شادی کے نام پر ریپ


طبقات میں بٹے ہوئے اس انسان کو معاشرتی حیوان سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ ہم کوئی بھی بات کریں پڑھنے والے متعلقہ طبقے کا اندازہ خود ہی لگا لیتے ہیں کیونکہ ہمیں عادت پڑ گئی ہے کہ انسان کی بات نہیں کرنی طبقوں کی بات کرنی ہے۔ اب مثلا میں بات کروں ریپ کی تو آپ کو فورا اندازہ ہو جائے گا کہ میں لڑکیوں کی کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی بات کرہی ہوں۔ کیونکہ مردوں کا ریپ توممکن ہی نہیں نا۔ ہے نا؟ وجہ اور بھی سادی ہے کیونکہ مرد کچھ بھی پہن لیں ان کی بے پردگی نہیں ہوتی تو ان کا ریپ بھی نہیں ہوسکتا۔ اس سے بھی سادہ وجہ یہ کہ مرد ماں نہیں بن سکتے نہ ان کی کنوارپن کو کوئی خطرہ ہے۔ تو پس ثابت ہوا کہ صرف عورت ہی کی عزت لٹ سکتی ہے۔ مگر معذرت عورت کی بھی عزت لٹنے میں بڑی قباحتیں ہیں۔ لڑکی کی عزت کافی آسانی سے لٹ جاتی ہے۔ کوئی بھی شخص جس سے اس لڑکی کا ”نکاح“ نا ہوا ہو اس کے ساتھ تمیز سے یا بدتمیزی سے ”کچھ“ کرے تو ”زنا بالجبر“ ہوجاتا ہے۔ اور اس کو ”ان ڈو“ یعنی صحیح کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ریپ کرنے والے سے اس لڑکی کی شادی کرا دی جائے تو سب ایک دم ٹھیک ہوجائے گا اور سب ہیپیلی ایور آفٹر رہیں گے۔

اس پورے معاملے میں متاثر فرد جو تکلیف سہتا ہے اس کو مکمل طور پہ نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اسی لئے ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ مرد کا اور مخنث کا ریپ نہیں ہو سکتا۔ اور اسی لئے ہمیں یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ازدواجی زنا بالجبر یا میریٹل ریپ بھی کچھ ہو سکتا ہے۔ اور یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ میریٹل ریپ مرد کا بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے شعور کا یہ عالم ہے کہ کسی مرد پہ جنسی حملے کا مطلب ہم ظلم نہیں لیتے بلکہ اس کی نامردی لیتے ہیں۔

جنسی طور پہ ہراساں کرنا یا زیادتی کرنا کوئی چھوٹا موٹا ذہنی دھچکہ نہیں ہوتا۔ اس سے متاثر ہونے والوں کی زندگیاں ایک مسلسل خوف کا شکار ہوجاتی ہیں۔ سیدھا سیدھا کہا جائے تو تباہ ہوجاتی ہیں۔ باہمی رضامندی سے قائم کیا گیا تعلق جتنا مضبوط، اطمینان بخش اور خوشی کا باعث ہوتا ہے زبردستی قائمکیے گئے تعلق سے اتنی ہی ذہنی اور جسمانی تکلیف جڑی ہے۔ جب تک ہمیں اچھی طرح سے باہمی رضامندی سے قائمکیے گئے رشتے کے فائدے سمجھ نہیں آئیں گے تب تک ہمیں ریپ کبھی سمجھ نہیں آسکتا۔

ایک طرف تو ہم اتنا اعلی شعور رکھتے ہیں کہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ آپ چھوٹے بچے کو کھانا بھی زبردستی ٹھونسوائیں گے تو اس کے ذہن پہ نا صرف برا اثر پڑے گا بلکہ اس کی شخصیت خراب ہو سکتی ہے۔ وہ ہمیشہ کے لیے کھانا چھوڑ بھی سکتا ہے دوسری طرف ہمارا ریپ سے متعلق شعور صرف اتنا ہے کہ ”لوگ کیا کہیں گے“ اور ریپ صرف اس صورت میں ریپ ہے جب لوگوں کو پتا چلا ورنہ سب ”اوکے“ ہے۔ اور اسی لئے میریٹل ریپ تو کچھ ہے ہی نہیں۔ ہم نے دو انسانوں کے تعلق کو کاغذ کے ٹکڑے پہ جانچنا شروع کردیا ہے۔ یہ ہے تو سب ٹھیک ہے نہیں ہے اور ”کچھ“ گڑبڑ ہے تو فورا ایک کاغذ لو مسمات فلاں بنت فلاں اور فلاں ابن فلاں کے دستخط کرواؤ سب سیٹ۔ وہ نکاح نامہ جسے اصولی طور پہ دو انسانوں کے جنسی حقوق کہ تحفظ کا ضامن ہونا چاہیے۔ اسے ہم جنسی استحصال کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں لڑکی کزن، بھائی کے دوست، بہنوئی، سالے، میاں کے دوست، محلے کے انکل سب سے بےتکلفی سے بات کر سکتی ہے گھوم پھر سکتی ہے مصافحہ و معانقہ بھی چل جاتا ہے مگر جب تک ساتھ میں انکل اور بھائی کا لاحقہ موجود ہے تب تک۔ مگر جیسے ہی ذرا بھی شبہ ہوا کہ اس میں لڑکی کی ذاتی پسند شامل ہے تو فورا لڑکی کو عزت کے پڑھائے گئے سارے سبق ”ریپیٹ“ کروائے جاتے ہیں وہ بھی اپ گریڈڈ ورژن ود ڈنڈا۔ باحیا اتنے ہیں کہ لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ بھی رخصتی سے پہلے بات کر لے تو اس کے کردار کا پوسٹ مرٹم ہو جاتا ہے یعنی مرے پہ سو درے۔ والدین کے لئے اپنی پسند کی بہو ہی نیک سیرت ہوتی ہے وہ الگ بات کہ وہ نیک بی بی انہیں سال ڈیڑھ بعد اسٹور میں رہائش پہ مجبور کر دے اور اس قسم کی خاتون کے ذریعے انہیں پوتا چاہیے ہوتا ہے۔ پڑھا لکھا مرد آج اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ یہ ”پوتے“ کی فرمائش پریکٹیکلی اس کی مردانگی کا ٹیسٹ ہے۔ اگر ٹیسٹ پاس نہ ہوا تو ٹیسٹ پیپر بدلتا رہے گا پیپر دینا اسے ہی ہے۔ کچھ بچارے اس کا حل یہ نکالتے کہ آنسر کاپی پہ بس نام ان کا ہوتا ہے۔

دو ایسے افراد جو ماں باپ کی عزت کی لاج رکھنے کے لئے یا مرتے ہوئے دادا کی خواہش پوری کرنے کے لئے ایک ایسے کاغذی رشتے کو نبھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جس میں دونوں ہی ریپسٹ اور دونوں ہی وکٹم ہوتے ہیں۔ جسمانی ضرورت کا کوئی نفسیاتی پہلو بھی ہوگا اس کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا اور اس نفسیاتی تسکین کی تلاش میں جس حد تک ممکن ہو سکے کوشش کرتے ہیں۔ گھر میں آنے والی ماسیاں، مس کے پاس ٹیوشن آنے والے طالب علم، بیوی کی سہیلیاں اور شوہر کے دوست۔ مگر دوبارہ یاد رکھیے یہ سب بے ہودگی اور غیر اخلاقی صرف اس لیے ہے کیوں کہ کاغذ کے ٹکڑوں پہ نام دوسرے ہیں۔ ہاں وہ بچہ یا بچی جو اپنے ساتھ کچھ ہونے کی شکایت نہیں کر پایا/پائی اور لوگوں کو پتا نہیں چلا وہ ٹھیک ہے۔ چل بھی گیا تو جرگہ ہے نا، دو تین من گندم دے کر سب سیٹ ہو جائے گا۔ یعنی ہر وہ رشتہ جو باہمی رضامندی سے نکاح کی حیثیت حاصل کرے وہ غلط قرار پاتا ہے جب تک کوئی ایک یا دونوں فریق زبردستی رشتہ بنانے پہ مجبور نہکیے گئے ہوں۔

روز پاکستان کے دیہی علاقوں سے بے شمار عورتیں اپنے بچوں سمیت آکر دارالامانوں میں پناہ لیتی ہیں کیونکہ 11 سال کی عمر سے لے کر جب تک عورت زندہ ہے بار بار بیچا جاتا ہے نکاح کرایا جاتا اور اگر وہ انکار کرے تو عزت کے نام پہ قتل کردیا جاتا ہے۔ ان میں سے عموما عورتوں کی پہلی شادی ان سے عمر میں دس یا بیس گنا بڑے مرد سے کروائی جاتی ہے اور اگلے کئی دن ہاسپٹل میں گزرتے ہیں۔ پاکستان اس وقت دنیا میں دوران زچگی ماں بچے کی اموات کی شرح میں پہلے نمبر پہ ہے۔ اور عموما مائیں 18 سال سے نہ صرف کم ہوتی ہیں بلکہ اپنی عمر کے حساب سے کہیں زیادہ کمزور ہوتی ہیں۔ نتیجتا یا تو دوران حمل ماں اور بچہ دونوں مر جاتے ہیں یا پھر بچہ اتنی شدید غذائی قلت کا شکار ہوتا ہے کہ پیدائش کے کچھ مہینوں کے اندر اندر مر جاتا ہے۔ سوال یہ آتا ہے کہ اس سب کا میریٹل ریپ سے تعلق ہے؟ آپ بتائیں؟ 13 یا چودہ سال کی بچی دوران زچگی مر جاتی ہے تو اسے میریٹل ریپ اینڈ مرڈر کہا جانا چاہیے یا نہیں۔ ؟ ساتھ ہی 13 سے چودہ سال کے بچے کو اپنی سے کئی گنا بڑی خاتون کے ساتھ رہنے پہ مجبور کرنا میریٹل ریپ کہلانا چاہیے یا مردانگی؟ فیصلہ ہم سب کو مل کر کرنا ہے۔
تحریر ابصار فاطمہ، سکھر

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima