خاموشی کا بھنور اور سلمان تاثیر کا قتل


ماس کمیونیکیشن کی ایک تھیوری سپائرل آف سائلنس (Spiral of Silence) کافی دلچسپ ہے۔ سپائرل آف سائلنس تھیوری یہ کہتی ہے کہ اگر کسی موضوع پر کچھ لوگوں کی رائے اکثریت سے مختلف ہو تو وہ الگ کر دیے جانے کے خدشے کے خوف سے  اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرنے کی بجائے چپ رہتے ہیں۔

یہ تھیوری میں نے پہلی بار اپنے بیچیلرز کے آخری سیمیسٹر میں پڑھی تھی۔ 2011ء کا سال شروع ہوا تھا اور سابق پنجاب گورنر سلمان تاثیر کو ان ہی کے ایک محافظ نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے آگے جا کر ملک میں مذہبی جنونیت اور عدم برداشت کی جڑیں مزید مضبوط کر دیں۔ ہمیں جب یہ تھیوری پڑھائی گئی تو اس کے بعد ایک اسائنمنٹ دی گئی جس میں ہمیں سلمان تاثیر کے قتل کو اس تھیوری کے تناظر میں دیکھ کر تجزیہ کرنے کا کہا گیا تھا۔

سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر بلاسفیمی کے قانون کے متنازع ہونے اور بے جا استعمال کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے جس پر انہیں مختلف علماء کی جانب سے واجب القتل قرار دے دیا گیا تھا۔ 4 جنوری 2011ء کو ان کے اپنے ہی ایک محافظ ممتاز قادری نے ان پر گولیوں کی بارش کر دی جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔ جب پولیس نے باقی گارڈز سے پوچھا کہ انہوں نے ممتاز قادری کو کیوں نہ روکا تو انہوں نے کہا کہ پہلے تو وہ حیران تھے اور جب وہ صورت حال سمجھنے کے قابل ہوئے تب انہوں نے اس خوف سے اپنی بندوقوں کا استعمال نہ کیا کہ کہیں انہیں بھی اس قتل میں شامل نہ تصور کیا جائے۔

سپائرل آف سائلنس تھیوری کے مطابق اس تمام مرحلے میں میڈیا کا بھی ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ میڈیا اکثریت کی رائے کو بنانے یا سہارا دے کر مزید مضبوط کرتا ہے۔ ہمارا میڈیا بھی اس معاملے میں یہی کچھ کر رہا ہے۔  اپنے اپنے کاروبار بچانے کے چکر میں اس موضوع پر کبھی بھی میڈیا پر کھل کر بات نہیں کی جاتی۔ سلمان تاثیر اور ممتاز قادری کا ایشو اس قدر حساس ہو چکا ہے کہ اس بارے میں بات کرتے ہوئے خوف آتا ہے۔ اسی وجہ سے سلمان تاثیر کے قتل کے بعد مزید ایسے بہت سے واقعات ہوئے جہاں کسی پر بھی توہین کا الزام لگایا گیا اور بغیر صفائی کا موقع دیے موقع پر ہی قتل کر دیا گیا۔ مشال خان کا قتل کون بھول پایا ہے اب تک؟ اسے بھی یونیورسٹی انتظامیہ کی بدعنوانیوں کے خلاف بولنے کی پاداش میں بلاسفیمی کا الزام لگوا کر ایک ہجوم کے ہاتھوں قتل کروایا گیا تھا۔ 2017ء کے شروع میں جب بلاگرز کو اٹھایا گیا تو بلاگرز کی بازیابی کے لیے آواز اٹھانے والے لوگوں کو چپ کروانے کے لیے بلاگرز کے خلاف سوشل میڈیا پر توہینِ مذہب کے الزامات لگنے لگے جس کے بعد بلاگرز کے قتل کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ کچھ ہی روز قبل ایف آئی اے نے بیان دیا ہے کہ بلاگرز کے خلاف توہین مذہب کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔

کل ٹی وی پر سلمان تاثیر کی زندگی پر ایک رپورٹ دیکھی۔ رپورٹر نے حتی الامکان کوشش کی کہ وہ ان کی موت کو قتل نہ کہے، نہ ممتاز قادری کا نام لے اور نہ ہی بلاسفیمی کے قانون کا ذکر کرے۔ سلمان تاثیر کے سیاسی کرئیر کا ذکر کرنے کے بعد اس نے آخری لائن میں کہا کہ سلمان تاثیر اپنے ہی محافظ کی گولیوں کا نشانہ بننے کے بعد اس دارِفانی سے کوچ کر گئے۔ اب محافظ نے کیوں مارا اور اس کے ساتھ کیا ہوا۔ اس کے بارے میں تفصیلات اس نے اپنی اس رپورٹ میں نہیں دیں۔ وہ بیچارا اتنی تفصیلات دیتا تو فوراً اوپر سے نوٹس موصول ہوتا اور نوکری سے فارغ قرار پاتا۔

سلمان تاثیر کے قتل کے بعد مولانا خادم حسین رضوی منظرِ عام پر آئے۔ انہوں نے ممتاز قادری اور گالم گلوچ کا سہارا لیا اور آج وہ پاکستان میں چلتا پھرتا ایٹم بم ہیں۔ جب جی چاہتا ہے ہزاروں آدمیوں کو دین کے نام پر اکٹھا کر کے کسی بھی سڑک کو بلاک کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور ملک کا نظام درہم برہم کر دیتے ہیں۔ فیض آباد دھرنے کے دوران حکومت بھی ان کے آگے فیل ہوگئی۔ ان کو گھر بھجوانے کے لیے آپریشن کیا گیا تو وہ بری طرح ناکام ہوا اور اس کے نتیجے میں پورے ملک میں دھرنے شروع ہوگئے۔ ٹی وی چینلز کی نشریات معطل کر دی گئیں۔ ایک خوف کی صورت حال تھی جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ وزیرِ قانون زاہد حامد نے استعفیٰ دیا اور ڈی جی پنجاب رینجرز نے “اپنے لوگوں” کو ہزار ہزار روپے دیے تو یہ لوگ اپنے گھروں کو سدھارے۔

دیکھا جائے تو سلمان تاثیر کے قتل کے بعد صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ جنوری 2016ء میں ایک پندرہ سالہ لڑکا رسول ﷺ سے اپنی محبت ثابت کرنے کے لیے اور لوگوں کے ہاتھوں قتل نہ ہونے کے خوف سے اپنا ہاتھ کاٹ لیتا ہے۔ ہاتھ کاٹنے کے ساتھ ہی وہ ایک ہیرو بن جاتا ہے۔ دور دراز کے علاقوں سے لوگ آ کر اس سے ملتےہیں اور مبارکباد دیتے ہیں۔ ستمبر 2016ء میں ایک سولہ سال کے لڑکے کو فیس بک پر خانہ کعبہ کی تصویر لائک کرنے کے جرم میں بلاسفیمی کا مرتکب ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ ایسے ان گنت واقعات ہیں جن کی تفصیلات پڑھ کر دل روتا ہے لیکن پھر خادم حسین رضوی کا جملہ ذہن میں گونجتا ہے، “کون کہتا ہے، اسلام امن کا درس دیتا ہے”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).