بشریٰ اعجاز، قاسم بگھیو اور یومِ انکشاف


 \"naseerبہت دنوں سے کالم نہیں لکھا۔ کئی موضوعات ذہن میں آئے اور نکل گئے۔  حالاتِ حاضرہ، دائیں بائیں کا قضیہ، رجعت پسندی، لبرل ازم اور دیگر سیاسی موضوعات جن پر بیک وقت بیسیوں لوگ لکھ رہے ہوتے ہیں، ان پر ہمارا قلم نہیں چلتا۔ یہ خامی ہمیشہ دامن گیر رہی کہ وہ راستہ چنا جائے جس پر کوئی نہ چلا ہو یعنی بقول رابرٹ فراسٹ \”راہِ نارفتہ\”۔ اسی سوچ بچار میں تھے کہ انیس مارچ بروز ہفتہ بشری اعجاز کا فون آ گیا اور یہ نوید بھی کہ وہ اسلام آباد سے ہماری طرف رواں دواں ہیں۔ ہم حیران ہوئے کہ پہلے تو ہمیشہ ان کی آمد و قیام کا نشانہ براہ راست غریب خانہ ہوتا تھا اس بار کسی اور جگہ کیوں رونق افروز ہیں۔ پھر ان کا رخ موڑنے کی بہت کوشش کی کہ آج نہیں کل آئیں یا آتے ہی ہمارے ساتھ بطورِ مہمان نجیبہ عارف کے گھر چلیں جہاں اسلام آباد ادبی فورم کا ماہانہ اجلاس اور عشائیہ ہے اور بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ کی اجتماعی نظارگی کا اہتمام بھی۔ لیکن بشریٰ نے ہماری ایک نہ سنی اور آ کر ہی چھوڑا۔ پتا چلا کہ وہ لاہور سے راولپنڈی کسی بڑے پیر صاحب کے پیدائشی پیر بیٹے کی شادی میں آئی تھیں لیکن بقول ان کے اسلام آباد/ پنڈی آ کر اگر ہم سے ملاقات نہ کریں تو ان کے آنے جانے کے پیسے پورے نہیں ہوتے۔ حالانکہ یہاں آ کر نہ کبھی پہلے ان کا ایک دھیلا خرچ ہوا ہے نہ اب۔ پہلے بھی ہمارے ہی پیسے بلکہ \”پزے\” خرچ ہوتے تھے اور اب بھی ان کی دو روزہ بود و باش کا انتظام پیر صاحب کے کرشماتی نظامِ پیری کا تھا۔ نظامِ پیری میں خزانہ مریدوں کے ہدیوں، چڑھاووں اور نذرانوں سے بھرا رہتا ہے۔ ہماری ملکی معیشت سے پیروں کی معیشت زیادہ مستحکم ہے۔ کیونکہ اس کا سرچشمہ، زرِ مبادلہ میں ہو یا مقامی کرنسی میں، \”روحانی آئی ایم ایف\” ہوتا ہے۔ اسی لیے آج کل پیروں کے بچوں کی شادیاں اور مہمان داریاں ست اور پنج تارہ ہوتی ہیں۔ مریدان بھی کئی ستاروں والے جرنیل، بڑے بڑے عہدوں اور رتبوں والے سرکاری افسران، سیاستدان، وڈیرے اور بزنس مین ہوتے ہیں۔ ہما شما تو مرید بننے کے اہل بھی نہیں۔

\"526x297-wui\"پِیروں کا ذکر چلا تو ہم نے بشریٰ کو یاد دلایا کہ کسی مانے میں ان کا روحانی محور و مرکزِ ایک اور پیرکلاں  ہوا کرتے تھے۔ جن پر انہوں نے کئی کلو گرام وزنی کتاب مرتب کر ڈالی تھی اور ہم جیسے \”بے وزنے\” سے اس کا فلیپ بھی لکھوا لیا تھا۔ ہم نے بشریٰ کو بتایا کہ وہ پیر صاحب جب ابھی کشف و معرفت کی منزلوں پر نہیں پہنچے تھے تو ہمیں ناڑی والی قلم اور دوات والی نیلی روشنائی سے غلط املا میں خط لکھا کرتے تھے کیونکہ وہ بھی ہماری طرح یا ہم سے کچھ کم اَن پڑھ تھے۔ تب ہم اتنے گمنام نہیں تھے۔ اب ہمیں کوئی نہیں جانتا لیکن پیر صاحب کئی آستانوں کے مالک، ہزاروں مریدوں کے مولیٰ، معروف و مقتدر ہستی ہیں۔ پیر صاحب نے ایک خط میں لکھا تھا کہ زمینداری، گھڑ سواری اور مشہور لوگوں سے رابطے ان کے مشاغل ہیں۔ ویسے ان کا ایک اور مشغلہ بھی تھا جو انھوں نے خط میں نہیں لکھا تھا لیکن زباں زد عام تھا۔ اس پر بشریٰ نے ہنستے ہوئے کہا کہ تب ان کا تصوف پالنے میں تھا، اب بڑا ہو گیا ہے۔ ہمارے فلیپ اور بشریٰ کے تصوف سے گفتگو ادب کی طرف آ گئی۔ بشریٰ نے انکشاف کیا کہ ایک نامی گرامی شاعر کی کتاب کا فلیپ ان کا لکھا ہوا ہے گو اس پر نام ایک بڑے ادیب کا ہے۔ وہ بڑے ادیب، جو اب رفتگان میں شامل ہیں، فلیپ نہیں لکھتے تھے اور ہمارے شاعر بضد تھے کہ ان سے فلیپ لکھوانا ہی لکھوانا ہے۔ ایک روز تنگ آ کر انھوں نے بشریٰ سے کہا کہ مجھے تو ان کی شاعری کا کچھ پتا نہیں آپ لکھ دیں۔ بشریٰ نے وہیں بیٹھے بیٹھے لکھا اور انھوں نے اپنے نام کے ساتھ شاعر کو بھیج دیا۔ وہ شاعر اس فلیپ کا ذکر فخریہ انداز میں کرتے ہیں۔ ہم میں اتنی ہمت نہیں کہ ان کا نام لکھیں۔ وہ خود تو بڑے آدمی ہیں شاید کچھ نہیں کہیں گے لیکن ان کے مداحین و ممدوحین ہمارا اور ہماری شاعری کا تیا پانچا کر دیں گے۔ بشریٰ خود کبھی یہ راز فاش کریں تو کریں۔ گوتم بدھ اس عہد میں ہوتے تو یقیناً یہ فرماتے کہ دنیا دکھوں کا نہیں رازوں کا گھر ہے۔ دورانِ گفتگو بشریٰ نے ایک اور انکشاف داغ دیا کہ سنا ہے اکادمی ادبیات کے تحت اپریل میں ہونے والی ادیبوں کی کانفرنس ملتوی ہو گئی ہے۔ ہم نے کہا کہ ہمیں تو اس کے انعقاد ہی کی خبر نہیں تو التوا کی اطلاع کیسے ہو گی۔ اب ہم کیا بتاتے کہ اکادمی ادبیات ہمیں شاعر ادیب تو درکنار حاضرین میں شامل ہونے کے قابل بھی نہیں سمجھتی۔ ہم ایسی کانفرنسوں کے امیدوار و طلبگار نہ کبھی تھے نہ ہیں کہ اس انکشاف پر پریشان ہوتے لیکن وہ ہماری لاعلمی بلکہ کم علمی پر حیران ہوئیں اور فخر سے  بتایا کہ انھیں تو چیئر مین اکادمی ادبیات قاسم بگھیو بنفس نفیس بصد اصرار مع سرکاری اخراجات و ادب آداب نہ صرف کانفرنس میں شرکت کی پیشگی دعوت دے چکے ہیں بلکہ ان کے پسندیدہ اور خود تجویز کردہ موضوع یعنی \”تصوف\” پر مقالہ پڑھنے پر بھی آمادہ کر چکے ہیں۔ ہم نے کہا کہ اگر ہم خاتون ہوتے تو بگھیو صاحب ہمیں بھی \”دعوتِ تقریر\” نہیں تو \”دعوتِ سماع\” ضرور دیتے۔ گو کہ ہمارا تصوف وڈیروں، پیروں، مقالوں اور کانفرنسوں والا نہیں ہمارا تصوف تو عام انسان، حشرات اور نباتات ہیں اور زندگی کی سچائی، سادگی اور مظاہرِ فطرت ہماری روحانیت کے منابع ہیں لیکن ہم کوئی ٹوٹا پھوٹا لکھا ہوا مضمون تو پڑھ ہی سکتے ہیں۔ ہمارے پدر سری معاشرے میں ادب واحد شعبہ ہے جس میں عورتوں کا نہیں مردوں کا استحصال ہوتا ہے۔

\"Prof.-Dr.-Qasim-Bughio\"پے در پے انکشافات کے بعد خدا خدا کر کے بشریٰ شام کو پیری ولیمے میں شرکت کے لیے روانہ ہوئیں اور ہم ممتاز شیخ صاحب کی معیت اور انہی کی کار میں \”بھاگم بھاگ\” بنی گالہ نجیبہ عارف کے گھر پہنچے، جہاں فورم کے اراکین مسعود مفتی، عکسی مفتی، فریدہ حفیظ، جلیل عالی، نیلوفر اقبال، ثروت محی الدین، حمید شاہد، علی محمد فرشی، عابدہ تقی اور مہمانان سعید احمد، شاہد اعوان اور اتفاق دیکھیے کہ قاسم بگھیو بھی مع بیگم تشریف فرما تھے۔ بگھیو صاحب سے یہ ہماری چوتھی ملاقات تھی جو حسبِ معمول سلام علیکی سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اردو میں سندھی لب و لہجے کی مٹھاس گھولتے اور سندھی عجز و مسکراہٹ بکھیرتے بگھیو صاحب بڑے خوش طبع انسان ہیں۔ اس روز بیگم ساتھ تھیں اس لیے قدرے سنجیدہ نظر آئے۔ البتہ ان کی اور ہماری بیگم کے درمیان خوب باتیں ہوئیں کیونکہ دونوں کے درمیان پروفیسری قدر مشترک نکل آئی۔ ہمارے پہنچنے تک مسعود مفتی صاحب کی زیرِ صدارت نیلوفر اقبال افسانہ سنا چکی تھیں۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ یہ تیسرا گمشدہ پرانا افسانہ ہے جو اتفاقاً ملا ہے۔ ایسے دو افسانے ہم پہلے سن چکے تھے۔ نیلوفر اس فورم کی بانی رکن ہیں اور سب سے پہلا اجلاس انہی کے گھر ہوا تھا۔ ثروت محی الدین نے ہنگری کے قومی شاعر سیندور پٹوفی کی نظموں کے پنجابی تراجم سنائے جو اتنے خوبصورت اور ٹھیٹھ پنجابی میں تھے کہ طبع زاد لگتے تھے۔ ثروت نے بھی ایک انکشاف کیا کہ ہنگیرینز کا لاہور سے قدیمی تعلق ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کا سنگِ بنیاد ہنگری کے پروفیسر لائٹنر نے رکھا تھا اور گورنمنٹ کالج کے پہلے پرنسپل بھی وہی تھے۔ شاہی قلعہ لاہور میں بھی ہنگری کے مصوروں کی پینٹنگز لگی ہوئی ہیں۔ سعید احمد نے خوبصورت نظم سنائی اور انکشاف کیا کہ یہ نظم ان کے دائیں کاندھے پر تل نما پیدائشی نشان کے بارے میں ایک سچی بشارت پہ مبنی ہے۔ ہمیں لگا کہ ہم \”یومِ انکشاف\” منا رہے ہیں۔ اس دوران کرکٹ میچ شروع ہو چکا تھا اور رونقِ محفل عکسی مفتی اور میزبان عارف صاحب چپکے سے محفل چھوڑ کر میچ دیکھ رہے تھے۔ ہم سب بھی ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئے۔ میچ کے ہلے گلے میں نجیبہ عارف نے کھانا لگوا دیا۔ کھانا کیا تھا، ڈشوں کی بہار تھی۔ ہم ان میں سے دو چار ہی کھا سکے اور پیٹ بھر گیا، باقی چکھ بھی نہ سکے۔ البتہ گجریلا خوب کھایا۔ خوب تو عکسی مفتی بھی کھاتے مگر ان کی بیگم نے ایک چمچ سے زیادہ ڈال کر نہ دیا۔ بے چارے حسرت سے مانگتے رہ گئے۔ ہم جو ان کے پاس خاموش بیٹھے کھا رہے تھے ہمیں کہتے تو پلیٹ بھر کر لا دیتے، لیکن وہ ہمیں کہتے ہی کیوں، ہم کوئی خاتون تھے۔ خیر رات گئی بات گئی کے مصداق عشائیہ گیا فکاہیہ گیا۔ ہم ابھی تک کالم کا سوچ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments