جلا وطن کی واپسی – درزبان کوئٹہ


زوے علی جان، کیسا ہے؟ کیا حال کیا حوال ہے؟ اس واری تم کو نازوان بولنے کا حق ہمارا ہے۔ ہم کوئٹہ آیا، ایک ہفتہ رہا بھی لیکن تم سے ملاقات نہیں ہوا۔ آنے سے پہلے تم کو موبیل پر فون کا کوشش بھی کیا لیکن جواب میں وہی عورت کا آواز کہ مطلوبہ نمبر بند ہے۔ یہ تو تمہارا والد کا پاس گیا تو معلوم ہوا تم تبلیغیوں کا ساتھ چِلّے پر گیا ہے اور موبیل امیر صاحب نے جانے سے پہلے ہی بند کروا دیا تھا۔ خیر، امید ہے کہ یہ خط پہنچنے تک تم واپس آ گیا ہووے گا۔ سچ پوچھو تو کام کوئی بھی نہیں تھا۔ بس والد نے بولا تھا کہ جاو آئی سکینہ کا اور اس بیچ گزر جانے والوں کا اور اکبر کا قبر پر فاتحہ دیو، شناختہ خیل کو سلامیں بولو اور وطن کا حال حوال لاؤ۔

ہم جو اسٹیشن پر اُترا ہے تو ایک تو گاڑی پہلے سے آٹھ گھنٹے سے زیادہ لیٹ تھا اور رات کا ٹیم تھا پھر سردی بھی شروع ہو گیا تھا تو واللہ کہ کوئی رکشہ والا کلّی کا سائیڈ جانے کو تیار تھا۔ بہت خوار ہو گیا۔ پھر ایک کا منّت کیا، داڑھی کو ہاتھ لگایا تو اس نے ہم کو پٹیل باغ کا ساتھ والا ہوٹل تک پہنچایا۔ وہ بھی دو سو روپے لے کر۔ راستے میں بولا کہ یہ تو پھر بھی رات کا ٹیم ہے، آج کل رکشہ والا دن میں بھی کِلّی کا سائیڈ جانے سے خار کھاتا ہے۔ کبھی ایف سی والا روک کر فالتو سوالیں کرتا ہے، کبھی لڑکا لوگ روڈ بند کر کے شیشے توڑتا ہے اور ہر ٹیم بم مم کا ڈر بھی لگا رہتا ہے۔ دوسرا دن لوکل میں کِلّی پہنچا تو تمہارا والد نے بہت سناوٹ کیا کہ زوے ہوٹل کس لیے گیا؟ گنوخ ہوگیا ہے یا پنجاب کا رنگ تم پر چڑھ گیا ہے؟ تمہارا بھائی کا ساتھ ہم کو سائیکل موٹر پر بھیجا اور ہم سامان لے کر آیا تو بیٹھک میں بستر لگا دیا کہ زوے کدھری اور گیا تو اچھا بات نہیں ہووے گا۔ روٹی پر تمہارا والد نے حال دیا کہ ابھی دو مہینہ ہو گیا کہ دھماکے میں ہم لوگ کا پرانا جمعدار یعقوب کا لڑکا جارج مر گیا اور ساتھ والا کِلّی کا ماما غوث محمد کا لڑکا عبداللہ جان کا دونوں ٹانگیں کاٹنا پڑ گیا۔ یہ دونوں مسکین سریاب لوکل بس میں اپنا اپنا ڈیوٹی پر جا رہا تھا۔ جب ایف سی کا گاڑی کا پاس سے گزرا تو دھماکا ہو گیا۔ یہ تو لا، شناختہ لوگ تھا جس کا حال معلوم ہوا۔ اور نا آشنا لوگ جو ہر دن مر رہا ہے وہ تو بے حساب ہے۔ ہم نے تمہارا والد سے نمبر لے کر ماما غوث کو فون کیا تو وہ کراچی میں تھا، بولا کہ عبداللہ جان کا حالت ٹانگ کاٹنے کا بعد بھی ٹھیک نہیں ہے۔ خدا صحت اور صبر دیوے۔ شبّیر ہزارہ کا بھی ہانڈی والوں سے پوچھا۔ کوئی درک نہیں لگا۔ کسی نے بولا مری آباد میں اپنا گھر میں بند رہتا ہے۔ کسی نے بولا ایران کا راستا سے یورپ شارٹ ہوتا ہوا پکڑا گیا۔ واللہ کہ خبر ہے کہ حقیقت کیا ہے۔

سب سے زیادہ تکلیف ہم کو ماما جان محمد لانگو کا گھر آئی سکینہ کا فاتحہ دیتے ٹیم ہوا۔ وہ مسکین تو محمد وفا کا شارٹ ہونے کا بعد روتا روتا گزر گیا۔ پیچھے محمد وفا کا چھوٹا چھوٹا دو بچہ ہے اور اس کا جوان بیوی ہے۔ بندہ حیران ہے کہ اس کو بیوہ بھی نہیں بول سکتا ہے۔ کیا کرے؟ ماما جان محمد تو اتنا بیزار ہوگیا ہے کہ بولتا ہے کہ چلو اگر محمد وفا کا مرنے کا بھی پکّا معلوم ہو جاوے تو آدمی صبر کر لیوے فاتحہ پڑھ لیوے اور اس کا بیوی بھی آزاد ہو جاوے۔ محمد وفا تو نہ زندہ میں شمار ہے نہ مردہ میں۔ ہم صدیق نورزئی کا گھر بھی گیا جس کا لڑکا کو طالبان مالبان کا قصہ میں لے گیا تھا۔ ایک مہینے کا بعد واپس تو آگیا ہے لیکن بات مات نہیں کرتا ہے۔ کونے میں چُپ بیٹھا رہتا ہے۔ داڑھی بھی چھوٹا کیا ہے۔ ہم نے حال حوال لینے کا کوشش کیا تو صدیق نے ہم کو اشارہ کیا کہ مت چھیڑو۔ بعد میں ہم کو بولا کہ رات کو چیخیں مارتا ہوا اٹھ جاتا تھا، ابھی تھوڑا دن ہوتا ہے کہ کچھ ٹھیک ہے۔

نابلد قصہ تم کو کرے۔ دوسرا دن ہم نے بولا کہ چلو پرانا یاروں کا یاد میں جوانی کا طرح جناح روڈ کا تھڑوں پر چینکی چاے پیوے۔ ہم اور عطا اللہ لہڑی فٹبالر کا قسمت اچھا تھا کہ کِلّی کا سامنے ہم لوگ کو رکشہ مل گیا۔ ٹریفک کا رش اور تین جگہ پر پولیس اور ایف سی کا سخت چیکنگ، ہم لوگ کو آتے آتے ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔ جناح روڈ پر ہم لوگ اپنا چُرت میں جا رہا تھا کہ اچانک ہٹو بچو کا شور ہو گیا۔ ہم حیران تھا کہ کون آرہا ہے۔ کیا دیکھتا ہے کہ لاوڈ سپیکر پر “کافر کافر” کا نعرے ہے، پجارووں کا جلوس ہے، آگے پیچھے سرکاری گارڈیں بھی ہے اور کلاشنکوف والا پراویٹ آدمی بھی ہے۔ دو آدمی تو سامنے والا گاڑی میں ایسا تھا کہ ہم نے اس کا فوٹو پنجاب میں اخبار میں دیکھا تھا کہ شارٹ ہے اور پولیس اس کو ڈھونڈ رہا ہے۔ خدا خبر ضمانت دیا ہے کہ کیا قصہ ہے۔ چلو ایسا ہے بھی تو یہ اتنا کلاشنکوفیں اتنا چیکنگ کا باوجود کیسے شہر کا درمیان آ گیا۔ سچا بات ہے عجیب عجیب وسوسہ دل میں آیا لیکن عطا اللہ نے ہم کو بولا کہ زوے بس چُپ چاپ خنڈ شیف بن کر گزر جاو۔ بولنا تو دور کا بات ہے کچھ سوچو بھی نہیں۔ ایسا نہیں ہووے تم بھی شارٹ ہو جاے اور ہم لوگ تمہارا پیچھے خوار ہو جاوے۔

چُرت تو بہت خراب ہوا لیکن عطا اللہ نے بولا کہ زوے آو تُم کو ایسا چیز دکھاوے کہ تمہارا طبیعت برابر ہو جاوے گا۔ عطا اللہ ہم کو آگے لے گیا اور آغا سراج کمپلیکس کا سامنے والا بلڈنگ کا سامنے کھڑا کر دیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک جگہ جدھر پہلے اسلحے کا دکان ہوتا تھا ادھر اس کا جگہ کسی نے کتابوں کا دکان کھولا ہے۔ ہم لوگ اندر گیا تو روڈ والا نعروں کا آواز جیسے بالکل ختم ہوگیا۔ اور اس کا جگہ جیسے نیوٹن، ڈارون، باچا خان، بزنجو بابا، خان شہید، ڈاکٹر شاہ محمد مری کا نرم آوازوں نے لے لیا۔ ہم نے دکاندار سے پوچھا کہ لالکہ، ہمارا لوگ کا نیا ٹھکانے کا تو یہ حال ہے کہ کتابوں کا دکانیں بند ہو رہا ہے اور اس کا جگہ برگروں، پیزا میزا یا پھر فیشنی کپڑوں کا کاروباریں کُھل رہا ہے۔ تم نے کس آسرے پر یہ کام شروع کر دیا۔ اُس نے بولا، ماما، بیٹھو چاے منگواتا ہے۔ ہم نے بولا، بھائی بات پوچھنے کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم تم پر تاوان ہو جاے۔ اُس نے بولا، ہم کون سا خرابات کر رہا ہے، ایک پیالہ سبز چاے پیو تو بات بھی بتاے گا۔ ہم لوگ بیٹھ گیا۔ اُس نے ایک رسالہ نکالا، بولا اس کا پہلا صفحہ دیکھو۔ اُس صفحہ پر محسن چنگیزی، عصمت درّانی، صادق مری، عبدالقیوم بیدار، بیرم غوری، سسٹر ثبینہ رفعت، نوشین قمبرانی کا نامیں تھا۔ کسی کا آگے نظم کا نام تھا کسی کا آگے خالی غزل لکھا تھا۔ نوجوان بولا، “کتاب ہی وہ جگہ ہے جہاں پر سب لوگ قومیت، مذہب، نسل، جنس، سیاست سے بالاتر ہو کر ایک جگہ نظر آتا ہے۔ شروع میں ایسا ہی تھا۔ پھر کتاب کا جگہ کلاشنکوف آگیا تو جو حال ہو گیا وہ تم بھی دیکھ رہا ہے، ہم بھی دیکھ رہا ہے۔ ہم نے کلاشنکوف کو ہٹا کر اس کا جگہ کتاب کو دیا ہے۔ اس کو پہلا قدم سمجھو۔ ایسا ہی کامیں کسی نے “سنگت” کا نام سے کسی نے “مہر در” کا نام سے اپنا اپنا جگہ شروع کیا ہے۔ روڈیں ٹوٹ جاے، پانی، گیس، بجلی شارٹ ہو جاوے۔ اگر آدمی کا آدمی سے اور آدمی کا کتاب سے رشتہ مضبوط ہووے گا تو یہ سب چیزیں دوبارہ بن جاے گا۔ اس میں شک نہیں کہ آس پاس کوچرائی، نازوانی، نفرت، تعصب، ڈنڈا ماری، خنڈ شیفی کا آندھی چل رہا ہے، لیکن اس سب سے پناہ کتاب کا خیمے کا علاوہ دوسرا جگہ نہیں ملے گا۔ اسی لیے ہم نے یہ خیمہ لگایا ہے۔ اگر اُکھڑ بھی گیا تو پروا نہیں ہے۔ اپنا فرض تو ادا ہو جاوے گا۔ کوئی دوسرا، کسی دوسرا جگہ نیا خیمہ ضرور لگاے گا”۔ ہمارا تو یہ قصہ سُن کر واللہ ایسا طبیعت برابر ہوا کہ راستے کا کوچرائی، دھول مٹی، روڈ کا جھٹکے، سب بھول گیا۔ تمہارا لڑکا فہد جان کا لیے دو تین اچھا اچھا کتابیں اُٹھایا، سبز چاے پیا اور باہر آگیا۔

ہم نے یہ قصہ رات کو والد کو فون پر کیا۔ وہ بہت خوش ہوگیا۔ اگلا دن اپنا پینشن سے کچھ پیسہ منی آرڈر کیا اور بولا کہ یہ پیسا اس کا محلے والا شاگردوں نیاز شیخ، عطا اللہ لہڑی اور صبور کاکڑ کو دے دیوے۔ اس لوگ کو بولو کہ ہم لوگ کا پرانا سکول میں کِلّی کا بچوں کے لیے لائبریری بنا دیوے۔ کتاب کا رواج پڑے گا تو ہمارا لڑکا اکبر مسکین کا طرح کوئی تعصب کا شکار نہیں ہوے گا۔ لوگ کلاشنکوف اور چاقو کا جگہ پھڈے کا حل بات چیت سے نکالنا سیکھے گا۔ ہم نے اس لوگ سے بات کیا تو سب رو گیا کہ ماشٹر صاب کا بات ہمیشہ سونے چاندی کا ہوتا ہے۔ سب نے اکبر لالہ مسکین کو بھی بہت یاد کیا۔

خیر زوے، قصے تو بہت سارا ہے، لیکن اکثر تم کو ہم سے زیادہ معلوم ہے۔ تمہارا والدہ نے آتے ہوے ہمارا والدہ کے لیے کشیدہ والا چادر ہمارا ساتھ کر دیا تھا۔ بولنا کہ ہمارا والدہ اس چادر کو آنکھوں سے لگا کر تم سب کو، اپنا وطن کو، اکبر لالہ مسکین کو، یاد کر کے بہت رویا اور تمہارا والدہ کو بہت سلام اور شکریہ بولتا ہے۔ ابھی زوے تمہارا واری ہے۔ اگلا وار تبلیغ کا لیے نکلو تو اپنا تشکیل ہمارا سائڈ پر کرواو۔ سہ روزہ مہ روزہ کا قول ہم نہیں کرتا ہے مگر، وہ تمہارا تبلیغیوں کا زبان میں کیا بولتا ہے، نصرت کے لیے آئے گا۔ اسی خاطر سے ملاقات بھی ہو جاے گا۔ اپنا والد والدہ کو سلام دیو اور فہد جان کو پیار دعا۔

تمہارا یار

اسلم رانا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).