یہ چورن نہیں بکے گا


منہ کو جب خون لگ گیا تو شکار کرنے کی غرض سے اور عوامی حمایت کو سمیٹنے کی خواہش کو حقیقت کا روپ دھارنے کے واسطے عوام میں جڑیں رکھنے والی قیادت پر بھارت کے متعلق نرم گوشا رکھنے کا الزام سب سے محبوب ترین حربہ قرار پایا گیا اور اس حربے کو بار بار دہرایا گیا۔ محترمہ فاطمہ جناح ؒ جب اپنے بھائی کے لگائے گئے چمن کو تاراج ہونے سے محفوظ رکھنے کے سپنے سجائے۔ میدان میں اتری تو جنہیں میدان کار زار میں دشمن سے بر سر پیکار ہونا چاہیے تھا وہ اقتدار کی جنگ وہ بھی اپنے عوام سے جیتنے کی غرض سے یہی حربہ مادر ملت ؒ پر آزمانے لگے۔ خیال رہے کہ محترمہ فاطمہ جناح ؒ قیام پاکستان کے بعد وہ مقبول ترین قیادت تھیں جو آمریت کو للکار رہی تھی اور پھر اسی حربے کو عوام کے حق حاکمیت پر ڈاکہ ڈالنے کی غرض سے استعمال کیا جانے لگا۔

ابھی کرپشن کرپشن کی گرد اڑا کر مقبول ترین سیاسی قیادتوں کی کردار کشی کرنے کی ترکیب پر عمل شروع نہیں کیا گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات یا طرز سیاست کے بارے میں مختلف آراء قائم کی جا سکتی ہے۔ لیکن بہر طور ان کو کسی حال میں بھی بھارت کے حوالے سے غیر معمولی نرم گوشہ رکھنے والی شخصیت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے یہ فرض کر لیا تھا اور عوام کو بھی یہ فرض کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو قومی سلامتی کے لئے خطرہ بن چکے ہیں۔ جنرل چشتی اپنے ٹیلی ویثرن انٹرویو میں اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ ایسے خیالات پنپ رہے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ کے حوالے سے تو اتنی جرات نہیں ہوئی کہ انہیں کسی مقدمے میں ٹانگ دیا جاتا لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے یہ انتہائی قدم بھی اس وقت کے بابا رحمتا کی مدد سے اٹھا لیا گیا۔ بعد میں بابا رحمتا نے دباؤ اور غصے کا خود بھی اعتراف کر لیا اب کہیں واٹس ایپ کالز پر بھی اعترافی بیان نہ آ جائے۔ قوم منتظر ہے۔

بہرحال جب جنرل ضیاء کی آمریت قصہ پارینہ بنی تو اس کے بعد صرف ملک دشمنی کا الزام عائد کر کی مقبول قیادت کو دیوار سے لگانے کی کوششوں کو کامیاب بنانا بہت مشکل ہوا۔ لہٰذا کرپشن کرپشن کی دہائی دی جانے لگی۔ اور یہ ٹریفک صرف محترمہ بینظیر بھٹو تک محدود نہیں تھی بلکہ یہ واضح طور پر محسوس کیا جا رہا تھا کہ نواز شریف حزب مخالف کے واحد رہنماء کے طور پر سامنے آچکے ہیں اس لئے بد عنوانی کے الزامات دونوں پر لگائے جائیں تا کہ اس قابل ہی نہ ہو سکیں کہ ہمیں چیلنج کر سکیں۔ اسی دور میں محترمہ بینظیر بھٹو پر بھی سلامتی کے لئے خطرے کا الزام عائد کیا جانے لگا۔ جب نواز شریف مرکز میں اقتدار میں آئے تو کچھ عرصے میں ہی واضح ہو گیا کہ ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ کسی کو سپر پرائم منسٹر تسلیم کر لیں گے۔ لہٰذا گرا دیے گئے۔ 1997ء کے عام انتخابات کے نتائج نے یہ واضح کر دیا کہ نوازشری عوامی حمایت اس قدر حاصل کر چکے ہیں کہ سر دست ان کا سیاسی قلعہ نا قابل تسخیر ہو چکا ہے۔ اب کرپشن کرپشن کی دہائیوں کے ساتھ ساتھ ان پر وہی حربہ کے بھارت کے غیر معمولی دوست ہے۔ آزمایا جانے لگا۔

مشرف کا فوجی قبضہ براہ راست نواز شریف کے خلاف تھا۔ اگر کرپشن یا بھارت دوستی کے کسی الزام میں کوئی صداقت ہوتی تو طیارے کے اغواء کا مقدمہ بنا کر سزائیں نہ دلوائی جا رہی ہوتی۔ معاملہ اب بھی وہی ہے۔ کٹھ پتلیاں نچانے والے کٹھ پتلیوں کے ذریعے مسلسل یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ نواز شریف بھارت کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان کے اس بیان کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے کہ جس میں انہوں نے بھارت سے اچھے تعلقات اور تجارتی رشتوں کی بات کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ نواز شریف اور کیا بات کرتے؟ کیا وہ بھارت سے برے تعلقات اور نفرت آمیز گفتگو کرتے؟ نواز شریف پاکستانی عوام کا چہرہ ہیں۔ بالکل اسی طرح نریندر مودی بھارتی عوام کا چہرہ ہیں۔ نریندر مودی نے اپنی سیاست کی بنیاد سے آج تک نفرت کے ہتھیار کو استعمال کیا ہے اور نفرت کے اسی ہتھیار کو استعمال کرنے کی پاداش میں امریکہ نے ان پر اپنے ملک کے حوالے سے پابندیاں بھی عائد کر رکھی تھیں۔ دنیا ان کے توسط سے بھارت کا مکروہ چہرہ دیکھ سکتی ہے۔ ایسا چہرہ جو ہمسایوں کے ساتھ ساتھ اپنے ہم وطنوں کے لئے بھی نفرت کا چہرہ رکھتے ہیں۔ اور پاکستان کا چہرہ نواز شریف ہے۔

آپ بین الاقوامی میڈیا کی تمام رپورٹوں کو دیکھ لیں ان کو ہمسایوں کے حوالے سے، پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے حوالے سے، چھوٹی قوموں کے حوالے سے ایک امن دوست شخص کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ہمیں پاکستان کے لئے نریندر مودی کا چہرہ چاہیے جو نفرت کا پیام بر ہو۔ یا نواز شریف کا چہرہ جو امن کے لئے اپنے اقتدار، اپنی سیاسی حمایت تک کو داؤ پر لگانے کے لئے تیار بیٹھا ہو۔ یقینا جواب نواز شریف ہو گا۔ بھارتی اداکار شتروگن سنہا جنرل ضیاء سے قریبی تعلق رکھنے والی شخصیت تھے۔ جنرل مشرف سار کانفرنس میں واجپائی سے ہاتھ ملانے کا شرف حاصل کرنے کے لئے قدم بڑھاتے ساری دنیا نے دیکھا۔ انہی کے دور میں ان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری، اسرائیلی وزیر خارجہ سے خصوصی مصافحہ کرتے ہوئے اور اس کی تفصیلات میڈیا کو جاری کرتے ہوئے پائے گئے۔ لیکن مقتدر حلقوں نے ان دونوں ادوار میں ان اقدامات کو برداشت کر لیا۔ کیونکہ مخالفت صرف ووٹوں والوں سے ہے۔

نواز شریف کی بھارت کے حوالے سے کیا پالیسی ہے۔ اس کا اظہار اقوام متحدہ میں ہر دفعہ کشمیر کا ذکر کرتی ہوئی ان کی تقاریر ہیں۔ کیونکہ ان کے وزیر اعظم بننے سے قبل کی دونوں حکومتوں نے اقوام متحدہ میں کشمیر کا نام لینا بالکل ترک کر دیا تھا۔ لیکن نواز شریف تو برہان وانی کا نام لینے سے بھی نہیں چوکے۔ ہاں یہ درست ہے کہ نواز شریف پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کر ڈالنا چاہتے ہیں۔ میری تمام گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ عام انتخابات کی آمد آمد ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے الزامات عائد کر کے صرف پاکستان کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ماضی گواہ ہے کہ محترمہ فاطمہ جناحؒ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے چاہنے والوں نے ان پر الزامات قبول نہیں کیے۔ اس طرح نواز شریف کے لئے پسندیدگی کے جذبات رکھنے والے رائے دہندگان بھی اس پراپیگنڈے کو مسترد کر چکے ہیں جس کا اظہار عام انتخابات میں ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).