شریف بھائیوں کا دن دیہاڑے دورہ


ہمارا ایک سلفی دوست جب بھی’ اندر کی خبر‘ لاتا ہے، اُس کے لہجے کے ایقان اور آنکھوں کی چمک سے مرعوب ہو کر یار لوگ اُس کے کہے پر ایمان لے آتے ہیں، اور پھر وہ خبر آگے پھیلاتے ہیں اور اپنی شہرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ مگر نہ وہ باز آتا ہے، نہ ہم باز آتے ہیں، ڈگری کی طر ح بریکنگ نیوز تو بریکنگ نیوز ہوتی ہے، سچی ہو یا جھوٹی، اور اس کا اپنا ایک نشہ ہے، ایسا نشہ جس کا علاج کوئی صداقت کلینک نہیں کر سکتا۔

اب ہمارا یہ دوست شریف برادران کے دورہ سعودی عر ب کے حوالے سے بہت ہی ’اندر کی خبر ‘ لایا ہے۔ بقول اس کے حال ہی میں سوشل میڈیا پر دو تصاویر ایسی جاری ہوئیں کہ ہاؤس آف سعود نے بے چین ہو کر نواز شریف اور شہباز شریف کو سعودی عر ب طلب کر لیا۔ پہلی تصویر میں بڑے میاں صاحب جاتی عمرہ اپنی رہائش گاہ پر 12ربیع الا ول کی پر نور تقریب میں شرکائے مجلس میں خود اپنے ہاتھوں سے چاول بانٹ رہے ہیں، اور دوسری تصویر بھی اسی مقام پر گیارہویں شریف کے ختم کی ہے جس میں میاں برادران کا خشوع و خضو ع دیدنی ہے۔ المملکتہ العربیہ السعودیہ کے فرماں روا شاہ سلمان بن عبد العزیز السعود اور پاکستان کے سابق نااہل وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کی ملاقات کا تقریباً آنکھوں دیکھا حال سناتے ہوئے ہمارے دوست نے بتایا کہ بادشاہ بار بار ایک ہی بات دہرا رہے تھے۔ کل بدعتہ ضلالتہ، و کل ضلالتہ فی النار۔

جب کہ میاں صاحب نے اپنے موقف کے حق میں جامع مذہبی وسیاسی دلائل دیے، جو کہ آخر کار بادشاہ سلامت نے بخوشی قبو ل کر لئے۔ ملاقات کے اختتام پر شاہ سلمان نے اجتماعی دُعا کرائی جس میں القدس کی آزادی کی دُعا بھی شامل تھی، لیکن جو دُعا بادشاہ نے بار بار انتہائی گڑ گڑا کر مانگی وہ تھی اللھم و فق خادم حسین رضوی الی صراط المستقیم۔

مجھے ذاتی طور پر اس مخبر اور اُس کی خبر دونوں پر اعتبار نہیں لیکن کیونکہ بر یکنگ نیوز ہے اس لئے Share کر نا ضروری تھا۔ لیکن یہ سوال تو پھر اپنی جگہ کھڑا ہے کہ آخر شریف برادران کے ہنگامی دورہ حجاز کا اصل مقصد کیا تھا؟

اصحاب نون قوم کو قائل کر نے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس دورے کا تعلق فلسطین کی آزادی، دو مسلمان ملکو ں کے در میان صلح، اور ٹرمپ کی ٹوئیٹ سے ہے۔ یہ موقف پاکستانیو ں کی اجتماعی ذہانت کی توہین کے مترادف ہے۔ اس سے تو بہتر تھا مسلم لیگی رہنما کہہ دیتے کہ نواز شریف اور شہباز شریف مکہ مدینے اپنے سائز کی ٹوپیاں خریدنے گئے تھے۔ اُدھر میاں صاحبان کے مخالفین کا گمان ہے کہ دونو ں بھائیو ں کی صحرا نوردی کا سب NRO Part II کی تلاش تھا، جس کے تحت میاں صاحب قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس کر دیں گے اور سیاست کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ کر جلاوطنی اختیار کر لیں گے۔ یعنی ’’سبھی گناہ دُھل گئے، سزا ہی اور ہو گئی‘‘۔ انگلش ٹو اردو ڈکشنر ی میں Nonsense کے لئے کئی الفاظ موجود ہیں جن میں سے میں نے ’ ’لغو‘‘ چنا ہے۔
تو پھر اس دورے کا کیا مقصد سمجھا جائے؟ اندر کی خبر تو نہ جانے کب آئے گی فی الحال Indicators پر گزارا کر تے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ شرفاء کا یہ دورہ ایک ’’دن دیہاڑی‘‘ دورہ تھا، یعنی جس اہتمام سے بالخصو ص شہباز شریف کو بلایا گیا اُس سے تو یہ Optics کا سامان لگتا ہے۔

بزبان حال اہل ایمان کو شہباز شریف کامقام و مرتبہ سمجھایا گیا اور غالبا ریاست پاکستان کے نمایاں Stakeholders بھی اس باب میں متفق ہیں ورنہ شاید یہ دورہ اتنا برہنہ نہ ہوتا اور کم از کم ستر تو ضرور ڈھانپا جاتا۔ اس ضمن میں مسلم لیگ نون کے مخالفین کی برہمی قابل فہم ہے، وہ بھی یہ منظر دیکھ رہے ہیں اور اچھی طر ح سمجھ رہے ہیں۔

وطن واپسی پر شریف بھائیوں نے اپنے اپنے سابقہ موقف کا اعادہ کیا، بلکہ مزید شدت سے کیا۔ شہباز شریف نے افواج پاکستان سے اپنی لازوال محبت کا گیت پہلے سے بھی بلند آواز میں گایا۔ اوربڑے میاں صاحب نے بھی اداروں کے حوالے سے وہی تلخ لہجہ اختیار کیا، بلکہ تلخ تر۔ ویسے نواز شریف سے توقع بھی یہی تھی، یہ تو ممکن نہیں تھا کہ میاں صاحب جہاز سے اتر تے ہوئے’’ اے وطن کے سجیلے جوانو‘‘ گنگنا رہے ہوتے۔ وطن واپسی پر ان کی پہلی سیاسی ضرورت کسی ڈیل کے تاثر کو زائل کرنا تھا، اس سے قطع نظر کہ کوئی ڈیل ہوئی یا نہیں۔ کیونکہ عوام ایسی پس پردہ ڈیلز کا بُرا مناتے ہیں اورمیاں صاحب کے پلّے سوائے عوام کے اور ہے کیا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).