کمال ہے بھیا ٹرمپ، اتنی دہشت کس چیز کی ہے؟


کہتے ہیں کہ زبان ایک متحرک دریا کی طرح ہے، جس میں ادھر ادھر سے روئیں آ کر ملتی رہتی ہیں اور زبان کی فصاحت اور بلاغت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ عمل عمومی مشاہدے کی چیز ہے۔ ہمارے آ پ کے دیکھتے ہی دیکھتے، کئی نئی اصلاحات اور الفاظ اردو زبان میں در آ ئے اور پھر بڑی ڈھٹائی سے انجے پنجے پھیلا کر ایسے پڑے کہ پوری کی پوری لغت ہی دھندلا دی۔

‘دہشت گردی’ بھی ایک ایسا لفظ ہے فیروزاللغات میں اس کے معنی،’ عوام میں خوف و ہراس’ پھیلانے کے لکھے گئے ہیں۔ یونیورسٹی کے دنوں تک یہ لفظ صرف چھپکلی سے منسوب تھا، جو رات کے کسی پہر روشندان کے سوراخ سے اندر رینگ آ تی تھی اور پھر خاموشی سے کسی نکڑ میں بیٹھ کر خدا کی قدرت کا تماشا دیکھتی تھی کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے ، کیسے اس کی دہشت سے چیختا چلاتا، تکیے اچھالتا، ادھر سے ادھر دوڑا پھرتا ہے۔

پھر اچانک ایک روز یہ لفظ کتابوں کے سرمئی صفحوں سے نکل کر سامنے آ کھڑا ہوا۔ نائن الیون نے دنیا کو ایک نیا لفظ ،’ دہشت گردی ‘ دیا۔ رات کے پر سکوت سناٹے میں کمرے میں در آ نے والی چھپکلی کی طرح اس لفظ نے بھی پوری دنیا میں کھلبلی مچا دی۔

معلوم ہوا کہ کچھ گروہ دنیا میں دہشت گردی مچا رہے ہیں اور اب ساری دنیا کا فرض ہے کہ وہ انہیں کھدیڑ کر میدان میں لائے اور اس ہانکے کے بعد ،’ دہشت گردوں ‘ کا شکار کیا جائے۔

یہ کون تھے ؟ اچانک کہاں سے نمودار ہوئے ؟ ان کی تربیت کس نے کی ؟ ان کو اسلحہ کس نے تھمایا؟ اب تک یہ کیا کرتے رہے تھے؟ یاجوج ماجوج کی یہ فوج کس سدِ سکندری کے پار بند تھی؟ اور رات ہی رات میں اس دیوار کو کون چاٹ گیا؟ یہ سب سوال کرنے والی زبانیں اپنے اپنے ادہان میں لب بستہ پڑی رہیں ، دہشت گردی کا لفظ ، ٹینکوں ، گن شپ ہیلی کاپٹروں ، ڈیزی کٹر بموں اور ڈرون جہازوں پر سوار چنڈی کی طرح پوری دنیا میں دھمال ڈال گیا۔

سوچ ساچ کر افغانستان کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دیا گیا اور پاکستان کاٹینیٹوا لیا گیا کہ تو ان کی سر پرستی کرتا ہے ؟ چل ، ان کو مار ورنہ ہم تجھے مارتے ہیں اور اس طرح ایک جنگ شروع ہوئی جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کہا گیا۔ یہ ایک عجیب سی جنگ تھی۔ پتا نہیں کون مر رہا تھا ، کون مار رہا تھا اور جن کو مارا جا رہا تھا وہ مر بھی رہے تھے یا نہیں؟

بہر حال، اسّی کی دہائی میں جن لوگوں کو ‘ افغان جہاد’ کے لئے بھرتی کیا گیا تھا، انہیں روسی فوجوں کے انخلا کے بعد کھلا چھوڑ دیا گیا۔ جو فیکٹری تب کھولی گئی تھی اسے بند نہ کیا گیا۔ ان لوگوں کو متبادل روزگار دینے اور افغان معاشرے کی تعمیرِ نو پہ غور کرنے کی بجائے، سب اپنے اپنے سپنوں میں کھو گئے ۔ وہ سپنے کیا تھے ؟ طویل کہانی ہے ۔ بات یہ ہے کہ خواب بہر حال خواب ہوتے ہیں۔

افغانستان کے لیے دیکھے گئے سب خواب بھی بڑے بھیانک ثابت ہوئے۔ امن ہر معاشرے کی بنیادی ضرورت ہوتا ہے۔ پڑوسی کے صحن میں آ گ لگا کر آ پ کب تک محفوظ رہ سکتے ہیں؟ آگ کا کام جلانا ہوتا ہے اور جب یہ پھیل جاتی ہے تو یہ اپنا اور پرایا نہیں دیکھتی۔ ‘ دہشت گردی ‘ کے خلاف یہ جنگ ہمیں ایسے لڑنا پڑی کہ ہمارے بچے تک محفوظ نہ رہے۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ ہم نے یہ جنگ لڑی ہی نہیں۔ فلسطین ، نے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا کیونکہ جس ریلی میں وہ شریک ہوا ، اس میں حافظ سعید بھی شامل تھے۔ ہم اس بات کو شہد کے گھونٹ کی طرح گٹک گئے۔ اسی دوران ، ڈونلڈ ٹرمپ نے واشگاف الفاظ میں پاکستان سے شدید بے زاری کا اظہار کیا ۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی ٹھیکیدار کو ڈیم بنانے کو ٹھیکہ دیا جائے اور کام مکمل ہونے کے بعد بنائی گئی عارضی رہائش گاہیں اور سکریپ وغیرہ ٹھکانے لگانے کی بجائے اپنے استعمال میں لے آ ئے اور الٹا مالک ہی کے لیے عذاب بن جائے۔

یہ ‘ دہشت گرد ‘ اب بے کار ہیں ، ان کو صرف جان سے مارا جا سکتا ہے اور پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ ہی کی طرح اب انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے ۔ ظاہر ہے ، اب یہ ‘ جہاد ‘ نہیں،’ فساد ‘ ہے ۔ امریکہ کو مطمئین کرنے کے لیے ایک ‘ آ پریشن ردالفساد ‘ بھی کیا گیا لیکن یہ پیلے بالوں والا ٹرمپ اتنا بد زبان اور گھنا ہے کہ سب تاڑ لیا۔

اب ایسا ہے کہ سب ایک آواز ٹرمپ کو کوس رہے ہیں ، وہ بھی جنہیں اس لفظ دہشت گردی کے معنی سمجھ آ تے ہیں اور وہ بھی جنہیں اب تک یہ سمجھ نہیں آ یا کہ یہ اتنی دہشت اچانک آ ئی کہاں سے اور وہ تینتیس ارب امریکی ڈالر گئے کہاں ؟ آ پ کو سمجھ آ ئی ؟ مجھے تو تینتیس ارب ڈالر کے پاکستانی روپے ہی بنانے نہیں آ تے ، بھیا ٹرمپ ! ہم سے حساب کیا مانگتے ہو ؟ جن کو دیا تھا صاف صاف ان کا نام لو یا تم بھی غائب ہونے سے ڈرتے ہو؟ کمال ہے، اتنی دہشت ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).