اسٹیبلشمنٹ کیا ہے؟


ہمارے ہاں تقریبا ہر شخص بالخصوص میدانِ سیاست اور کوچہ صحافت سے منسلک احباب نہ صرف یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کا لفظ روزانہ کئی بار اپنی تحریر و تقریر میں استعمال کرتے ہیں بلکہ اکثر و بیشتر اسٹیبلشمنٹ پر خوب تنقید بھی کرتے ہیں لیکن بہت سارے حضرات اس اصطلاح کے صحیح مفہوم اور بنیادی خدو خال سے ناواقف ہوتے ہیں۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے ہمارے ہاں بالعموم فوجی حاکمیت مراد لی جاتی ہے۔ حالانکہ فوج اسٹیبلشمنٹ کی ایک بنیادی اکائی ضرور ہے لیکن صرف اکیلے فوج پر پورے اسٹیبلشمنٹ کا اطلاق شاید درست نہ ہو۔ اسٹیبلشمنٹ دراصل ریاست کی اس غیر اعلانیہ منظم اور طاقتور بنیادی اکائی کا نام ہے جو تعداد کے لحاظ سے اقلیت میں ہوتی ہے لیکن ریاستی نظام پر اثر انگیزی اور حکومتی امور میں فیصلہ سازی کے وسیع ترین اختیارات کے باعث اکثریت پر بھاری بلکہ حاوی ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ فیصلہ کن طاقت اور سیاستدانوں کے لئے ناقابل تسخیر قوت آخر ہے کیا؟

روح کا نام ہم سب نے سنا ہے لیکن آج تک کسی ذی روح نے روح کی شکل و صورت نہیں دیکھی۔ یہ پورے وجود کا حصہ ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آتی۔ بس یوں سمجھ لیں کہ اسٹیبلشمنٹ ریاست کی روح کا نام ہے جو بظاہر نظر تو کسی کو بھی نہیں آتی لیکن عملا پورے جسم کے حرکات و سکنات اور افکار و خیالات کو تقریباً وہی کنٹرول کرتی ہے۔ جس طرح روح طیب ہو تو انسان شریف اور روح خبیث ہو تو انسان شریر بالکل اسی طرح اسٹیبلشمنٹ شریف ہو تو ریاستی انتظام مضبوط اور اسٹیبلشمنٹ شریر ہو تو ریاستی نظام ناکام ہوتا ہے۔ درد کا احساس ہر انسان کو ہوتا ہے لیکن درد کا وجود کسی کو آج تک نظر نہیں آیا۔ درد ہمدردی میں بھی ہوتا ہے اور درد انتقام کا بھی ہوتا ہے۔ اول الذکر انسانیت کی حمایت کا روحانی جذبہ ہے اور دوسرا انسانیت سے بغاوت کا شیطانی حربہ ہے۔ ہمدردی مثبت عمل ہے اور انتقام منفی رد عمل کا نام ہے۔ گویا کسی بھی ریاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مثال روح اور درد کی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ریاست کی ”روحِ رواں“ بھی ہے اور ریاست کے لئے ”دردِ سر“ بھی۔

ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ کسی جمہوری ریاست کے تین اہم اور بنیادی ستون ہوتے ہیں۔ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ اگرچہ جدید جمہوری ریاستوں میں اپنی ہمہ گیر فعالیت اور عالمگیر اثرات کے باعث بعض حضرات میڈیا کو بھی ریاست کا چوتھا ستون قرار دیتے ہیں۔ بہر حال بنیادی ستون تین ہی ہیں البتہ چوتھے ستون یعنی صحافت کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ ریاست کے ان تین بنیادی ستونوں میں سے ہر ستون کا اپنا ایک الگ اور مخصوص دائرہ کار ہے۔ مقننہ سے مراد پارلیمنٹ یعنی سینیٹ اور قومی اسمبلی ہے۔ مقننہ کا کام قانون سازی ہے۔ عدلیہ سے مراد سپریم کورٹ اور اس کی ماتحت عدالتیں ہیں۔ عدلیہ کا کام قانون کی تشریح ہے۔ انتظامیہ سے مراد بیورو کریسی ہے۔ انتظامیہ کا کام قوانین کا نفاذ ہے۔

انتظامیہ کی دو اہم ذمہ داریاں اور دو بڑے شعبے ہیں۔ انتظامیہ کا ایک شعبہ داخلی دفاع اور دوسرا بیرونی دفاع کہلاتا ہے۔ داخلی دفاع سے مراد اندرونِ ملک رائج قوانین کا نفاذ اور نظم و ضبط کو برقرار رکھنا ہے۔ اس شعبہ کو سول بیورو کریسی کہتے ہیں جبکہ خارجی دفاع سے ریاست کے بیرونی سرحدوں کی حفاظت مراد ہے۔ اس شعبہ کو ملٹری بیورو کریسی کا نام دیا جاتا ہے۔ ملٹری بیورو کریسی میں بری فوج، بحری فوج، فضائی فوج اور تمام خفیہ ادارے شامل ہیں۔ اسی سول اور ملٹری بیورو کریسی کے مجموعے کا نام اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اردو میں اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استقرار و استحکام اور انتظام و انصرام کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔

بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا کام منیجمنٹ ہے لیکن ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ نے ججمنٹ کا فریضہ سنبھال رکھا ہے۔ ان کو ریاستی انتظام سنبھالنا چاہیے تھا لیکن وہ سیاسی نظام سنبھالنے کی فکر میں ہیں۔ اصولی طور پر ریاست میں ڈیمو کریسی اور بیورو کریسی کو ایک دوسرے کا معاون ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے یہاں دونوں نظام ایک دوسرے کے مدمقابل بنے ہوئے ہیں۔ ڈیمو کریسی کی اصطلاح یونانی الفاظ ڈیموس اور کریٹیا سے ماخوذ ہے جس میں ڈیموس بمعنی عوام ہے جبکہ کریٹیا کا مطلب حکومت اور اقتدار کے ہیں یعنی لوگوں کی حکومت یا عوام کا اقتدار۔ عوام کی رائے سے منتخب حکومت کو ڈیمو کریسی کہتے ہیں۔ ڈیمو کریسی یا جمہوریت کی سب سے معروف تعریف ابراہم لنکن نے کی تھی یعنی“عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کے مفاد کے لئے۔ “ اس تعریف کی رو سے یہ سول بالادستی کا نام ہے۔

بیورو کریسی فرانسیسی زبان کے دو الفاظ بیورو بمعنی ”لکھنے کی میز“ یعنی دفتر اور کریسی بمعنی ”نظام“ سے ماخوذ ہے۔ بیورو کریسی کا مطلب میز یعنی دفاتر سے منسلک افراد کا نظام ہے۔ گویا بیورو کریسی سے مراد دفتری حکومت ہے۔ بیورو کریسی کا اطلاق سرکاری طور پر منتخب شدہ ایک ایسی عاملہ یا انتظامیہ پر ہوتا ہے، جس کا کام ضابطہ پرستی کے باعث طوالت آمیز ہو۔ اردو میں اسے نوکر شاہی کہتے ہیں۔ کہتے ہیں اس اصطلاح کی ابتدا اٹھارویں صدی میں فرانس سے ہوئی جب بعض افراد کو نوابانہ خطابات دے کر باقاعدہ سرکاری عہدوں پر فائز کیا گیا۔ لکھتے ہیں نپولین بونا پارٹ کے دور حکومت میں سرکاری محکموں کو بیورو اور حکومتی عہدیداروں کو بیورو کریٹ کہتے تھے۔ یورپ میں عموما اس اصطلاح سے ضابطہ پرست آفیسروں کا وہ ٹولہ مراد ہوتا ہے جو ریاست کا وفادار اور سیاسی طور پر غیر جانبدار ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اسٹیبلشمنٹ سے خادمانہ صلاحیت کے حامل حکومتی اہلکار جبکہ پسماندہ ریاستوں میں اس سے حاکمانہ ذہنیت کے زعم میں مبتلا سرکاری کارندے مراد ہیں۔

وطنِ عزیز میں اسٹیبلشمنٹ کا لفظ سننے سے وسیع اختیارات، بے پناہ مراعات اور استبدادیت و حاکمانہ ذہنیت کے حامل ایک ایسے گروہ کا تصور ذھن میں ابھرتا ہے، جو ہر قانون سے بالاتر اور عملاً ملکی سیاست میں ملوث ہو۔ ہمارے ہاں ریاست کے اصل اختیارات اور حکومت کا حقیقی اقتدار درحقیقت اسٹیبلشمنٹ ہی کے پاس ہوتا ہے۔ وہ جس کو چاھیں ہیرو بنادیں اور جس کو چاہیں زیرو۔ چاہیں تو منتخب وزیراعظم کو بے دست و پا کردیں اور چاہیں تو باہر سے برآمد کر کے وزیراعظم منتخب کرادیں۔ جو شخص دیانتداری سے اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ریاست کا باغی یا آئین کا مخالف ہے۔ منتخب حکومت پر تنقید ہوسکتی ہے تو اسٹیبلشمنٹ پر کیوں نہیں۔ لیکن تنقید برائے تخریب نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے۔ ملک و ملت کو تخریب نہیں تعمیر کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).