جماعت الدعوۃ کے خلاف نیم دلانہ اقدامات سود مند نہیں ہوں گے


وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ حکومت نے حافظ سعید کی تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ امریکہ کی دھمکیوں اور دباؤ کے نتیجہ میں نہیں کیا ہے بلکہ یہ سرکاری پالیسی کا حصہ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جماعت الدعوۃ کے خلاف کارروائی آپریشن ردالفساد کے نتیجے میں ہو رہی ہے۔ یہ آپریشن جنرل قمر جاوید باجوہ نے نومبر 2016 میں فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد شروع کیا تھا۔ اس آپریشن کو آپریشن ضرب عضب کا تسلسل قرار دیاگیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ اس کے تحت ملک کے قبائیلی علاقوں کے علاوہ شہروں اور دیہات میں دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ وزیر دفاع کے اس تبصرہ سے قطع نظر جماعت الدعوۃ کے سربراہ نے بی بی سی کو انٹریو دیتے ہوئے واضح طور سے کہا ہے کہ ان کی تنظیموں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ امریکہ اور بھارت کے دباؤ کا نتیجہ ہے۔ حافظ سعید نے حال ہی میں ہائی کورٹ کے حکم سے نظر بندی سے نجات پائی ہے اور ملی مسلم لیگ کے نام سے سیاسی پارٹی بنا کر آئیندہ انتخابات میں ملکی سیاست کا باقاعدہ حصہ بننے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ خبر سامنے آنے کے بعد بھارت کے علاوہ امریکہ کی طرف سے بھی سخت احتجاج کیا گیا تھا اور امریکی وزارت خارجہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ دہشت گردی میں ملوث لوگ انتخابات میں حصہ لینے اور جمہوری عمل کا حصہ بننے کے قابل نہ ہوں۔ وزیر دفاع اور حافظ سعید کے متضاد بیانات کے باوجود عام طور سے یہی مانا جائے گا کہ گزشتہ دنوں میں امریکہ کی طرف سے شدید الزام تراشی کے بعد پاکستان کچھ ایسے اقدامات کرنا چاہتا ہے کہ امریکی صدر کا ’غصہ‘ کم کیا جاسکے۔

اس صورت حال میں یہ سوال ضرور پیدا ہوگا کہ کیا اس قسم کے اقدامات دونوں ملکوں کے درمیان صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے الزامات سے پیدا ہونے والی آلودہ فضا کو صاف کرسکیں گے۔ اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس خطے میں امریکہ کے مفادات پاکستان کی ترجیحات سے متصادم ہیں۔ گو کہ دونوں ملکوں کی قیادت اس بارے میں کھل کر بات کرنے کی کوشش نہیں کرتی لیکن یہ حقیقت اب روز بروز کھل کر سامنے آرہی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اصل تنازعہ افغانستان میں جاری طالبان کی مزاحمت یا حقانی نیٹ ورک کے حملے نہیں ہیں بلکہ چین کے ساتھ اس کا اقتصادی اور سیاسی تعاون اس مسئلہ کی جڑ ہے۔ پاکستان پر نہ تو طالبان کی حمایت کے الزامات نئے ہیں اور نہ ہی پاکستان کا مسلسل انکار کسی سے پوشیدہ ہے کہ وہ کسی دہشت گرد گروہ کو محفوظ ٹھکانے فراہم نہیں کرتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے البتہ ان الزامات میں شدت آگئی ہے۔ امریکہ کے نائب صدر مائیک پنس نے دسمبر کے دوران افغانستان کا دورہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان کو تنبیہ کی ہے کہ وہ اپنی پالیسی تبدیل کرلے۔ ابھی اس بیان پر غم و غصہ اور وضاحتوں کا سلسلہ تھما نہیں تھا کہ یکم جنوری کو صدر ٹرمپ نے خود ایک ٹویٹ پیغام میں پاکستان کو جھوٹا اور دھوکے باز قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان امریکی لیڈروں کو بے وقوف بناتا رہا ہے۔ اس نے امریکہ سے پندرہ سال میں 33 ارب ڈالر امداد کے طور پر وصول کئے ہیں لیکن وہ ان دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کررہا ہے جو افغانستان میں امریکی افواج پر حملے کرتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اب ایسا نہیں ہوگا۔

صدر ٹرمپ ٹویٹ پیغامات میں غیر پارلیمانی اور سفارتی آداب سے عاری زبان استعمال کرنے کے عادی ہیں اس لئے اس سخت بیان پر رد عمل دینے کے باوجود پاکستان کے متعدد حلقوں میں یہ قیاس کیا جارہا تھا کہ ٹرمپ کے بیان سے امریکی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی۔ وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے بھی کل قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ امریکی اہلکار پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں اور انہیں اس بارے میں پاکستان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن بات صرف ٹرمپ کے جارحانہ ٹویٹ تک محدود نہیں ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب نکی ہیلی نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ امریکہ پاکستان کو دیئے جانے والی 225 ملین ڈالر کی امداد روک رہا ہے۔ کیوں کہ پاکستان نے برسوں تک امریکہ کے ساتھ ڈبل گیم کی ہے۔ موجودہ حکومت اس رویہ کو قبول نہیں کرے گی۔ یہ باتیں صدر ٹرمپ کے ٹویٹ پیغام میں لگائے گئے الزامات کی تائد کرتی ہیں۔ آج وہائٹ ہاؤس کی ترجمان سارا سینڈرز نے کہا ہے کہ آئیندہ چند روز میں پاکستان کے خلاف مزید اقدامات دیکھنے میں آئیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف مزید کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسے یہ اقدامات کرنے چاہئیں‘۔ ان دونوں بیانات سے یہ تو واضح ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ کی حکومت پاکستان پر دباؤ میں اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اب بات بیان بازی سے بڑھ کر عملی اقدامات کی صورت اختیار کررہی ہے۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ امریکہ پاکستان کے خلاف کس حد تک جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یا ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اور منظم طاقتور فوج کے حامل ملک کے خلاف امریکہ اپنی تمام تر قوت اور معاشی صلاحیت کے باوجود آخر کیا انتہائی اقدام کرسکتا ہے کہ اسے اپنی مرضی کے مطابق تعاون کرنے پر مجبور کرسکے۔

اس سوال کا جواب تو یہی ہوگا کہ امریکہ کے پاس پاکستان کو سزا دینے کے لئے بہت کم آپشن ہیں۔ اس کی طرف سے فوجی امداد بند ہونے اور پابندی عائد ہونے سے پاک فوج کو امریکی ہتھیاروں کے فاضل پرزہ جات کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے لیکن وقت کے ساتھ اس مشکل پر قابو پالیا جائے گا۔ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں زیر و بم کے پیش نظر چین کے علاوہ دیگر ملکوں سے ہتھیاروں کی خریداری اور ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے کوششیں شروع کررکھی ہیں۔ اس صورت حال سے امریکی حکومت بھی بے خبر نہیں ہو سکتی لیکن اس کے باوجود پاکستان کے خلاف مسلسل شور مچانے کا اصل مقصد پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون پر اپنے غم و غصہ کا اظہار کرنا بھی ہے۔ امریکہ نے افغان جنگ میں پاکستان کے ساتھ اور تعاون کی ضرورت کے باوجود اسے نظر انداز کرکے بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھانا شروع کردیئے تھے۔ پالیسی میں اس تبدیلی کی وجہ پاکستان کی کوئی کمزوری یا نااہلی نہیں تھی بلکہ بحر ہند اور بحیرہ جنوبی چین میں چین کی بڑھتی ہوئی قوت کو چیلنج کرنے کے لئے امریکہ کو بھارت جیسے ساتھی ملک کی ضرورت تھی۔ پاکستان چین کے خلاف عالمی سطح پر یا اس علاقے میں امریکی ایجنڈے کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس لئے کاروباری ضرورتوں کے علاوہ چین کے خلاف محاذ آرائی کے لئے امریکہ کو بھارت سے بہتر حلیف میسر نہیں آسکتا تھا۔ بھارت کی معیشت ترقی پذیر ہے اور بہت سے ماہرین کے خیال میں چین کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کا جغرافیائی محل وقوع بہت مناسب ہے۔ بھارت چین کے ساتھ کاروباری مخاصمت کے علاوہ سرحدی تنازعات میں بھی ملوث رہتا ہے اور وہ ابھی تک 1962 کی چین بھارت جنگ میں اٹھائی گئی ہزیمت کو بھی نہیں بھولا ہے۔

ان سب وجوہات کی وجہ سے بھارت چین کے خلاف امریکی منصوبوں میں بہترین فریق بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جبکہ امریکہ پاکستان سے چین کے خلاف ایسی خدمات کی توقع نہیں کرسکتا۔ اس کے علاوہ پاک چین اقتصادی منصوبہ کے ذریعے دونوں ملک مزید قریب آنے لگے ہیں۔ بھارت کے علاوہ امریکہ بھی اس منصوبہ کو اپنے اسٹریجیک مفادات اور اقتصادی عزائم کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ سی پیک دراصل چین کے ون روڈ ون بیلٹ منصوبہ کا حصہ ہے جس کے ذریعے دنیا کے ساٹھ سے زیادہ ممالک کو براہ راست بری و بحری مواصلاتی رابطوں سے منسلک کر دیاجائے گا۔ یہ منصوبہ مکمل ہونے کی صورت میں ایشیا ، افریقہ اور یورپ ایک وسیع اور طاقتور اقتصادی لڑی کی حیثیت اختیار کرلیں گے جو امریکہ کی دنیا میں نمبر ایک معیشت کی حیثیت کے لئے ذبردست چیلنج بن جائے گا۔ بھارت جنوبی ایشیا میں پایہ تکمیل کو پہنچنے والے اس عظیم منصوبہ کا حصہ دار بن کر ان اقتصادی امکانات میں شراکت دار بن سکتا تھا لیکن اس کی حکومتوں نے علاقے کا نمبردار بننے کے دیرینہ خوابوں کی تکمیل کے لئے امریکی منصوبوں کا ساتھ دینا ضروری سمجھا ہے۔ پاکستان اس امریکی بھارتی گٹھ جوڑ کا بالواسطہ نشانہ بن چکا ہے۔ کیوں کہ چین کے اقتصادی منصوبوں کی تکمیل میں پاکستان کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔

اس پس منظر میں پاکستان البتہ امریکہ کے اصل اہداف کو بھانپنے اور اس کے عزائم کے خلاف واضح حکمت عملی بنانے میں ناکام رہا ہے۔ پاکستان کی پالیسی ہمیشہ سے بھارت پر فوکس رہی ہے۔ افغانستان کی پہلی اور دوسری جنگ کے دوران طالبان یا دوسرے عسکری گروہوں سے تعلقات استوار کرنے میں بھی یہی مزاج کارفرما رہا ہے۔ پاکستان نے افغانستان کو اپنی اسٹریجیکل ڈیپتھ قرار دے کر وہاں طالبان سے مراسم استوار کئے تاہم نائین الیون کے بعد جب امریکہ نے طالبان کو دشمن قرار دیا تو پاکستان کے لئے متوازن راہ تلاش کرنا مشکل ہوگیا۔ بظاہر طالبان کے خلاف جنگ کا حصہ بننے کے باوجود پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور طالبان کے مختلف گروہوں کے مراسم جاری رہے۔ امریکہ اسے ہی اب پاکستان کی ڈبل گیم قرار دے رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کو مصروف رکھنے کے لئے اپنے ہاں لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے گروہوں کی پرورش کی۔ اس طرح بھارت کے علاوہ اب امریکہ کو بھی پاکستان پر مسلسل یہ الزام لگانے کا موقع مل رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے۔ بھارت کو اپنی ہمہ قسم پالیسی کا محور بنائے رکھنے کی وجہ سے ہی پاکستان نے موجودہ صدر اشرف غنی کے برسر اقتدار آنے کے باوجود افغانستان سے براہ راست تعلقات استوار اور اعتماد بحال کرنے کی کامیاب کوشش نہیں کی۔ پاکستان یہ سمجھتا رہا ہے کہ امریکہ تنگ آکر بالآخر افغانستان کو چھوڑ کر چلا جائے گا۔ اس کے بعد وہاں کے حالات پر کنٹرول رکھنے کے لئے طالبان سے مراسم ہی سب سے زیادہ مؤثر ہوں گے۔ لیکن اگر امریکہ کے چین مخالف ایجنڈے اور وسطی ایشیا کے حوالے سے ضرورتوں کو پیش نظر رکھا جاتا تو اس کوتاہ نظری سے بچاجا سکتا تھا۔ جماعت الدعوۃ اور جیش محمد کی افزائش بھی اسی بھارت سینٹرڈ پالیسی کا حصہ ہے۔ اب ذبردست امریکی دباؤ میں اسے تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

پاکستان نے جماعت الدعوۃ اور اس کے فلاحی ادارے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے خلاف یہ کہہ کر چندہ اکٹھا کرنے کی پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے کہ یہ تنظیمیں یا تو اقوام متحدہ کی دہشتگرد تنظیموں کی فہرست پر ہیں یا زیر نگرانی تنظیموں کی لسٹ میں شامل ہیں۔ لیکن اندیشہ ہے کہ حافظ سعید کی تنظیم کے خلاف یہ اقدام ناکافی اور غیر متاثر کن ہوگا کیوں کہ اب بھی یہی لگتا ہے کہ یہ قدم نیم دلی سے اٹھایا جا رہا ہے۔ ایسے اقدامات پاکستان کے لئے امریکہ میں کوئی نرم گوشہ پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ پاکستان کو موجودہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے اپنے پالیسی آپشن واضح کرنے اور متنازعہ تنظیموں اور افراد کے خلاف سخت اور نتیجہ خیز اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اسی طرح افغانستان کے بعض گروہوں کے ساتھ روابط اور تعلقات کو اس امید پر قائم رکھنے سے بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا کہ امریکہ اس علاقے سے نکلے گا تو یہ گروہ بھارت مخالف ایجنڈے میں پاکستان کا اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ وہ وقت آنے تک پاکستان عالمی سطح پر امریکی اور بھارتی پروپیگنڈا کی وجہ سے اپنا اعتماد اور بھروسہ کھو بیٹھے گا۔

سی پیک سے اقتصادی مفادات اٹھانے کا خواب بھی اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جب پاکستان اپنی شہرت اور نیک نامی کو بہتر بنانے کے لئے ٹھوس کارروائی کرتا دکھائی دے۔ امریکہ چین کے خلاف محاز آرائی میں پاکستان کو بدستور رکاوٹ سمجھے گا لیکن اگر پاکستان اپنی کمزویوں پر قابو پاسکے اور غلطیوں کا تدارک کرنے کی کوششوں کا آغاز کرے تو امریکہ یا بھارت کو پاکستان پر براہ راست انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali