کیا امریکہ پاکستان کی پالیسی تبدیل کروا سکتا ہے؟


پاکستان کے لئے امریکہ کی عسکری امداد بند ہونے کا اعلان ہونے کے بعد دو سوال سامنے آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کیا امریکہ کا یہ سخت اقدام پاکستان کو دہشت گرد گروہوں اور طالبان کے بارے میں اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر آمادہ کرسکے گا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ایک سے دو ارب ڈالر کی امداد بند ہونے کے باوجود پاکستان نے امریکہ کی خواہشات کے مطابق اقدامات نہ کئے تو امریکہ کا اگلا قدم کیا ہوگا۔ اس حوالے سے یہ اندیشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ امریکہ انتہائی صورت میں سرحدی علاقوں میں ان گروہوں کے خلاف یک طرفہ کارروائی کرسکتا ہے جو اس کے خیال میں افغانستان میں امریکی فوجوں اور سرکاری تنصیبات پر حملوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ گو کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ایسی کسی کارروائی کا مقابلہ کرنے کا اعلان کرچکے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان یہ واضح بھی کرچکا ہے کہ پاکستان نے گزشتہ تین برس کے دوران دہشت گردوں کے خلاف بلا تخصیص کارروائی کی ہے اور اب پاکستان میں کسی دہشت گرد گروہ کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ امریکہ البتہ اس دعوے کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے۔ اس کے جواب میں پاکستانی حکام نے یہ پیش کش کی تھی کہ امریکہ اگر ان عناصر اور گروہوں کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات فراہم کرے جو پاکستان کی سرزمین سے افغانستان میں کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں تو پاکستانی افواج ان کے خلاف کارروائی کریں گی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان نے اس امکان کو قطعی طور سے مسترد کردیا تھا کہ پاکستانی علاقوں میں امریکہ یا کسی دوسرے ملک کی فوج کے ساتھ مل کر کوئی کارروائی کی جاسکتی ہے۔

امریکہ کے حالیہ الزامات کی روشنی میں یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعتماد کی شدید کمی ہے۔ امریکہ کسی صورت میں پاکستان پر بھروسہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ بد اعتمادی کی یہ فضا گزشتہ کئی برس کے دوران دھیرے دھیرے مستحکم ہوئی ہے۔ اس بد اعتمادی کا واضح مظاہرہ مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے لئے ہونے والا امریکی حملہ تھا۔ اس حملہ کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کے دوران پاکستانی فوج اور سیاسی حکومت کو مکمل بے خبر رکھا گیا۔ جب امریکن نیوی سیل ایبٹ آباد میں کارروائی میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرکے اس کی لاش اپنے ہمراہ لے کر افغان فضائی حدود میں داخل ہو گئے تو پاکستانی حکام کو اس بارے میں مطلع کیا گیا تھا۔ اس لئے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ امریکہ دہشت گردوں کے بارے کوئی ایسی معلومات پاکستان کو فراہم کرے گا جن کے بارے میں اسے شبہ ہو کہ وہ معلومات دہشت گرد گروہوں تک پہنچ جائیں گی۔ امریکہ پاکستانی عسکری اداروں کے بارے میں اسی قسم کے شبہات میں مبتلا ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں امریکہ کی فراہم کردہ انٹیلی جنس معلومات پر کارروائی کرتے ہوئے پاکستانی فوج نے ایک امریکی کینیڈین خاندان کو ضرور رہا کروایا تھا۔ امریکی نژاد کیتلین کولمین اور اس کا کینیڈین شوہر جوشوا بوئیل اپنے تین بچوں کے ساتھ پانچ برس تک طالبان کی قید میں رہے تھے۔ امریکہ کو معلومات حاصل ہوئی تھیں کہ یہ خاندان پاکستان کے قبائیلی علاقہ سے افغانستان منتقل کیا جارہا ہے۔

پاکستان کو یہ معلومات فراہم کرتے ہوئے کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ لیکن یہ معلومات عین وقت پر اور دھمکی آمیز لہجہ میں فراہم کی گئی تھیں۔ اگر پاکستان اس وقت تساہل کا مظاہرہ کرتا اور دہشت گرد اس خاندان کو افغانستان یا کسی دوسرے نامعلوم مقام کی طرف منتقل کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو یہ دونوں ملکوں کے تعلقات پر سنگین اثرات مرتب کر سکتا تھا۔ اس کامیاب کارروائی کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت اعلیٰ حکام نے پاکستانی افواج اور حکومت کی کھلے دل سے تعریف کی تھی لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں میں اعتماد کا رشتہ بحال نہیں ہو سکا تھا۔ یہ اشارے سامنے آئے ہیں کہ پاکستان کے خلاف امریکہ کے حالیہ الزامات اور اقدامات کی ایک وجہ کیٹلین کولمین اور جوشوا بوئیل کو اغوا کرنے والے اور قید میں رکھنے والوں کے بارے میں پاکستان کا رویہ بھی ہے۔ اس کارروائی میں اگرچہ پاکستانی فوج نے تین بچوں اور میاں بیوی پر مشتمل خاندان کو رہا کروا لیا تھا لیکن فوجی دستہ ان لوگوں کو مبحوس رکھنے والے یا انہیں ایک گاڑی میں دوسری جگہ منتتقل کرنے کی کوشش کرنے والے کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے یا ہلاک کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ بعد میں اس حوالے سے بعض ملوث لوگوں کو گرفتا کیا گیا تھا۔ ایک اطلاع کے مطابق ا مریکہ ان گرفتار ہونے والوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن پاکستان نے اس سے انکار کردیا۔ اس طرح یہ معاملہ بھی دونوں ملکوں کے درمیان بد اعتمادی اور تصادم میں اضافہ کا سبب بنا ہے۔

اب امریکی حکام نے بار بار پاکستان پر ڈبل گیم کرنے اور ان گروہوں کے خلاف اقدام نہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے جو افغانستان میں امریکی مفادات کے خلاف کام کررہے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے اگرچہ ان الزامات کو مسترد کیا جارہا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان نے اس جنگ میں خود بہت نقصان اٹھایا ہے۔ پاکستان طویل مدت سے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے 70 ہزار سے زائد شہری اور فوجی جاں بحق ہوئے ہیں اور اس کی معیشت کو 120 ارب ڈالر کا نقصان ہؤا ہے۔ البتہ ان قربانیوں اور ایثار کا عالمی سطح پر اعتراف شاذ و نادر ہی سننے میں آتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور متعدد دیگر ممالک طالبان کے علاوہ دیگر دہشت گرد گروہوں کے بارے میں پاکستان کی پالیسی کو تضادات کا مجموعہ سمجھتے ہیں۔ گاہے بگاہے پاکستان کی طرف سے بھی اس کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ 2013 میں پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب کے نام سے دہشت گردوں کے خلاف عسکری کارروائی شروع کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اب اچھے اور برے طالبان کی تخصیص نہیں ہوگی اور سب گروہوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے گی کیوں کہ یہ لوگ پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ بن چکے ہیں۔ اس موقع پراس بات کی توصیف تو کی گئی کہ پاکستان نے بالآخر شمالی وزیرستان میں کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان علاقوں کو ناپسندیدہ عناصر کی گرفت سے واگزار کروانے کے لئے عملی اقدام کیا گیا ہے۔ لیکن یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کہ اس وقت سے پہلے اچھے اور برے طالبان میں تمیز کیوں ضروری تھی اور اس کا فیصلہ کیوں ، کیسے اور کس نے کیا تھا۔ یہ سوال اگر پاکستان کے بعض شہریوں کے دلوں میں اٹھا تھا تو امریکی حکام نے بھی ضرور اس پر غور کیا ہوگا کہ پاکستان طالبان کی دو اقسام پر یقین رکھتا ہے یا کم از کم اب ’سرکاری طور پر ‘ اس کا اعتراف کیا جارہا ہے۔

پاکستان کا یہی رویہ اب امریکہ کی طرف سے بنیادی الزام کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ پاکستان نے چار برس قبل جس پالیسی کو تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا، امریکہ کا دعویٰ ہے کہ پاکستان اس پالیسی کو کسی نہ کسی صورت جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان اپنی قربانیوں کا ذکر کرنے اور یہ بتانے کے باوجود کہ ملک میں ہر قسم کے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کردیئے گئے ہیں ، یہ وضاحت کرنے میں کامیاب نہیں ہے کہ اس پر تواتر سے دوہرا کردار ادا کرنے کا الزام کیوں عائد کیا جاتا ہے۔ اس سوال کا جواب امریکہ کو دیا جائے یا نہ دیا جائے کم از کم پاکستانی عوام کا ضرور یہ حق ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ ان کے ملک کے اہم ادارے ایسے کون سے کام کرتے ہیں کہ وہ دنیا میں مشکوک نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں اور ملک کی شہرت اوراعتبار متاثر ہورہا ہے۔

یہ سوال گزشتہ روز مسلم لیگ(ن) کے سربراہ اور تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف نے بھی اٹھایا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی عظیم قربانیوں کے باوجود دنیا پاکستان پر اعتبار کیوں نہیں کرتی۔ اس سوال کا جواب مل جائے تو پاکستان کی امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت بھی واضح ہو سکتی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ ہو یا کوئی دوسرا امریکی عہدیدار، پاکستان کو امداد بند کرنے کی دھمکی دے کر اپنی مرضی پوری کروانے کی کوشش بھی نہیں کرسکے گا۔ پاکستانی عوام کو مسلسل اندھیرے میں رکھنے کی حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہو سکی۔ اب وقت آگیا ہے کہ انہیں بے بنیاد اور غیر حقیقی قصے سنا کر نعرے لگانے اور امریکہ کے پرچم جلانے پر آمادہ نہ کیا جائے۔ بلکہ ملک کی حقیقی دفاعی و معاشی صورت حال سے آگاہ کرنے کے علاوہ ایسی پالیسیاں بنانے کی کوشش کی جائے جو عوام کو مرنے مارنے اور جنگ پر آمادہ کرنے کی بجائے امن سے رہنے اور دوسری قوموں کا احترام کرنے کا سبق سکھانے کے قابل ہوں۔ یہ کام کیا جاسکے تو سرحدوں کی حفاظت بھی ہو سکے گی اور امریکی امداد بند کرنے پربہت زیادہ تشویش کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali