ٹرمپ! تم خود کر لو، ہم سے نہیں ہوگا


ٹرمپ کے حالیہ ٹویٹ کے بعد پاکستان میں ہاہاکار مچی ہے۔ کچھ کا دل ہے کہ پاکستان کو امریکہ پر حملہ ہی کر دینا چاہیے، کچھ پاکستان کی امریکہ کے ساتھ جنگ جیت جانے کے بعد کے مسائل کو خاطر میں لاتے ہوئے صرف امداد نہ لینے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں، کچھ کے خیال میں صرف نیٹو سپلائی روک دینے سے ہی امریکہ کو گھٹنوں پر لایا جا سکتا ہے، اور کچھ کے نزدیک معاملہ گمبھیر ہے لہذا تسلی کے ساتھ ٹھنڈے دل سے اس کا حل نکالنا چاہیے۔ غرض کے جتنے منہ اتنی باتیں۔

اب چونکہ ہم بھی پاکستان میں ہی رہتے ہوئے بنیادی حقوق کے حوالے سے دوسرے درجے کے شہری ہیں لہذا ہم بھی ٹرمپ کی ٹویٹ پر اپنی (صائب) رائے رکھتے ہیں۔ گو کہ ہم نے بین الاقوامی تعلقات پر نصابی طور پر کچھ نہیں پڑھ رکھا، سیاست سے ویسے ہی ہمیں دلچسپی نہیں ہے، اور آرمی کے بارے میں کچھ بول کر غائب ہونے کا کچھ ارادہ نہیں رکھتے اس لئے سب کو سن اور پڑھ تو رہے ہیں مگر بول اور لکھ نہیں رہے تھے۔ لیکن پھر اچانک دل کا ”پین دی سری“ والا جذبہ جاگا، وہ ”جہنمی“ عورت نور جہاں کا دل گرما دینے والا گانا سنا، اور جت گئے ٹرمپ کو جواب دینے۔ ہماری چالاکی دیکھیں کہ ہم لکھ بھی اردو میں رہے ہیں تا کہ ٹرمپ کو اس کا ترجمہ کرا کر سمجھ آئے (کانفیڈینس دیکھیں ہمارا)۔

اچھا تو ہم کہہ رہے تھے کہ انکل ٹرمپ، آپ تو سیانے آدمی ہوں گے (لفظوں کے درمیان پنہاں طنز کی داد دیجئے)، ہم تو الو جیسے ہیں۔ ہم نے تو جو سیکھا ہے مائی باپ سے سیکھا ہے۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ سخت چِٹی قوموں کو بیوقوف کیسے بناتے ہیں، ہمارے تو فرشتے بھی لاعلم تھے کی یہ کام پندرہ برس تک بغیر ہچکچائے کیا جا سکتا ہے، ہمیں کیا غرض کہ دوست کہہ کر پیٹھ پر چھرا کیسے گھونپتے ہیں (اچھا سوری، اس کا ہمیں پہلے سے پتا تھا)، حضور یہ سب کچھ ہمارے حکمرانوں نے آپ سے ہی سیکھا ہے۔ نہیں تو ہم کہاں اور آپ کہاں۔

اب یہی دیکھیں نا کہ اربوں ڈالر ٹیکس امریکن شہری آپ کو دیتے ہیں ان کی زندگیوں کی سہولیات بہتر بنانے کے لئے اور آپ ان کو صحت جیسی بنیادی سہولت دینے کی بجائے جنگ پر جنگ کھولی جا رہے ہیں۔ امریکہ میں آپ سب سے باجماعت ہو کر بھی گن کلچر قابو میں نہیں آ رہا اور ”لون وولف“ جیسے سفید فاموں نے ہزاروں زندگیاں اجاڑ دیں مگر آپ کے پیٹ میں درد شام و عراق کے باسیوں کا اٹھتا ہے، اپنے امریکیوں کا نہیں۔ آپ کی پولیس تو پاکستان کی پولیس سے بھی آگے نکل گئی جب سیاہ فام لڑکوں کو سڑکوں پر نہتے بغیر جرم گولیاں مار دیتی ہے اور پھر ”باعزت بری“ بھی ہو جاتے ہیں۔ ہم تو آپ سے ہی سیکھتے ہیں، دوسروں کے مسائل میں ٹانگ اڑانا، کسی چیز کو ہوّا بنا کر وسائل ادھر جھونک دینا، اور اپنا ملک بھول کر دوسرے ملکوں میں امن کی خواہش رکھنا وغیرہ وغیرہ۔

اب آپ غصہ کریں گے کہ اگر ہم نے آپ سے پوچھا کہ عراق کے ڈبلیو ایم ڈیز (مہلک تباہی پھیلانے والے ہتھیار) کہاں ہیں جس کی وجہ سے آپ نے عراق پر حملہ کیا تھا؟ آپ کا منہ لال پیلا نیلا ہو جانا ہے اگر ہم نے پوچھ لیا کہ افغانستان میں آپ القاعدہ سے لڑ رہے تھے مگر اسی القاعدہ کی بشر الاسد کے خلاف جنگی و مالی امداد کر رہے تھے۔ آپ کے نیوکلر بٹن سے امان پاؤں تو عرض کروں کہ روس کے داعش کے خلاف کارروائی کے سال کے اندر ہی شامی فوجوں نے داعش کے خلاف بھرپور پیشقدمی کی مگر امریکہ داعش کے خلاف کوئی قابل قدر کارروائی نہیں کر سکا۔ حضور ہمیں کیوں لگتا ہے کہ آپ ہر جگہ دونوں طرف سے کھیلتے ہیں؟

ڈالر آپ نے ضرور دیے ہوں گے اور کافی سارے دیے ہوں گے جس میں سے بہت سارے تو ہمارے خرچے کی ادائیگی ہی ہوں گے اور باقی امداد بھی ہوگی، مگر عرض یہ ہے کہ اس کے بدلے ہم نے کیا کچھ نہیں کیا؟ اپنی ائیر بیسیز آپ کو دے دیں، ڈرون مارنے کی کھلی و بے شرم و ننگی اجازت آپ کو دے دی، افغان طالبان کے نیچے جب تحریک طالبان پاکستان بنی تو اس کے خلاف اپنے ملک میں جنگ چھیڑ لی۔ اب اگر اسامہ ہمارے گھر سے مل گیا، خالد شیخ کی تھوڑی سی میزبانی ہم نے کر دی، القاعدہ کے دو تین ریلو کٹے ہمارے استراحت فرما رہے تھے تو کونسی قیامت آ گئی، پوری تحریک طالبان پاکستان کی قیادت آپ کے ہاں افغانستان میں مہمان بنی بیٹھی ہے۔

اپنے خالص پروٹیسٹنٹ ایمان سے بتائیں کہ اگر پاکستان نہ ہوتا تو آپ افغانستان میں کتنی کامیابی حاصل کر لیتے؟ میں یہ نہیں کہوں گا کہ بالکل بھی نہ کر پاتے مگر مشکل ضرور ہوتی۔ آپ یہ سمجھ لیں ہم نے اس آسانی کے آپ سے پیسے لے لئے۔ اب اگر آپ پاکستان کے کولیشن پارٹنر ہوتے ہوئے افغانستان میں بھارت کو آگے آگے کریں گے تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تو ہم بھی نہیں بیٹھ سکتے نا۔ جتنا ہمارے بس میں ہوگا ہم کریں گے، کبھی اپنی ڈبل کراسنگ پر بھی نظر ڈالیں، اور اگر نہیں ڈالنی تو آپ خود جا کر جنگ لڑ لیں، ہم سے اب اور لاشیں نہیں اٹھائی جاتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).