ذوالفقار علی بھٹو کا تاریخی خطاب


نوٹ: (ان دنوں میں ثقلین رضا کی کتاب ’بھٹو خاندان سیاست کے کربلا‘ کا دوبارہ مطالعہ کررہاہوں، جس میں قاید عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی دو مشہور تقاریر شامل ہے، یہ دنوں تقاریر نہ صرف سیاست و بین الاقوامی امور کو سمجھنے کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہے بلکہ ان تقاریر کو ادبی شہکار کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، اسی لئے ان تقاریر کو قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔ ا یک تقریر لاہور میں امریکہ کے وزیر خارجہ ڈاکٹرہنری کسنجر کے اعزاز میں دیے گئے ایک عشائیہ میں کی گئی تھی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اس ملاقات میں ڈاکٹر ہنری کسنجر نے ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹمی پروگرام ترک نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی)


خواتین وحضرات!
ہمارے لئے یہ باعث مسرت واعزاز ہے کہ امریکہ کے وزیر خارجہ ایک بار پھر ہمارے ساتھ مذاکرات کے لئے تشریف لائے ہیں ہمیں امید ہے کہ کل صبح لاہور میں ہونے والے مذاکرات حوصلہ افزا ثابت ہوں گے

مسٹر ڈاکٹر کسنجر میں بڑے دکھ کے ساتھ آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ شہر لاہور پر سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں اور یہ صرف شہر لاہور پر ہی نہیں منڈلا رہے ہیں بلکہ گزشتہ دس بارہ دنوں سے ملک کے بیشتر حصوں پر ان کا سایہ ہے۔ ہم نے بہت ہی ہولناک تباہیاں دیکھی ہیں۔ اب ہم ایک انتہائی نازک اور تشویش ناک دور سے گزر رہے ہیں کیونکہ ہمارے دریاوں میں پانی چڑھا ہوا ہے اور وہ بہت شرارتیں کررہے ہیں۔ وہ ہنگامہ خیزی پر اتر آئے ہیں اور ہم ان پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ وادی سندھ کی پانچ ہزار سالہ قدیم تہذیب کس طور سے اپنے دریاوں کے ساتھ زندگی کرتے اور ان سے نبرد آزما رہتے ہوئے گزری ہے۔ ہمیں بعض اوقات ان دریاوں سے لڑنا پڑتا ہے بعض اوقات ان کو ٹھنڈا کرنے کے لئے، بعض اوقات ان کا مقابلہ کرنے کے لئے اور بعض اوقات ان کی نازبرداریاں برداشت کرنے کے لئے۔ اور دریاوں سے اسی طرح نمٹ کر ہی ہم نے ڈپلومیسی سیکھی ہے۔ قدر ت کے بدلتے تیوروں سے پیش آنے کی طرح ہی ڈپلومیسی میں بدلتے ہوئے حالات سے نمٹنا مضمر ہوتا ہے۔ اس طرح کے تجربات سے گزرنے والے عوام کے لئے ڈپلومیسی فطری عمل بن جاتی ہے۔ ایسا ان لوگوں کے ساتھ نہیں ہوتا جو دریاوں کو رام نہیں کرتے ان سے جنگ نہیں کرتے ان کے ساتھ وصال نہیں کرتے۔

اس لئے کل صبح جب آپ ہم سے مذاکرات کریں گے تو براہ مہربانی یاد رکھیں کہ ہماری ڈپلومیسی اپنی عروج پر ہوگی کیونکہ اس وقت ہمارے دریا شرارتوں سے بھر پور ہیں۔ اور چونکہ رڈیارڈ کپلنگ بھی لاہور میں رہے ہیں، وہ مشہور اخبار سول اینڈ ملیٹری گزٹ کے ایڈیٹر تھے لیکن آپ لاہور کو صرف مسٹر کیم اور کپلنگ سے ہی وابستہ نہ کریں۔ اگر چہ کیم اور کپلنگ کا برطانی راج سے گہرا واسطہ تھا جس کے بعض نقوش آج بھی ادھر ادھر آپ کو نظر آئیں گے۔ ہمارے تمام شہروں میں لاہور ہمارا ایک ثقافتی مرکز ہے۔ یہ ہماری تاریخ کا محور اور ہماری سرگرمیوں کا منبع رہاہے۔ یہ وہ شہر ہے جس نے صدیوں قبل اپنا مقام بنا لیا تھا۔ اس شہر نے بہت فاتح دیکھے ہیں۔ اس شہر سے ہماری کئی نشاۃ ثانیہ وابستہ ہیں۔ اس شہر کی عظمت ہمارے لئے باعث فخر ہے اور حالیہ زمانوں میں جب لاہور پر چڑھائی کی گئی تھی تو اس شہر کے جیالے عوام نے جارحیت کرنے والوں کو بڑی بہادری سے پسپا کردیا تھا اور اپنی دھرتی کے ایک ایک انچ کی تحفظ کے لئے جوانمردی سے مقابلہ کیا تھا۔

لاہور کئی اعتبار سے ہمارے دلکش اور محسور کن احساسات کا گہوارہ رہا ہے۔ یہ باغوں کا شہر ہے، یہ قلعوں کا شہر ہے، یہ ایک تاریخی شہر ہے، یہ تاریخی مساجد کا شہر ہے اور یہاں اسی شہر لاہور میں ایک مغل بادشاہ بھی رہتا تھا جس کا شہزادہ ایک خوبصورت نوجوان لڑکی انار کلی کی محبت میں دیوانہ ہوگیا تھا انارکلی ، انار کے درخت کے ایک کھلتے ہوئے پھول کی مانند تھی۔ لیکن شہزادے کا باپ بادشاہ اکبر یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا انارکلی سے شادی کرے۔ اس نے اسے سزا دینے کی غرض سے زندہ دفن کردیا اور اسی قبر کے نزدیک ہمارا سیکرٹریٹ ہے جہاں ہم ان تھک محنت کرتے ہیں اور تمام فائلوں کو یہیں سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہاں سے ٹھیک اس کمرے کی دوسری جانب اگلے دروازے کی طرف جہاں ہم مذاکرات کریں گے اسی میدان میں دو افراد اپنی غلط مہمات کی وجہ سے دفن ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں مغل بادشاہوں، بدھ شہنشاہوں نے اور راجہ رنجیت سنگھ جیسے حکمرانوں نے اور بہت سے دوسرے لوگوں نے اپنے نقوش چھوڑے ہیں۔

میں خود ذاتی طورپر بھی اس شہر سے بہت متاثر ہوں۔ مجھے اس شہر سے گہری عقیدت رہی ہے اور میں اس شہر کو اس لئے بھی پسند کرتا ہوں کہ میں 1970ء میں اس شہر سے بھی الیکشن لڑا تھا (میں نے بیک وقت پانچ دوسرے شہروں سے بھی انتخاب لڑا تھا) میں لاہور میں صرف ایک دن کے لئے آیاتھا مجھے فخر ہے کہ میں نے چالیس ہزار ووٹوں سے ایک ایسے شخص کو شکست دی تھی جس کے باپ نے پاکستان کا تصور پیش کیا تھا۔ لہذا لاہور کے لوگوں کی مجھ پر بہت سی نوازشیں اور مہربانیاں رہی ہے اور میں بھی دل سے ان کا ممنون ہوں۔ اس لئے ہم سوچتے تھے کہ آپ جب پاکستان آتے ہیں تو ہمیشہ اسلام آباد میں آتے ہیں اور صرف ایک بار ہی لاہور میں آئے ہیں جبکہ ہمارا خیال تھا کہ آپ لاہور بھی آئیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ مسز کسنجر کے پاس اتنا وقت ہوگا کہ وہ کل صبح اس خوبصورت شہر کے بھی دلکش مقامات کی سیر کرسکیں۔ شاید وہ کوشش کریں، آپ ہمارے مہمان ہیں اور ہمارے درمیان کوئی تکلیف نہیں ہے۔ اگر آپ تھک گئی ہوں تو دوبارہ آسکتی ہیں۔ پاکستان میں آپ کا ہمیشہ خیر مقدم کیا جائے گا۔

(کریم اللہ پشاور یونی ورسٹی کے شعبہ سیاسیات کےگریجویٹ ہیں۔ فری لانس صحافی‘ کالم نگار اور بلاگر ہیں اور معاشرے کے سیاسی‘ سماجی اور ثقافتی موضوعات پر لکھتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).