ہمیں تفرقہ اور تعصب قبول نہیں


\"bilawalروم کے نزدیک پناہ گزینوں کے ایک مرکز میں پوپ فرانسس نے اسلام ، عیسائی اور ہندو عقیدہ کے ماننے والے بارہ افراد کے پاﺅں دھوئے اور انہیں بوسہ دیا۔ ایسٹر کے آغاز پر خاص طور سے اس تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس موقع پر ایک مذہبی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پوپ نے سب انسانوں کو خدا کے بچے قرار دیا اور کہا کہ ہمارے مذہب اور ثقافتیں الگ الگ ہیں لیکن ہم بھائی ہیں اور امن سے رہنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے دو روز قبل برسلز میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کو جنگی اقدام قرار دیا اور کہا کہ انسانیت کے بھائی چارے کو ختم کرنے میں اسلحہ کے کاروبار سے منسلک لوگ ذمہ دار ہیں۔ عیسائیوں کے اہم ترین پیشوا کی طرف سے خیر سگالی کا پیغام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب برسلز حملوں کے بعد یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکے ہوئے ہیں اور انتہا پسند سیاسی لیڈر عوام کی جذباتی کیفیت کا فائدہ اٹھانے میں مصروف ہیں۔ پوپ نے دہشت گردی کو ایک عقیدہ کے ساتھ منسلک کرنے کے رویہ کو مسترد کر کے متوازن اور معتدل رویوں کو ایک نئی قوت عطا کی ہے۔ اسی طرح کا ایک قدم پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اٹھایا ہے۔ انہوں نے کل عمر کوٹ میں ہولی کی ایک تقریب میں شرکت کی اور مذہب کی بنیاد پر لوگوں کی تقسیم کو غلط قرار دیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر ایک مسلمان بھارت میں صدر بن سکتا ہے تو پاکستان میں اقلیتی برادری کا کوئی رکن کیوں اس عہدہ تک نہیں پہنچ سکتا؟

یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس لئے اس پر اس بحث کی پٹاری کھولنے کی بجائے کہ ملکی آئین میں کیوں اور کیسے یہ اعلیٰ ترین عہدہ صرف اکثریت کے لئے مخصوص کر دیا گیا تھا، اس عزم کی داد دیتے ہوئے امید کی جانی چاہئے کہ بلاول بھٹو کی طرح دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی یہ تسلیم کریں گے کہ بدلتے ہوئے حالات میں مفاہمت اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے کے لئے باہمی احترام اور قبولیت کو عام کرنے کے لئے قومی مزاج، آئین اور طرز عمل میں تبدیلی کی یکساں طور سے ضرورت ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی پوپ فرانسس کی طرح انسانوں کے درمیان امتیاز اور تفرقہ ختم کرنے کے لئے اہم سوالات اٹھائے ہیں اور محبت اور بھائی چارہ عام کرنے کے لئے قدم اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

انتہا پسندی اور دہشت گردی کے طوفان نے دنیا بھر کے انسانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ لوگ انسانوں کو مارنے اور ان کے درمیان نفرتیں اور فاصلے پیدا کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ یہ عناصر کسی حد تک اپنے مقاصد میں کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں طالبان ، نائیجیریا میں بوکو حرام اور شام و عراق میں داعش کے خلاف فوجی کارروائی کامیاب ہو رہی ہے اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی حد تک ان عناصر کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو واگزار کروا لیا گیا ہے۔ اسی طرح نائیجیریا میں بوکو حرام کی قیادت کئی اہم شہروں اور دیہات سے محروم ہو چکی ہے اور اب یہ لوگ اپنے لیڈر شیخاﺅ سمیت جنگلوں میں مفرور ہیں۔ داعش شام اور عراق دونوں ملکوں میں اتحادی افواج کے دباﺅ کا سامنا کر رہی ہے۔ عراق کی فوج موصل کا محاصرہ کرنے اور اسے داعش سے واگزار کروانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ لاکھوں افراد کے اس اہم شہر کے اردگرد وسیع علاقوں سے دولت اسلامیہ کے جنگجوﺅں کو مار بھگایا گیا ہے۔ اسی طرح شام کی فوج قدیم شہر پالمیرا سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلہ پر پہنچ چکی ہے۔ امریکی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ داعش کا نائب سربراہ عبدالرحمن مصطفی القدولی ایک حملہ میں مارا گیا ہے۔ چند ماہ میں داعش اپنے زیر تسلط نصف رقبہ سے محروم ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود دنیا میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خطرہ سنگین ہو رہا ہے۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردوں نے گزشتہ دو برس کے عرصہ میں صرف حملے کرنے اور لوگوں کو مارنے کا کام نہیں کیا بلکہ انہوں نے مواصلت کے جدید ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے پروپیگنڈا کے زور پر مسلمانوں کی نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کا کام موثر طریقہ سے کیا ہے۔ خاص طور سے داعش نے سوشل میڈیا کے ذریعے ایک مشن کے طور پر اپنے مقاصد کو عام کرنے اور یورپ میں آباد مسلمانوں کے ذہنوں کو آلودہ کرنے کے لئے سائنٹیفک بنیادوں پر کام کیا ہے۔ اسی پروپیگنڈا کے نتیجہ میں 15-2014 کے دوران سینکڑوں نوجوان یورپ کے ملکوں سے شام گئے تھے جنہیں برین واش کر کے نام نہاد جہاد کے لئے آمادہ کر لیا گیا۔ ان میں سے بعض لوگوں کو تربیت دے کر واپس بھیجا گیا تا کہ وہ عملی طور سے مختلف ملکوں میں ہم خیال لوگوں کو منظم کر سکیں اور ضرورت پڑنے پر دہشت گردی کے ذریعے ہراس پیدا کریں۔ نومبر 2015 میں پیرس اور منگل کو برسلز میں ہونے والے حملے اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہیں۔ ان حملوں میں بالترتیب 130 اور 31 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

ان انتہا پسند عناصر کی اصل کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے عام مسلمانون کے دلوں میں جگہ بنانے کے لئے کام کیا ہے۔ یہ تصور عام کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ دنیا کے مسلمان مغربی سامراج کے ظلم اور غیر منصفانہ پالیسیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ عنصر بھی اسی پروپیگنڈا کا حصہ ہے کہ مختلف مسلمان ملکوں میں عوام کو یہ باور کروایا جائے کہ ان کے سیاسی لیڈر سامراج کے ایجنٹ ، بدعنوان اور مفاد پرست ہیں۔ وہ مسلمانوں اور اپنے عوام کے مفادات کی بجائے امریکہ اور سرمایہ دار مغرب اور غیر مسلم طاغوتی قوتوں کی ضرورتیں پوری کرنے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ بدنصیبی سے مسلمان آبادیوں میں مذہبی لیڈر اور رائے عامہ کو متاثر کرنے والے لوگ بھی براہ راست یا بالواسطہ طور سے اس پروپیگنڈا سے متاثر ہیں۔ اس طرح وہ نادانستگی میں لوگوں کی بے چینی کو بڑھاوا دے کر انتہا پسند گروہوں کے عزائم کو پورا کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو رہے ہیں۔

ان حالات میں اس بات سے فرق نہیں پڑے گا کہ افواج نے دہشت گردوں کو کسی ایک خاص علاقے سے مار بھگایا ہے یا ان کے زیر تسلط علاقوں کو واگزار کروا لیا گیا ہے۔ عراق سے موصول ہونے والی خبروں کے مطابق موصل پر از سر نو قبضہ کے سلسلہ میں سب سے بڑی مشکل یہ درپیش ہے کہ یہ شہر تنگ گلیوں ، بازاروں اور گنجان آبادیوں پر مشتمل ہے۔ داعش کے جنگجو محلوں، بستیوں اور گھروں میں گھس کر ایک طویل جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس لئے ماہرین کا خیال ہے کہ جو شہر جون 2014 میں داعش کے چند سو لوگوں نے دو تین روز میں فتح کر لیا تھا، اسے واپس لینے کے لئے کئی برس صرف ہو سکتے ہیں۔ اس وقت عراقی فوج داعش کے سنگدلانہ ہتھکنڈوں کے خوف سے اسلحہ اور وردیاں چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی تھی۔ مسلمان اکثریت والے بیشتر ملک اگرچہ محصور یا مقبوضہ نہیں ہیں لیکن مواصلت کے جدید ذرائع اور انتہا پسندوں کے نام نہاد اسلامی ایجنڈا سے متاثر ہونے والے رہنما اور دانشور درحقیقت امن اور انتشار کے درمیان اس جنگ میں تخریبی قوتوں کا آلہ کار بن رہے ہیں۔ یہی داعش ، طالبان یا القاعدہ کی کامیابی ہے اور اسی لئے دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں بدگمانی اور خوف میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مسلمان رہنما اس خطرے کو سمجھنے اور اس سے ہونے والے نقصان کی شدت کا اندازہ کرنے میں ناکام ہیں۔

دریں حالات پوپ فرانسس کا انسان دوستی کا عمل اور اعلان بے حد اہم ہے اور اسی طرح بلاول بھٹو زرداری کا اقلیتوں اور کمزور طبقوں کے حقوق واگزار کروانے کا عزم قابل قدر ہے۔ اس طرح کی آوازیں انتہا پسندوں کے ارادوں کو سامنے لانے اور لوگوں کو ان کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرنے میں بے حد معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ ویٹیکن میں بارہ افراد کے پاﺅں دھونے اور انہیں بوسہ دینے کی روایت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے سے پہلے کئے گئے عمل کی پیروی کے طور پر قائم ہوئی تھی۔ روایت کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس موقع پر اپنے بارہ قریب ترین معتمدین کے پاﺅں دھو کر انہیں بوسہ دیا تھا۔ اس سنت پر عمل کرتے ہوئے ویٹیکن میں ہر سال یہ تقریب منعقد ہوتی رہی ہے۔ پوپ بارہ اہم ترین مذہبی راہبوں کے پیر دھو کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے طریقہ کو تازہ کرتا ہے۔ تاہم اس مذہبی تقریب میں صرف مرد حصہ لیتے تھے۔ پوپ فرانسس نے 2013 میں منتخب ہونے کے بعد اس تخصیص کو ختم کر دیا اور عورتوں کے علاوہ غیر عیسائی لوگوں کو بھی اس میں شامل کیا جانے لگا۔ اب ویٹیکن نے سرکاری طور پر یہ اصول طے کر دیا ہے کہ اس تقریب میں دیگر مذاہب کے لوگ اور خواتین شامل ہو سکتی ہیں۔ آج روم کے نزدیک ایک پناہ گزین مرکز میں ہونے والی تقریب میں پوپ فرانسس نے جن بارہ افراد کے پاﺅں مقدس پانی سے دھوئے اور انہیں بوسہ دیا، ان میں عیسائیوں کے مختلف فرقوں کے علاوہ مسلمان اور ہندو عقیدہ کے ماننے والے بھی شامل تھے۔ ان میں 4 خواتین تھیں۔ اس طرح پوپ فرانسس نے ایک قدیم روایت کو توڑتے ہوئے ایک اہم مذہبی طریقہ کو نفرت ، تعصب ، امتیازی سلوک اور عدم مساوات کے خلاف ایک مضبوط دلیل اور ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے عمل کا آغاز کیا ہے۔ دیگر مذاہب کے لوگ بھی اس سے یہ سبق سیکھ سکتے ہیں کہ انسانوں کی بہبود ، فلاح اور امن کے لئے مذہبی روایات کو کس طرح بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نےبھی ہولی کی تقریب میں شرکت کر کے اور اقلیتوں کے حقوق کی بات کر کے درحقیقت ملک میں مذہبی انتہا پسندی کو چیلنج کرنے کے لئے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ان مقاصد کے لئے کام کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کو اہم عہدوں حتیٰ کہ صدر مملکت بننے کے مواقع فراہم ہونے چاہئیں۔ مذہب کی بنیاد پر لوگوں میں امتیاز اور تقسیم غلط ہے۔ اس کے خلاف جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

یہی وقت کی آواز ہے۔ اگرچہ پاکستان کے معروضی حالات میں اس قسم کی آوازوں کو دبانے کی کوشش ہوگی اور ایسے لیڈر کو گمراہ اور اسلامی روایات کا دشمن قرار دینے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ لیکن نوجوان بلاول نے ان خطرات کے باوجود اہم معاملہ پر دوٹوک موقف اختیار کر کے خود کو ایک دلیر اور روشن خیال لیڈر ثابت کیا ہے۔ اس لئے ان کے اس اقدام کی توصیف ضروری ہے۔ اس رویہ کو عام کرنا قومی ضرورت ہے۔ تب ہی ملکی اور عالمی سطح پر انتہا پسندوں کے انتشار اور نفرت پیدا کرنے کے ہتھکنڈے ناکام بنائے جا سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments