نور الہدیٰ شاہ کا کالم، نوراں کنجری اور سماج کا حمام!


   

نور الہدیٰ شاہ نے اپنے کالم میں، میڈم نور جہاں، نوراں کنجری اور میں نور، لکھ کر بری عورتوں کو درجہ اول، دوم اور سوم کے جمرات کی طرح رمی کرتے اور انہیں نفرت سے طوائفیں، کنجریاں اور رنڈیاں کہہ کر ان کے جنم پر تھوکتے معاشرے کے رستے ذخموں میں رینگتے کیڑوں کی نشاندہی نہیں کی بلکہ کوئلے اور پتھر کے بیوپاریوں کی ذہنیت کو ادھیڑا ہے، جو پہلے تو اپنی غلاظتیں ان بری عورتوں کو کوڑا دان سمجھ کر ان میں تھوکتے ہیں اور بعد ازاں سفید کلف لگے لباس پہنے، گردنیں اکڑائے ان کو فاحشائیں کہہ کر پتھر مارتے ہیں اور ایدھی کے جھولے کو گالیاں دیتے ہیں۔

 یہ ایدھی کا جھولا کہاں سے آیا ؟ کیوں آیا اور اس میں جھولتے بچے کون ہیں، کس کے ہیں اور انہیں حرامی کہنے والا معاشرہ انہیں جینے کا حق کیوں نہیں دیتا ؟ یہ سارے سوال اس موضوع کا حصہ ہیں جس پر نور نے قلم اٹھایا ہے ۔۔

زیادہ پرانی بات نہیں جب نور( نورالہدیٰ شاہ ) فون پر کسی کو اللہ نور السمٰوات و الارض کا مطلب بتا رہی تھیں۔

 اللہ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے
کائناتوں میں مثال اس روشنی کی ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو
چراغ ایک فانوس میں ہو اور فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا
اور وہ چراغ زیتون کے ایک مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو
جو نہ شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو۔۔

 مطلب سمجھاتے ہوئے نور پر جو کیفیت طاری تھی، وہ میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی، اسی لیے یاد رہ گئی۔
کالم پڑھا تو نور بھی یاد آئیں، وہ کیفیت بھی اور کچھ بھولے بسرے قصے بھی۔

پہلا قصہ ایک ملامتی بابے کا ہے ۔ جس کا نام عبداللہ یعنی اللہ کا بندہ تھا۔ جو ذات کا سید تھا، مگر زمانہ جسے بابا بلھے کے نام سے جانتا ہے ۔

بڑا عجیب تھا یہ بابا، ذات پات کے عروج کے زمانے میں، ذات کا انکار کرتا تھا، سوہے اور ساوے چولے پہنتا تھا اور پاﺅں میں گھنگرو باندھ کر رقص کرتے ہوئے برملا کہتا تھا۔ چھتی بوڑھیں وے طبیبا، نئیں تاں میں مر گئی آں۔۔۔۔ تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا۔۔۔

 یہ سرعام گستاخیاں باشرع اور ( اپنے تئیں) برگزیداﺅں  کی برداشت سے باہر تھیں، چنانچہ بلھے پر فتو ےٰ لگا کر اسے قصور شہر سے باہر نکال دیا گیا ۔

 اس بے گھر، بے در، ملامتی صوفی کے جرمِ خانہ خراب کو اس کے بعد اماں ملی تو کہاں؟ مرادی بائی کے ہاں، جو وہاں کی مشہور طوائف تھی اور قصور شہر سے باہر جس کا ٹھکانہ تھا۔اسی ٹھکانے میں بابا بلھا اس ناپاک عورت کو موسیقی کا سبق دیتے ہوئے یہ کہتے رہے

عاشق ہویوں رب دا، ملامت ہوئی آ لاکھ
لوکی کافر کافر آکھدے توں آہو آہو آکھ ۔۔
اور یہ کہتے کہتے وہیں ایک دن ان کا انتقال ہو گیا ۔

اب مرحلہ ان کی تجہیز و تکفین کا تھا ۔ مرادی بائی نے مولویوں سے رجوع کیا۔ مگر انہوں نفرت سے  انکار کر دیا، نہ صرف بلھے کا جنازہ پڑھانے سے، بلکہ قصور کے قبرستان میں بلھے کو دوگز زمین دینے سے بھی ۔۔۔ جس کے بعد مرادی نامی فاحشہ نے اپنے باغ میں قبر کھدوائی اور بلھے کے جسد کو مٹی دی ۔ اس مٹی کو اپنے پلید آنسوﺅں سے ترونکتے ہوئے اس نے بھی نوراں کنجری کی طرح خود پر نفرین کی ہوگی اور اپنے گندے وجود کو عاجزی سے سمیٹتے ہوئے  یقیناَ اللہ نور السمٰوات والارض سے عرض گزاری ہوگی ۔ سچے سائیاں ! میں کوہجھی کی لاج رکھیں، میرے بس میں جو تھا میں وہ کر گزری۔

 اب تیرا یار جانے اور تو ۔۔!
اوہدیاں اوہ جانے سانوں اپنی توڑ نبھاون دے۔

رب جانے یہ اس کنجری کے گٹھڑی بنے ناپاک وجود کا عجز تھا، یا سچے سائیں کی مرضی، کہ چند ہی برس بعد قصور شہر میں تباہ کن سیلاب آیا اور وہ اس میں غرق ہو گیا ۔ نیا شہر مرادی کے باغ کے گرد آباد ہوا ۔ جس کے قلب میں ملامتی بابے کی قبر تھی۔

فقیر کے ڈیرے ا ور طوائف کے کوٹھے کا یہ کومبی نیشن۔ اقبال، ٹبی گلی اور مسجد کے تال میل پر غور کرتی نور ( نور الہدیٰ شاہ ) کو تو شاید عجیب نہ لگے مگر انہیں ہرگز اچھا نہیں لگے گا، جنہیں نوراں کنجری اور نور جہاں کے ناموں پر غصہ ہے اور جو کنجری کی ذات پر لاکھوں دفعہ تھوکتے ہوئے اسے اس پاک نام کے قابل نہیں سمجھتے۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مرزا ہادی رسوا کی امراﺅ جان ہو یا غلام عباس کی آنندی، یا پھر رحمان مذنب کی درجہ چہارم کی نوچیاں، یہ گندی عورتیں، ہمیشہ سے ایک بڑے سے کوڑادان کی حیثیت میں اس معاشرے کا اہم حصہ رہی ہیں ۔جس میں یہ سماج منہ بھر کر تھوکتا بھی ہے اور رات کے اندھیرے میں اس تھوکے کو چاٹتا بھی ہے۔

بڑا دوغلا ہے یہ سماج اور اس کے سارے کرتا دھرتا، اس کے پاک باز جو شاہی مسجد میں رکوع اور تکبیرین گزارتے ہیں، ٹبی گلی کی جانب دیکھنے سے اجتناب کرتے ہیں اور پھر انہی گلیوں میں نفس کی تسکین کرتے ہیں ۔ آنندی میں انہی لوگوں نے بلدیہ سے قانون پاس کرا کر شہر کی تمام گندی عورتوں کو شہر سے باہر دھکیل دیا تھا ۔اور بعد میں یہی اٹھ کر اس شہر کی اٹھان کا حصہ ہو گئے تھے۔ ٹبی گلی کی ناپاک عورتوں کے دھندے پر بھی دو دہائیاں قبل انہی لوگوں نے پابندی لگائی تھی ۔

جس کے بعد وہ وہاں سے اٹھ کر شہر کے پوش علاقوں کا حصہ ہو گئیں اور شرفاء ان کے پناہ گیر ہو گئے۔

بائیاں، آنٹیوں کے زرق برق لبادے میں چھپ گئیں۔ اور زنانِ بازاری نے کال گرلز کا روپ دھار لیا۔ رہ گئی ٹبی گلی تو اب وہاں گزرے ماضی کی چند متروک یاد گاریں، ان بوسیدہ کوٹھوں، جھروکوں اور بالکونیوں کی شکل میں منہ لپیٹے کھڑی ہیں، جن کا رنگ و روغن اتر چکا ہے اور اب وہاں گھنگھروﺅں کی جھنکار کے بجائے پرانی ابابیلوں کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ گونجتی ہے یا پھر زنانہ بیماریوں میں مبتلا سال خوردہ طوائفوں کی مکروہ کھانسی، جنہیں خود اپنے آپ سے گھن آتی ہے ۔

انہوں نے گزارے کے لئے کھسروں، اور جز وقتی جسم فروش عورتوں کو پرانی کھولیاں بھاڑے پر دے رکھی ہیں ۔

 یا پھر وہ فوڈ سٹریٹ، جسے اقبال حسین نام کے اس سرپھرے مصور نے پہلے پہل آباد کیا تھا، جو خود کو نہایت دھڑلے سے طوائف زادہ کہتا ہے اور اپنی پہچان پر ذرا برابر شرمندہ نہیں ہوتا۔ وہیں اس ملک کے ایک سابقہ بیورو کریٹ کی بیگم ٹبی گلی کے ناجائز بچوں (جن پر نور کو پیار آتا ہے) کے لئے ایک درس گاہ کھولے بیٹھی ہے شاید ان میں سے کوئی اقبال حسین نکل آئے ۔

مگر یہ ایک خواہش ہے، محض خواہش۔ جیسے نور کی خواہش ہے کہ نوراں کنجری، نور جہاں اور نور الہدیٰ شاہ کے تقابلی جائزے کے بجائے  انہیں اللہ نور السموات والارض کی خوبصورت تخلیق سمجھ کر اس کی ملامت ترک کر دی جائے اور اسے انسان سمجھنے کی کوشش شروع کر دی جائے۔ اب آپ ہی بتائیں قارئین بھلا یہ ممکن ہے؟

اللہ رکھی، بھلے عالم میں نورجہاں کہلائی جائے، مرادی بائی بھلے بابا بلھے شاہ کی گور کی مجاور رہے اور نوراں کنجری بھلے، ٹبی گلی کے ناجائز کہلائے جانے والے بچوں کی کفالت میں تن من دھن وار دے۔ کیا ان صفات کی بنا پر ان کی ذات کو تبدیلی کا حق دیا جا سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔

یہ ذات پات، نیک بد، گنہ گار و پاک باز کے درجوں میں بٹا سماج ۔جس کے جسد سے تعفن کے بھبھکے چھوٹتے ہیں اور جس کے گٹر کا دہانہ سدا کھلا رہتا ہے، جب تک اسے ڈھکن نصیب نہ ہو گا، یہ نہیں بدل سکتا۔

اسے بابا بلھا بدل سکا، نہ منٹو، نہ غلام عباس، نہ رحمان مذنب اور نہ ہی مرزا ہادی رسوا۔
اور تو اور اسے تو عبدا الستار ایدھی جیسا شفیق اور سراپا مہربان نہ بدل سکا، جسے جھولا رکھنے پر ہزار ملامتیں سہنا پڑیں ۔
مگر وہ ہر ملامت کے جواب میں پیغمبرانہ مسکراہٹ سے آہو آہو کہتا رہا۔

 کیا یہ سماج نوراں، اور نورجہاں کو طاق میں رکھے چراغ۔۔۔ چراغ جو ایک فانوس میں ہے۔۔۔ اور فانوس کا حال یہ ہے کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا۔۔۔ کا عکس قرار دے سکتا ہے؟

 توبہ استغفراللہ۔ توبہ توبہ۔۔۔۔!


میڈم نورجہاں، نوراں کنجری اور میں نور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).