یور نیم از خان اینڈ یو آر آ ٹیررسٹ


برخوردار خان نے او لیول کا امتحان دینا ہے جس کے لئے اسے نادرا کے شناختی کارڈ کی ضرورت ہے۔ نادرا اب کم عمر بچوں کا شناختی کارڈ بھی بناتی ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔ برخوردار خان کا کم از کم بارہ تیرہ برس سے نادرا کے ب فارم پر اندراج ہے اور وہ دو مرتبہ پاسپورٹ بنوا چکا ہے۔ پچھلا پاسپورٹ ابھی سال چھے مہینے پہلے ہی بنا تھا۔ اپنے شہر لاہور میں واقع نادرا کے ایک دفتر کا رخ کیا۔ زیادہ فیس والے ایگزیکٹو سینٹر میں بھی ایک لمبی لائن کے بعد ایک خاتون کا سامنا ہوا۔

”خان؟ آپ کے نام میں خان آتا ہے؟ “ وہ یک دم چوکنی ہو گئیں۔
جی۔
کیا آپ افغان ہیں؟
”نہیں۔ پاکستانی شہری ہیں“۔ ہم کچھ کچھ حیران ہوئے کیونکہ ہمیں یا کسی دوسرے کو آج تک شبہ نہیں ہوا تھا کہ ہمیں یا برخوردار خان کو اردو کے لاہوری لہجے میں بات چیت کے باوجود افغان مہاجر سمجھا جا سکتا ہے۔ بال بھی کالے ہیں گو رنگ صاف ہے اور مشرقی یورپ اور ترکی وغیرہ والے کئی مرتبہ ہمیں اپنا ہم وطن سمجھ کر اپنی زبان میں کلام کر چکے ہیں لیکن چہرہ ایسے نمایاں خد و خال نہیں رکھتا ہے کہ دور سے ہی پتہ چل جائے کہ بندہ پٹھان ہے۔

آپ کی تصدیق ہو گی۔ آپ کے نام میں خان آتا ہے۔ آپ اس ٹیبل پر چلے جائیں۔
ہم چلے گئے۔ ادھر ایک اور بی بی تشریف فرما تھیں۔

آپ کے نام میں تو خان آتا ہے۔ آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟
لاہور سے ہی ہے۔ یہیں کے پیدائشی ہیں۔
اس سے پہلے کہاں سے تھا؟
اس سے پہلے دیپالپور سے تھا۔
دیپالپور میں تو پٹھان نہیں ہوتے۔ وہ تو افغانستان یا وزیرستان میں ہوتے ہیں۔ آپ کے والدین کا تعلق کہاں سے ہے؟
جی میرے والد کا تعلق روہتک سے تھا۔ بچے کا نانکا امرتسر اور شکر گڑھ سے ہے۔

آپ نام کے ساتھ خان لگاتے ہیں۔ آپ کس قسم کے پٹھان ہیں۔
”ہم کاکڑ ہیں“۔ پنجاب میں پہلے بھی پٹھان آباد ہوتے رہے ہیں مگر خاص طور پر احمد شاہ ابدالی نے جب پنجاب کو اپنی حکومت میں شامل کیا تھا تو خاص طور پر مشرقی پنجاب میں بڑی تعداد میں پٹھان آباد ہو گئے تھے۔ یہ پٹھان سرکاری کاغذات میں عموماً اپنا نام ”خان“ پر ختم کر دیتے ہیں اور آگے زئی نہیں لگاتے۔ جب پٹواری اپنے کاغذات میں ”قوم“ لکھتا ہے تو ادھر الگ سے پٹھان لکھا جاتا ہے۔ زئی اور مشرقی و مغربی پنجاب کے آبائی پنجابی گاؤں کا ذکر رشتے ناتوں کے وقت صرف یہ طے کرنے کے لئے کیا جاتا ہے کہ بندہ نسلی پٹھان ہے یا شوقیہ یا پھر رانگھڑوں کے ان قبیلوں سے ہے جو اپنے نام کے ساتھ خان لگاتے ہیں۔

”یعنی آپ افغان ہیں“۔ وہ بی بی کچھ اگلوانے پر تلی ہوئی تھیں۔
نہیں ہم افغان شہری نہیں ہیں۔ 1947 سے پاکستانی ہیں۔
آپ کے نام میں خان آتا ہے۔ میں آپ کا اندراج تصدیق کے بغیر نہیں کر سکتی ہوں۔ آپ ان افسر صاحب کے پاس جا کر ان سے بات کریں۔

ہم افسر صاحب کے پاس چلے گئے۔

جی جناب، میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟
وہ بی بی فرما رہی ہیں کہ آپ کے حکم پر ہی وہ کارڈ کا اندراج کریں گی۔
اوہ۔ آپ کے نام میں تو خان آتا ہے۔ کیا آپ افغان ہیں؟
نہیں ہم پیدائشی پاکستانی ہیں۔

اچھا آپ کے والد کیا کرتے تھے؟
وہ سنہ 1960 سے حکومت پنجاب میں سرکاری ملازم تھے۔ ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
کیا وہ افغان تھے؟
1947 سے تو پاکستانی تھے۔ اس سے پہلے باقی سب پاکستانیوں کے اجداد کی طرح ہندوستانی تھے۔ لیکن یہ اچانک کیا تحقیق شروع ہو گئی ہے۔ ہمارے سارے خاندان کا ریکارڈ آپ کے شناختی کارڈ کے دفتر میں 1974 سے موجود ہے۔ 1960 سے آپ کے پاسپورٹ آفس میں ہمارے خاندان کا ریکارڈ موجود ہے۔ 1988 سے میں مسلسل پاسپورٹ بنواتا رہا ہوں۔ اس بچے کا ب فارم کا ریکارڈ آپ کے پاس ہے اور یہ بھی دو مرتبہ پاسپورٹ بنوا چکا ہے۔ پچھلا تو ابھی چھے مہینے پہلے ہی دس سال کے لئے بنا ہے۔

دیکھیں وہ پاسپورٹ کے محکمے نے بنا دیا ہو گا۔ ہم یہ تصدیق کر کے ہی کارڈ بناتے ہیں کہ درخواست گزار پاکستانی ہے۔
پاسپورٹ کے محکمے نے بچے کے والدین کا تصدیق شدہ کارڈ اور نادرا کا تصدیق شدہ ب فارم دیکھنے کے بعد ہی پاسپورٹ بنوایا تھا۔
کچھ دیر عمیق غور و فکر کرنے کے بعد انہوں نے ارشاد فرمایا ”ٹھیک ہے۔ میں ان خاتون کو کہہ دیتا ہوں کہ آپ کی درخواست جمع کر لیں“۔

ہم خوش خوش گھر واپس پہنچے اور خدا کا شکر ادا کیا کہ ہمارے سب سے چھوٹے بچے کو بھی اس کے والدین اور بہن بھائیوں کی طرح ایک پاکستانی شہری تسلیم کر لیا گیا ہے۔

شام چھے بجے نادرا کا میسیج آیا۔
”ٹریکنگ آئی ڈی 1234567890 کے تحت درج آپ کا ریکارڈ ریجیکٹ کر دیا گیا ہے۔ جس نادرا ریجنل سینٹر میں آپ نے اپلائی کیا ہے اس سے رابطہ کریں“۔ بخدا یہ ریجیکٹڈ میسیج دیکھ کر ایک دوسرے جنرل صاحب کی ریجیکٹڈ والی ٹویٹ یاد آ گئی۔ پھر خیال آیا کہ نادرا کو بھی ویسے ہی بڑے افسران چلاتے ہیں۔ خدا جانے انہیں ریجیکشن کیوں اتنی زیادہ پسند ہے۔

پتہ چلا کہ برخوردار خان کے ان دیگر ہم جماعتوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ہے جن کے نام میں خان آتا ہے۔ ہمارے اپنے نانکے کی آبائی جائیداد کے کچھ کاغذات میں ہم نے ”قوم افغان“ لکھا دیکھا ہے۔ خدا جانے ایسے ”افغانوں“ کے ساتھ نادرا کیا سلوک کرتی ہو گی۔ جو پٹھان پشتو یا پشتو لہجے میں اردو بولتے ہیں ان کا تو خیر نادرا برا حال کرتی ہے اور ان کی سننے والا کوئی نہیں ہے۔

اگر کوئی جے آئی ٹی بنا دی جائے تو ممکن ہے کہ نادرا کو یہ پتہ چل جائے کہ افغانستان ایک ملک ہے مگر افغان ایک نسل ہے جسے پختون اور پٹھان بھی کہا جاتا ہے۔ لفظ ”پاکستان“ میں بھی الف کا مطلب ”افغانیہ“ ہی بیان کیا گیا تھا کہ چوہدری رحمت علی اس وقت کے بہت سے دوسرے مسلمانوں کی طرح صوبہ سرحد کو افغانیہ کہتے تھے۔

تو عزیزو۔ بات یہ ہے کہ آپ کا نام خان ہے تو آپ ٹیررسٹ ہیں خواہ ہندوستان میں شاہ رخ خان اور پاکستان میں عمران خان لاکھ یقین دلائیں کہ ”مائی نیم از خان اینڈ آئی ایم ناٹ اے ٹیررسٹ“۔ نادرا تو یہی کہتی ہے کہ ”یور نیم از خان اینڈ یو آر آ ٹیررسٹ“۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar