سے ایک نے اس پر ترس کھا لیا۔ بڈھے نے دبا کے پینا شروع کر دیا۔ اسے جاننے والے بہت سے لوگوں نے اس سے ملنا چھوڑ دیا کیونکہ اس کے ساتھ دیکھے جانا اب ان کے لیے موجب خطرہ ہو چکا تھا۔ انہوں نے اسے بتایا کہ اگر وہ معذرت کر لے، اپنے رویے تبدیل کر لے، تو اس کے لیے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور جو اس کے ذہن میں آتا اسے کہنا جاری رکھا۔

” مجھے ان میں سے بہت سی باتیں تب سمجھ آئیں جب میں بڑی ہوئی۔ ان دنوں تو مجھے بس یہ احساس ہوتا تھا کہ گھر کے حالات بہت خراب ہیں۔ بڈھے نے رائے یا مجھ سے کبھی بات نہیں کی تھی ماسوائے ڈانٹ پھٹکار کرنے کے۔ وہ رات گئے گھر آتا تھا، شراب میں دھت۔ میں اسے روتھ پر چیختے ہوئے سن سکتی تھی جب وہ اسے اپنا کھانا تیار کرنے کو کہتا تھا۔ روتھ کا مزاج اس بات سے بہت تلخ ہو چکا تھا کہ بوڑھا کتنا بدل گیا تھا۔ بعض اوقات جب وہ گھر پر نہیں ہوا کرتا تھا، تو وہ رائے اور مجھے بتایا کرتی تھی کہ ہمارا باپ دیوانہ ہے اور اسے ہم پر ترس آتا ہے جن کا ایسا باپ تھا۔ میں اسے ایسا کہنے پر قصور وار نہیں سمجھتی تھی۔ غالباً میں اس سے متفق ہوتی تھی۔ البتہ میں نے دیکھا کہ اب وہ پہلے سے بھی زیادہ اپنے دو بیٹوں کی نسبت ہم سے بہت مختلف سلوک کرنے لگی تھی۔ وہ کہا کرتی تھی کہ ہم اس کے بچے نہیں اور وہ ہماری مدد کرنے کے لیے اتنا ہی کر سکتی ہے۔ رائے اور مجھے محسوس ہونے لگا تھا جیسے ہمارا کوئی نہیں ہے۔ اور جب روتھ بڈھے کو چھوڑ کے چلی گئی تو لگا کہ ہمارا یہ احساس حقیقت سے اتنا بھی دور نہیں تھا۔

” جب وہ چھوڑ کے گئی تو میری عمر بارہ یا تیرہ سال کی تھی، اس کے بعد بڈھے کو سڑک کا بہت برا حادثہ پیش آ گیا تھا۔ میرے خیال میں وہ پیے ہوئے تھا کہ ایک دوسری گاڑی کا ڈرائیور جو ایک سفید فام کسان تھا، اس حادثے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ بوڑھا بہت عرصے، غالباً ایک سال ہسپتال میں رہا تھا۔ اس دوران میں اور رائے اصل میں اپنے طور پر جیتے رہے تھے۔ بوڑھا بالآخر جب ہسپتال سے فارغ ہوا تو یہ وہ وقت تھا جب وہ تمہیں اور تمہاری ماں سے ملنے ہوائی پہنچا تھا۔ اس نے ہمیں بتایا تھا کہ تم دونوں اس کے ساتھ آؤ گے اور یہ کہ پھر ہم ایک مناسب کنبے کی طرح زندگی بسر کریں گے۔ مگر جب وہ لوٹ کے آیا تو تم اس کے ہمراہ نہیں تھے اور مجھے اور رائے کو اپنے طور پر اس کے ساتھ نمٹنا پڑا تھا۔

” ایکسیڈنٹ کے بعد بڈھے کی واٹر ڈیپارٹمنٹ کی ملازمت ختم ہو گئی تھی اور ہمارے پاس رہنے کو کوئی جگہ نہیں تھی۔ کچھ عرصہ تو ہم کبھی اس اور کبھی اس رشتہ دار کے پاس بھٹکتے پھرے تھے، مگر وہ بھی بالآخر ہمیں نکال دیا کرتے تھے کونکہ ان کے بھی اپنے بہت سے مسئلے ہوتے تھے۔ پھر ہمیں شہر کے ایک برے حصے میں ٹوٹا پھوٹا گھر مل گیا تھا جہاں ہم کئی سال رہے۔ وہ انتہائی مصیبت کے سال تھے۔ بڈھے کے پاس پیسے نہ ہونے کے برابر ہوتے تھے اور اسے کھانے پینے کے پیسے بھی رشتہ داروں سے ادھار لینے پڑتے تھے۔ میرے خیال میں اس سے اسے مزید شرمندگی ہونے لگی تھی جس کی وجہ سے اس کا مزاج بہت بگڑ گیا تھا۔ ان تمام مسائل کے باوجود اس نے کبھی نہ تو رائے اور نہ ہی میرے سامنے یہ قبول کیا کہ حالات خراب ہیں۔ میں سمجھتی ہوں یہ وہ چیز ہے جو بہت دکھ دیتی ہے کہ وہ کس طرح یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ ہم اب بھی ڈاکٹر اوباما کے بچے ہیں۔ ہماری الماریاں خالی ہوتی تھیں اور وہ اپنا بھرم رکھنے کی خاطر خیراتی اداروں کو چندہ دیا کرتا تھا۔ میں کبھی کبھار اس کے ساتھ بحث کرتی تھی مگر وہ صرف اتنا کہتا تھا کہ تم ایک بیوقوف نوجوان لڑکی ہو جو سمجھ نہیں سکتی۔

” اس کے اور رائے کے تعلقات بدتر تھے۔ ان میں شدید لڑائیاں ہوا کرتی تھیں۔ اس نے بس گھر آنا ہی چھوڑ دیا تھا اور مختلف لوگوں کے ساتھ رہنا شروع کر دیا تھا۔ یوں میں بڈھے کے ساتھ اکیلی رہنے لگی تھی۔ میں رات دیر گئے تک یہ سوچتے ہوئے کہ اس کے ساتھ کچھ خوفناک پیش نہ آ گیا ہو، اس کے آنے تک جاگتی رہتی تھی۔ پھر وہ شراب کے نشے میں دھت گھر میں داخل ہو کر مجھے اٹھا دیا کرتا تھا کیونکہ یا تو اسے ساتھ چاہیے ہوتا تھا یا کھانے کو کوئی چیز۔ وہ یہی باتیں کیا کرتا تھا کہ وہ کس قدر ناخوش ہے اور اس کے ساتھ کیونکر دھوکہ ہوا ہے۔ میں اتنی غنودہ ہوا کرتی تھی کہ وہ جو کچھ کہتا تھا مجھے اس میں سے کچھ بھی سمجھ نہیں آتا تھا۔ دل ہی دل میں میں نے یہ آرزو کرنا شروع کر دی تھی کہ وہ ایک رات کو گھر سے باہر رہے اور کبھی لوٹ کر نہ آئے۔

”جس چیز نے مجھے بچایا وہ کینیا ہائی سکول تھا۔ یہ لڑکیوں کا سکول تھا جو ایک وقت صرف برطانویوں کے لیے وقف تھا۔ بہت سختی والا، اور ابھی تک بہت نسل پرست۔ اس سکول میں میرے جانے کے بعد اکثر سفید فام لڑکیاں چھوڑ کر جا چکی تھیں اور یوں افریقی اساتذہ کو اسباق دینے کی اجازت ملی تھی۔ ان باتوں کے باوجو د میں وہاں فعال ہو گئی تھی۔ یہ ایک بورڈنگ سکول تھا چنانچہ میں تعطیلات ہو جانے کے بعد بھی بڈھے کے پاس جانے کی بجائے وہیں رہا کرتی تھی۔ سکول نے مجھے نظم و ضبط کا کچھ احساس دلایا۔ سمجھ رہے ہو ناں، کچھ ایسا جس کا میں سہارا لے سکتی۔

” ایک سال بوڑھا میرے سکول کی فیس نہ دے پایا تو مجھے گھر بھیج دیا گیا۔ میں رات بھر روتی رہی تھی۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میں کیا کروں۔ ایک ہیڈ مسٹریس نے میری صورت حالات کے بارے میں سنا تو مجھے وظیفہ جاری کر دیا یوں میں اس سکول میں رہ پائی۔ یہ ہے تو قابل افسوس مگر میں جتنا بڈھے کے بارے میں سوچتی تھی اور اس سے متعلق فکر مند ہوتی تھی، اس کے باوجود میں خوش ہوتی تھی کہ مجھے اس کے ساتھ نہیں رہنا پڑ رہا۔ میں نے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور کبھی لوٹ کر خبر نہ لی۔

” میرے سکول کے آخری دو سالوں کے دوران بڈھے کے حالات سدھر گئے تھے۔ کینیاٹا مر گیا تھا اور کسی طرح بوڑھا پھر سے حکومت میں کام کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔ اسے وزارت برائے مالیات میں کام مل گیا تھا اور ایک بار پھر اس کے پاس پیسے آنے لگے تھے اور اس کا اثر و رسوخ بن گیا تھا۔ مگر میرا خیال ہے کہ وہ اس تلخی پر کبھی قابو نہ پا سکا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ وہ اپنے ہم عمر لوگوں کو دیکھتا تھا جو سیاسی طور پر زیادہ مدبر ہونے کی وجہ سے اوپر جا پہنچے تھے۔ پھر کنبے کو یکجا کرنے میں بہت دیر ہو چکی تھی۔ وہ بہت عرصے تک ہوٹل کے ایک کمرے میں اکیلا رہتا رہا باوجود اس کے کہ وہ گھر خرید کے قابل ہو چکا تھا۔ کچھ وقت کے لیے اس کے پاس عورتیں ہوا کرتی تھیں، یورپی بھی اور افریقی بھی لیکن کوئی بھی ہمیشہ نہ رہ پائی۔ میں اس سے اس عرصے میں تقریباً نہیں ملی تھی اور جب ملی تو اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ میرے ساتھ کیسا برتاؤ کرے۔ ہم غیروں کی طرح تھے، مگر تم جانتے ہو کہ وہ تب بھی ایسے اظہار کرتا تھا جیسے وہ ایک مثالی باپ رہا تھا اور مجھے ہدایت دے سکتا تھا کہ مجھے کیسا رویہ رکھنا چاہیے۔ مجھے یاد ہے کہ جب مجھے جرمنی پڑھنے جانے کے لیے وظیفہ ملا تھا، تو میں اسے بتانے سے ڈرتی تھی۔ میں نے سوچا کہ کہیں وہ یہ نہ کہہ دے کہ تم ابھی جانے کے لیے بہت چھوٹی ہو اور میرے سٹوڈنٹ ویزے میں رکاوٹ نہ ڈال دے، جس کی تصدیق گورنمنٹ نے کرنی تھی۔ چنانچہ میں اسے الوداع کہے بغیر چلی گئی تھی۔

” جرمنی میں رہتے ہوئے ہی میں نے اس بیشتر غصے کو تھوکا جو اس پر مجھے تھا۔ دور ہونے پر مجھے احساس ہوا تھا کہ وہ کس بپتا سے گزرا تھا، کیسے وہ شاید خود کو بھی پوری طرح نہیں سمجھ پایا تھا۔ صرف آخر میں ہی، جب اس کی زندگی اس سے کھلواڑ کر چکی تھی، میں سمجھتے لگی تھی کہ شاید اس نے تبدیل ہونا شروع کر دیا تھا۔ آخری بار جب میری اس سے ملاقات ہوئی تو وہ بزنس ٹور پر تھا اور یورپ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں کینیا کی نمائندگی کر رہا تھا۔ میں ہچکچا رہی تھی کیونکہ ہم نے ایک طویل عرصے سے بات نہیں کی تھی۔ مگر جب وہ جرمنی پہنچا تو وہ واقعی پرسکون تھا، کم و بیش مطمئن۔ ہم نے واقعی بہت اچھا وقت گزارا۔ تم جانتے ہو وہ جب بالکل ہی غیر معقول ہوا کرتا تھا تھا تب بھی وہ بہت دلکش ہوتا تھا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لندن لے گیا اور ہم ایک شاندار ہوٹل میں ٹھہرے اور اس نے برٹش کلب میں مجھے اپنے تمام دوستوں سے متعارف کرایا۔ وہ مجھے بٹھانے کے لیے کرسی پیچھے کرتا تھا اور بڑی گڑبڑ کرتا تھا اپنے ہر دوست کو بتاتا تھا کہ وہ مجھ پر کس قدر نازاں ہے۔ لندن سے واپسی کی پرواز میں میں نے کانچ کا ایک مگ دیکھا جس میں اسے وہسکی پیش کی جا رہی تھی، میں نے کہا میں اسے مار لیتی ہوں تو وہ بولا ”تمہیں اس قسم کی حرکت کرنے کی ضرورت نہیں“ اس نے میزبان خاتون کو بلا کر کہا کہ ایسے مگ کا پورا سیٹ لا کر مجھے دے، ایسے جیسے طیارہ اس کی ملکیت تھا۔ جب فضائی میزبان نے وہ لا کر مجھے دیا تو مجھے لگا جیسے میں پھر سے ایک چھوٹی سی بچی ہوں۔ اس کی ننھی شہزادی۔

” اپنے دورے کے آخری روز وہ مجھے لنچ کھلانے لے گیا اور ہم نے مستقبل سے متعلق باتیں کیں۔ اس نے مجھے پوچھا کہ مجھے پیسے تو درکار نہیں ہیں اور اصرار کیا کہ کچھ لے لوں۔ اس نے مجھ سے کہا کہ جب تم کینیا لوٹو گی تو میں تمہارے لیے مناسب شوہر ڈھونڈوں گا۔ یہ دل لبھانے والی بات تھی، تم جانتے ہو وہ کیا کر رہا تھا ایسے جیسے سارے کھوئے ہوئے وقت کا مداوا کر سکے گا۔ تب تک وہ ایک اور بیٹے کا باپ بن چکا تھا، جارج کو ایک نوجوان عورت نے جنم دیا تھا جو اس کے ساتھ رہ رہی تھی۔ چنانچہ میں نے اسے بتایا کہ میں اور رائے اب بڑے ہیں، ہمارے اپنے راستے ہیں، ہماری اپنی یادیں ہیں اور ہم سب کے درمیان اب تک جو ہو چکا ہے اسے لوٹایا نہیں جا سکتا۔ مگر جارج چونکہ خالی تختی ہے، تمہارے پاس موقع ہے کہ تم اس کے ساتھ واقعی سب اچھا کرو۔ اس نے صرف سر ہلایا۔ جیسے کہ۔ جیسے کہ۔ “

آؤما اب تک ہلکی روشنی میں دھندلی سی دکھائی دینے والی ہمارے باپ کی تصویر پر نگاہیں گاڑے ہوئے تھی۔ اب وہ کھڑی ہو کر کھڑکی کی جانب گئی تھی، اس کی پشت میری جانب تھی۔ وہ خود کو پکڑ رہی تھی، اس کے ہاتھ اس کے جھکے ہوئے کندھوں پر مضطرب تھے۔ پھر اس نے بری طرح ہلنا شروع کر دیا تھا۔ میں نے پیچھے سے آ کر اسے آغوش میں لے لیا اور وہ روتی رہی۔ غم ہلکی عمیق لہروں میں اس میں سے نکل رہا تھا۔ ” تم جانتے ہو براک“ اس نے اپنی سسکیوں کے درمیان کہا ”میں نے ابھی ابھی اسے جاننا شروع کیا تھا۔ اب وہ مقام آ گیا تھا جہاں۔ جہاں وہ خود کو واضح کر سکتا۔ کبھی میں سوچتی ہوں شاید واقعی اس نے وہ موڑ مڑ لیا ہو اور اس نے اندرونی سکون پا لیا ہو۔ جب وہ مرا تو میں نے خود کو اتنا، اتنا زیادہ فریب خوردہ خیال کیا۔ اتنا ہی فریب خوردہ جتنا تم نے یقیناً محسوس کیا ہو گا۔

باہر موڑ پر ایک تیز کار کے ٹائر گھستے ہوئے چیخے۔ ایک تنہا شخص نے سڑک کے بلب کی روشنی کا زرد دائرہ عبور کیا۔ ایسے لگا جیسے ارادی طور پر آؤما یک لخت سیدھی ہو گئی تھی، اس کی سانس ہموار ہو چکی تھی، اور اس نے اپنی قمیص کے بازو سے اپنی آنکھیں پونچھی تھیں۔ ” اوہ تم نے اپنی بہن کو کیا کر دیاً یہ کہتے ہوئے وہ ایک کمزور سی ہنسی ہنسی تھی۔ وہ میری طرف مڑی۔ ” تم جانتے ہو بوڑھا تمہارے بارے میں بہت باتیں کیا کرتا تھا۔ وہ تمہاری تصویر ہر ایک کو دکھایا کرتا تھا اور ہمیں بتاتا تھا کہ تم سکول میں کس قدر اچھا پڑھ رہے ہو۔ میرا اندازہ ہے کہ تمہاری ممی اور وہ ایک دوسرے کو خط لکھا کرتے تھے۔ میں سمجھتی ہوں وہ خط اسے واقعی سکون دیتے تھے۔ فی الواقعی برے وقتوں کے دوران جب ہر کوئی اس سے پیٹھ موڑ چکا تھا، وہ اس کے یہ خط لے کر میرے کمرے میں آ جایا کرتا تھا اور انہیں بلند آواز میں پڑھنا شروع کر دیتا تھا۔ وہ مجھے بیدار کرکے مجبور کرتا تھا کہ میں سنوں اور جب خط تمام ہو جاتا تھا تو وہ خط کو ہاتھ میں ہلاتے ہوئے کہا کرتا تھا کہ تمہاری ممی اس پر کتنی مہربان تھی، ”دیکھا“ وہ کہا کرتا تھا ” کم از کم ایسے لوگ بھی ہیں جو اس کا اس قدر خیال کرتے ہیں“ وہ یہ بات خود سے کہتا تھا اور بار بار کہتا تھا۔

آوما جلد ہی سو گئی تھی لیکن میں کرسی پر اکڑ کے بیٹھا جاگتا رہا۔ اس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ اس کے سانس کا اتار چڑھاؤ سنتے ہوئے جاننے کی کوشش کرتا رہا کہ اس نے کیا کچھ کہا تھا۔ مجھے لگتا تھا جیسے میری دنیا سر کے بل اوندھی ہو کے رہ گئی ہے۔ جیسے میں جاگا ہوں تو میں نے زرد آسمان میں نیلا سورج دیکھ لیا ہے یا جیسے جانوروں کو انسانوں کی طرح باتیں کرے دیکھ لیا ہے۔ سارے عرصے میرے ذہن میں باپ کا ایک ہی عکس تھا۔ شاندار سکالر، سخی دوست اور پرعزم رہنما۔ لیکن واحد بلب کی زرد روشنی میں کرسی پر آگے پیچھے ہوتے یہ عکس گم ہو گیا تھا۔ اس کی جگہ کس نے لے لی تھی؟ ایک تلخ شرابی نے؟ ایک گالیاں بکنے والے شوہر نے؟ ایک شکست خوردہ تنہا بیوروکریٹ نے؟ مجھے لگا میں ساری عمر ایک بھوت کے ساتھ کشتی لڑتا رہا تھا۔ اگر آؤما سوئی ہوئی نہ ہوتی تو میں بہت زور زور سے قہقہے لگاتا۔

( براک کا باپ اس کو اور اس کی ماں کو تب چھوڑ کر کینیا چلا گیا تھا جب براک دو برس کا تھا۔ جب براک دس سال کا ہوا تو اس کا باپ ایک ہی بار آ کر اسے ایک ماہ کے لیے امریکہ آ کر ملا تھا۔ جب براک نے بڑے ہو کر کینیا باپ کے پاس جانے کا پروگرام بنایا تو اس کے باپ کا انتقال ہو گیا )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).