ریل کا انجن فیل کیوں ہے؟


پارکنگ کے تیس روپے دینے کے بعد میں نے قلی کے پیچھے تقریباً بھاگتے ہوئے پل کراس کیا اور پلیٹ فارم نمبر دو پر کھڑی گاڑی کے بوگی نمبر سات کی سیٹ نمبر b1 کو ڈھونڈا اور سامان رکھوا کر قلی کو ایک سو اسی روپے اس کی مزدوری ادا کی۔

ایک سو اسی روپے پلیٹ فارم نمبر دو پہ گاڑی لگانے کی صورت میں ادا کرنا پڑتے تھے اور اگر گاڑی داخلی دروازے پر لگی ہو تو قلی سو روپے مانگتا ہے جو بھاؤ تاؤ کے بعد اسی روپے تک بھی آ جاتے ہیں۔

مخصوص وردی میں ملبوس یہ مخلوق کچھ عرصہ قبل بے حد اکھڑ مزاج ہوا کرتے تھے۔ اپنی طلب کی گئی رقم سے ٹس سے مس نہ ہونے والی یہ مخلوق کچھ عرصے سے بڑے ٹھنڈے میٹھے انداز میں پیش آتی ہے۔
کوئی دو چار برس قبل یہ بھاؤ تاؤ کرنے والے کو لفٹ نہیں کرواتے تھے بھلے مسافر چھوٹ جائے یہ ان کا انداز ہوا کرتا تھا۔

لیکن اب ایسا نہیں ہے یہ بھاؤ تاؤ کرنے لگے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ انھوں نے ڈبوں میں موجود دو دو تین تین نشستیں بانٹ رکھی ہیں سو اب ایک دوسرے سے لڑتے بھی نہیں ہیں اور مسافر بھی ان کی لڑائی کا حِصّہ بننے سے بچ گئے ہیں۔ پہلے تو یہ ڈبے میں داخل ہوتے ہی مسافر کی جانب لپکتے تھے اور ایک دوسرے پر فوقیت لے جانے پر آپس میں جھگڑنے لگتے تھے۔
اب یہ تحمل مزاجی خدا جانے ان کی آپس میں کی گئی مشاورت ہے یا ان کے کسی سربراہ کو شکایت لگ جانے کے ڈر سے ایسے نشستیں بانٹ لینے کا طریقہ اپنایا ہے۔

اپنی نشست پر بیٹھ کر میں نے ارد گرد کا جائزہ لیا جو کہ ضروری تھا۔ تنہا سفر کرنے کی صورت میں خاص طور پر ٹرین کے سفر کے دوران ایسا کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ کئی بار مشکوک افراد بھی ٹرین کی کسی بھی نشست پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن باقی ریلوے کے نظام میں جتنی بھی خرابیاں ہوں سیکورٹی اچھی ہے اور ایک سیکورٹی گارڈ جو وقفے وقفے سے ڈبے کا جائزہ لینے کی غرض سے گزرتا ہے، پورے رستے میں تحفظ کا احساس رہتا ہے۔

میں نے شاید بہت بچپن میں اس اے سی پارلر کے ڈبے میں بوجوہ سفر کیا تھا۔ تب اس کی مینٹینس اور اس کی آرام دہ نشستوں کو دیکھ کر مجھے کسی ہوائی جہاز کا گمان ہوا تھا۔

اب بارہ پندرہ برس سے میں ٹرین کے سفر کو باقی بس سروس وغیرہ پر فوقیت دیتی ہوں۔ وجہ کرایوں میں زیادتی ہے۔ حالانکھ اب ٹرین کے کرائے بھی ان مہنگی بس سروسز جتنے ہی ہیں۔ اور اب ٹرین کا معیار بھی اتنا ٹھیک نہیں رہا جو کچھ عرصہ قبل چائنہ سے منگوائی گئی نان اسٹاپ ریل گاڑیوں کا تھا جو کسی اچھی بس سروس کی طرح اپنے مقررہ وقت پہ پہنچاتی تھی ناشتے میں ابلا انڈہ ایک کپ چائے اور جیم توس بھی ٹکٹ میں شامل ہوا کرتا تھا۔ اور اب ایک سوکھا سینڈوچ اور چند آلو کے قتلے ایک مرغی کی چھوٹی سی سوکھی ٹانگ کھانے پر آپ کو تقریباً ساڑھے تین سو سے زیادہ کا بل ادا پڑتا ہے اور دو میل اور ایک فی میل (مخصوص بیرا، اگر آپ ایک مخصوص وقت میں سفر کر رہے ہیں) کی بے حد ”پرفیشنل رویوں“ سے گزرنا پڑتا ہے جو شاید اس ٹرین کو ایک اعلیٰ پائے کا جہاز سمجھے ہوئے ہیں۔

سردیوں میں سیٹوں پہ بیٹھے ہوئے آپ کو ٹرین کے ڈبوں سے کھڑکیوں سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی محسوس ہوتی ہیں، جن سے بچنے کے لیے آپ کو اضافی کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اگر بد قسمتی سے سامنے سے کوئی ٹرین آ جائے تو آپ کی ٹرین کو مکمل طور پر رکنا پڑتا ہے۔ اور اگر ٹرین کا کوئی پرانا پرزہ کام کرنے سے انکاری ہے تو چھ گھنٹے کا سفر بارہ گھنٹوں کا بھی ہو سکتا ہے۔ چھت پر لگی میلے شیشے میں بند لائیٹوں میں بلی کے بلونگڑے جتنے چوہے دوڑتے بھاگتے دکھائی دیتے ہیں جن کی اسپیڈ ٹرین میں موجود بیروں کے برابر ہوتی ہے جو مسافر کو رام کرنے میں لگے ہوتے ہیں کہ جی یہ پلیٹ میں موجود سوکھے اسینڈوچ اور بچہ مرغی کی روسٹڈ ٹانگ آپ ضرور ہی لیجیے۔ اور بیچارے سادہ لوح جب کھا پی چکتے ہیں تو بل لے آتے ہیں اور کسی غریب کی جیب میں رکھے چند نوٹ اس آدھی ادھوری پیٹ پوجا پر لگ جاتے ہیں۔

ایک کپ چائے منگوانے کی صورت میں ایک گھٹیا غلیظ قسم کے مگ میں ایک نامعلوم کمپنی کے ٹی بیگ اور نل کے گندے پانی میں خشک دودھ برائے نام ڈال کر پیش کیا جاتا ہے اور اس چائے کی قیمت پینتیس روپے وصول کی جاتے ہیں۔ اب تو ٹرین میں کافی بھی دستیاب ہے اور وہ بھی چائے کی قیمت میں۔ اس سب سے قطع نظر ہم پھر بھی ٹرین میں سفر کرتے ہیں۔

نان اسٹاپ ٹرین کی چاہ میں اختیار کیا گیا یہ سفر دراصل ہمارے(یعنی میں) اصولوں میں سے ایک ہے کہ جلدی سے نئی چیزوں کو اختیار نہیں کرتے۔ چاہے ہمیں پانی کی ایک چھوٹی بوتل تین گنا ذیادہ قیمت پر حاصل کرنا پڑے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ نیلی تیز گام ٹرینیں گئیں کہاں؟

کیا ہمارے پاس ایسے انجینئرز موجود نہیں کہ جو ایسے روٹ دیں جن سے ٹرین کی رفتار میں فرق نہ پڑے؟ کہ جن روٹ کی بدولت سامنے سے آنے والی ٹرین رکنے کا باعث نہ بنے؟
اگر وسائل کی بات کی جائے تو یہ سب بہانے بازی ہے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں۔ یہ ہماری عادت ہے کہ ہم نئی چیزوں کو لاتے ہیں اور پرانی چیزوں کو بیکار بنا دیتے ہیں۔ نئے اسپتال بنانے کے منصوبے ترتیب دیتے ہیں لیکن جو موجود ہیں ان کی خبر نہیں لیتے۔

نئے اسکولوں کی اجازت دیتے ہیں لیکن پرانے نظام کو نئی ترتیب نہیں دینا چاہتے۔ یہی رویہ ریلوے کے لیے اپنایا گیا ہے نئی ٹرین منگوا لیں پرانی بیکار کر دیں۔ کہاں گئے وہ تیز رفتار انجن جو آواز پیدا نہیں کرتے تھے؟ کتنا بڑا حِصہ ریلوے کے حِصّے میں آتا ہے لیکن اسے ٹھیک سے utilize نہیں کیا جاتا۔ کیوں؟

اگر یہی پرانے ڈبے، انجن، بیکار پٹڑیاں جو بیکار پڑیں ہیں اور بیش قیمت ہیں۔ اسی لوہے کو استعمال کیا جائے تو ہم نئے سرے سے ریلوے کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اور ذیادہ کما سکتے ہیں۔ چائنہ میں باقاعدہ ریلوے انجینرنگ کی یونیورسٹیز موجود ہیں جہاں باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے۔ اگر ہمارے پاس دماغ نہیں (جو کہ ایک احمقانہ سوچ ہے) تو ہم انہی پرانی چیزوں سے اس وسائل کی کمی کو پورا کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).