ایک اور سال کا آغاز، مظلوم مسلمان بیٹی اور معزز دشمن


وقت کے پہیے نے اپنا مزید ایک چکر پورا کیا۔ سال 2017 کے اختتام پر 2018 کا آغاز ہو چکا ہے۔ بظاہر نئے سال کا استقبال دنیا بھر میں نہایت ہی مسرور انداز میں کیا جاتا ہے۔ عشرے کی الٹی گنتی (دس 10 سے ایک 1) کے اختتام پر نئے سال کا پیغام گویا خوشیوں کا سیلاب لے آتا ہے۔ ایک گنتی ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی گِن رہی ہے کہ ایک ایک کر کے اس کے جرمِ بے گناہی کی سزا کا آخری دن آئے۔ اس کی زندگی میں بھی آزادی اور خوشی کے نئے دور کا آغاز ہو۔

سال 2017 ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی مسلسل کوششوں کا گواہ ہے۔ بلکہ یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ ان کوششوں کا نقطۂ عروج اس سال کا غمناک پہلو بن گیا۔ عافیہ کی رہائی کے لیے حکمرانوں کا خط، جو تمام تر عوامی دباؤ کے باوجود نہ جا سکا۔

اس سال کے آغاز میں 20 جنوری کو سابق امریگی صدر باراک اوبامہ اپنی آئینی مدتِ صدارت کے اختتام پر چند دیگر قیدیوں کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ کو بھی رہا کرنا چاہتے تھے۔ یہ رہائی پاکستانی حکمرانوں کی جانب سے ایک خط سے مشروط تھی۔ مگر سنگ دل حکمران اس کے لیے تیار نہ ہوئے۔

خط کی اہمیت کے پیشِ نظر ڈاکٹر عافیہ کے اہلِ خانہ نے اس کے حصول کے لیے عوامی حمایت کے ساتھ منظم کوششیں شروع کیں۔ عافیہ کے امریکی وکلاء، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور سیاسی و سماجی نمائندوں نے صدر ممنون حسین، سابق وزیرِاعظم نواز شریف، مشیرِخارجہ سرتاج عزیز اور سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار سے باربار رابطے کر کے اس ایک خط کے لیے التجائیں کرتے رہے۔ حکمرانوں کے دل پتھر ہی بنے رہے۔ جب کہ عوام نے حمایت کا کوئی میدان نہ چھوڑا۔

نرم دل کالم نگاروں اور صحافی برادری نے دردمندی کے ساتھ دینی و قومی فریضہ کی ادائیگی کے لیے عوام کو حقیقتِ حال سے آگاہ کیا۔ اس عرصے میں ملک بھر میں عوام، عافیہ موومنٹ کے رضاکاروں اور سیاسی و دینی جماعتوں نے عافیہ کی حمایت میں جدوجہد تیز کی۔ بس اور پیدل مارچ کے ذریعے اس خط کے مطالبے کو ملک گیر تقویت دی گئی۔ اسی کے ساتھ کراچی حیدرآباد پشاور لاہور راولپنڈی اسلام آباد اور کئی دیگر شہروں میں مختلف سیاسی و دینی اور سماجی تنظیموں نے ڈاکٹر عافیہ کے حق میں جلسے جلوس ریلیوں اور پریس کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔

اس ملک گیر عوامی جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ سابق امریکی صدر کی سبکدوشی کی تاریخ 20 جنوری کے قریب آتے آتے، عافیہ کی رہائی کے لیے خط کا عوامی مطالبہ بھی تیز تر ہوتا گیا۔ مگر حکومت کی نام نہاد مصلحت کوشی ایک بار پھر آڑے آئی۔ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بالواسطہ اور بلاواسطہ پیغامات کا سلسلہ شروع ہوا کہ عافیہ کو جلد بارٹرسسٹم کے تحت (شکیل آفریدی کے تبادلے میں) واپس لانے کی خوشخبری دی جائے گی۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے اس جھوٹ کو استحکام بخشا گیا۔

ڈاکٹر عافیہ کے اہلِ خانہ نے حکمرانوں کو ان کے وعدے اور آئینی فریضہ کی ادائیگی کے لیے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا۔ اس سلسلے میں اسلام آباد، لاہور اور سندھ ہائی کورٹس میں پیٹیشنز دائر کی گئیں۔ سال 2017 میں تقریباََ پورے ہی سال ملکی و میڈیائی اُفق پر عدالتوں میں زیرِسماعت مقدمات اور فیصلے چھائے رہے۔ مگر کیا عافیہ کیس کے معاملے میں بھی حکمرانوں اور ریاستی حکام کو عدالتی احکامات پر عمل درآمد یاد آیا؟

یہاں تک کہ 20 جنوری کے دن کے ساتھ ساتھ 2017 کا پورا سال ہی گزر گیا۔ فقط ایک خط کے ذریعے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا انمول موقع حکمرانوں کی بےحسی کے باعث المیہ بن گیا۔

رنج و الم کی تصویر مظلوم عافیہ امریکی جیل میں اپنے حکمرانوں کی نظرِکرم کی منتظر ہی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ میں پاکستانی قونصلر جنرل عائشہ فاروقی عافیہ سے ملاقات کرنے جیل گئیں۔ ان کے مطابق جنیوا کنونشن کی شق 2047 کا حوالہ دینے پر انہیں ملاقات کے لیے اس بیرک تک لے جایا گیا جہاں عافیہ قید ہے۔ عائشہ فاروقی کے جو الفاظ ہیں کیا حکمران وہ الفاظ اپنے جگر گوشوں کے لیے پسند کریں گے؟ :

“ سلاخوں کے پیچھے بیڈ پر ایک خاتون منہ پر چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہڈیوں اور گوشت کا ڈھیر بیڈ ہر دھرا ہو، بےحس و حرکت۔ جیل کے حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ یہی عافیہ ہے۔ “

اس طرح عافیہ کے زندہ ہونے کی تصدیق ہو گئی۔ ورنہ ماضی میں تقریباََ گیارہ برس قبل صرف ایک مرتبہ پاکستانی سینیٹرز کے ایک وفد کو عافیہ سے ملاقات کی اجازت ملی تھی۔ جب کہ گذشتہ ڈھائی سال سے ٹیلی فون پر ہونے والی اہلِ خانہ سے چند منٹ کی گفتگو کا سلسلہ بھی منقطع ہے۔ اس کی صحت کی تشویش ناک اطلاعات کے بعد حکومت سے کئی بار نجی خرچ پر عافیہ سے ملاقات کروانے کی درخواست کی جا چکی ہے۔ ضعیف والدہ اپنی بیٹی اور اور بچے اپنی ماں سے ملاقات کے لیے ساڑھے چودہ سال سے تڑپ رہے ہیں۔ حکمرانوں کے پاس کوئی حِس موجود ہے اس تڑپ کو محسوس کرنے لیے؟

ایک طرف انسانیت کو شرماتی یہ کرب ناک صورتِ حال ہے۔ دوسری جانب دشمنوں کے ساتھ حکمرانوں کے خیرسگالی رویئے۔ پہلے ماضی میں امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ جب پانچ پاکستانیوں کے قاتل اس امریکی جاسوس کے ذریعے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی ڈیل کی کوشش ہو سکتی تھی۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نےانتہائی عجلت میں، ملکی قوانین کے برخلاف اس جاسوس اور قاتل کو باعزت طریقے سے اس کے ملک رخصت کیا۔ کیا پاکستانی مقتدر اداروں، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ نہایت شرمناک واقعہ نہیں؟

اب ایک اور سلگتا معاملہ، سزائےموت کے قیدی، ملک دشمن بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی صورت میں سامنے ہے۔ حکومت ماضی کی طرح ایک بار پھر کمزوری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ایک ایسا دہشت گرد جاسوس اور قاتل جس نے بلوچستان میں ہزاروں لوگوں کے قتل کا اعتراف کیا، دھماکوں کے ذریعےہزاروں قیمتی جانوں کی ہلاکت اور معذوری کا سبب بنا۔ جس نے پاک وطن کی سالمیت کو آگ لگانے کی حد تک نقصان پہنچایا۔ ایسے خطرناک دہشت گرد کو ہمارے حکمرانوں کے مطابق انسانی ہمدردی کےناطے، اس کے اہلِ خانہ سے ملاقات کی سہولت فراہم کی گئی۔ سہولت بھی ایسی کہ مکمل ترین سیکیورٹی، سرکاری پروٹوکول اور ان کی ایک ایک ادا کی بھرپور میڈیائی کوریج!

کیا ان دونوں دہشت گردوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کا موازنہ ڈاکٹرعافیہ جیسی مظلوم قیدی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے؟ ایسی بےگناہ قیدی کہ جس کا جرم تک ثابت نہ ہو سکا۔ کیا یہ منافقانہ روئیے عوام اور حکومت کے لیے قابلِ فہم ہیں؟ کیا حکمرانوں کے نزدیک ڈاکٹر عافیہ اس کی ناتواں ماں اور معصوم بچے انسانیت کے دائرے سے باہر ہیں؟ کیا ہمدری ان مظلوم انسانوں کا حق نہیں؟ کیا انصاف کا یہ اندازہمارے مسلمان حکمرانوں کو زیبا ہے؟

مسلمان حکمرانوں کی تاریخ میں عظیم جرنیل محمد بن قاسم، طارق بن ذیاد، عباسی حکمران معتصم باللّٰہ اور سلطنتِ عثمانیہ کے حاکم سلطان محمد فاتح نے بیٹیوں کی حفاظت کے لیے تاریخ کے ساتھ جغرافیہ تک بدل ڈالے۔ ہمارے ماضی کی ان تابناک روایات کی روشنی حال اور مستقبل کی تاریکیوں کو یقیناََ دور کر سکتی ہے، اگر آپ، ہم اور سب چاہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).