The Ballad of Lefty Brown


سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہ محاورہ ایجاد کرنے کے پیچھے ضرور کوئی تلخ داستان ہو گی۔ کسی کو کبھی نہ کبھی کوئی ایسا فیصلہ کرنا پڑ گیا جس نے اس کو الجھن میں ڈال دیا۔ ایسا فیصلہ جس کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی انسان کی راتوں کی نیند اڑ جائے۔ ایسے فیصلے کرنے آسان نہیں ہوتے۔ تاریخ میں ہمیں کئی ایسے فیصلے ملتے ہیں جنہیں پڑھ کر یہی سوچتے ہیں کہ پتا نہیں اس آدمی کے سینے میں کیسا دل تھا کہ اس نے اتنا بے رحم فیصلہ کر ڈالا۔ رومی جرنیل جولیس سیزر ایک شاندار سپہ سالارتھا جس نے سارے یورپ کے ساتھ ساتھ افریقہ کے وسیع براعظم کو بھی فتح کر ڈالا۔ اور خود کو عظیم الشان قرار دیتے ہوئے روم کے تخت پر قابض ہو گیا جہاں کے بادشاہ گر سینیٹرز کو اس کی یہ حرکت پسند نہ آئی اور انہوں نے اسے قتل کرنے کا سوچ لیا۔

سازش تیار کی گئی تمام سینیٹرز نے دربار کے اندر ہی جولیس سیزر پر خنجروں سے وارکیے۔ ان سینیٹرز میں بروٹس بھی تھا، جولیس سیزر کا بہترین دوست، جسے اس نے منہ بولا بیٹا بنا رکھا تھا۔ اسی منہ بولے بیٹے نے جولیس سیزر کے سینے میں خنجر اتار دیا۔ یہ بے رحمانہ فعل کرنے سے پہلے بروٹس نے بہت کچھ سوچا ہو گا جولیس کے احسانات یاد کیے ہوں گے اس کے ساتھ گزارے خوشگوار لمحات یاد آئے ہوں گے پھر بھی وہ یہ کام کرنے پر راضی ہو گیا ہو سکتا ہے اسے سینیٹرز نے قائل کیا ہو کہ سلطنت روما کی بقا اسی میں ہے کہ جولیس سیزر کو قتل کیا جائے اس نے سلطنت کی بقا کی خاطر اپنے منہ بولے باپ کا خون کر ڈالا، اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ریاست یا دین کے مفاد کو دیکھتے ہوئے کچھ لوگوں نے بہت سخت فیصلے کر ڈالے۔ کوئی بھی قوم اس بے رحمانہ فعل سے ماوراء نہیں رہی۔ سیاست ایسی بے رحم شے ہے جس کی خاطر بھائی بھائی کا خون کر دیتا ہے۔ بیٹا باپ کے خون کے درپے ہو جاتا ہے۔ یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آیا ہے اور شاید جب تک انسان کا وجود دنیا میں ہے ایسا ہی ہوتا رہے۔

ہماری زیر بحث تازہ فلم The Ballad of Lefty Brown بھی اسی موضوع کے گرد گھومتی ہے۔ ویسٹرن سٹائل لئے یہ فلم 1889 کے امریکہ پر پس منظر پر بنائی گئی ہے۔ فلم امریکہ کی ریاست مونٹانا میں ہونے والی ایک دلچسپ ڈیل کا احوال بیان کرتی ہے جس میں بچپن کےد وست ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جاتے ہیں۔ اس وقت تک امریکہ برطانویوں سے آزادی حاصل کر چکا ہے۔ خانہ جنگی ختم ہو چکی۔ اب امریکہ ایک مہذب اور ترقی یافتہ جمہوری ملک کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ مونٹانا کا ایک با اثر جاگیر دار ایڈورڈ جانسن ( پیٹر فونڈا ) بطور سینیٹر واشنگٹن جانے والا ہے۔ وہ اپنی جاگیر کی نگرانی اپنے ایک دیرینہ ساتھی لیفٹی (بل پل مین ) کو سونپ کر جا رہا ہے لیکن اس کی بیوی کا خیال ہے کہ لیفٹی جاگیر سنبھالنے کے قابل نہیں ہے۔ ایڈورڈ جانسن کے قریبی دوستوں میں جمی بیئرز (جم کیویزل ) ریاست مونٹانا کا گورنر بن چکا ہے اور اب ریاست مونٹانا کی ترقی کے لئے یہاں انڈسٹری لگوانا چاہتا ہے ریل روڈ بچھانا چاہتا ہے لیکن اس کا دیرینہ دوست ایڈورڈ جانسن اس کے نئے منصوبوں کے خلاف ہے۔ جبکہ تیسرا ساتھی ٹام ہیرل (ٹومی فلینیگن) جو جوانی میں یو ایس مارشل تھا اب اپنی بیوی کے اغوا کے بعد سے شراب کے نشے میں دھت رہنے لگا ہے۔ لیفٹی کو کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ سبھی اس کا مذاق اڑاتے ہیں جو اکثر و بیشتر اہم مواقع پر کوئی نہ کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے۔

فلم کی کہانی اس وقت ایک دھماکہ خیز موڑ لیتی ہے جب نومنتخب سینیٹر ایڈورڈ جانسن اپنے چوری شدہ گھوڑے تلاش کرنے کے لئے لیفٹی کے ہمراہ نکلتا ہے اور اس کو کوئی نامعلوم آدمی دور سے گولی مار دیتا ہے۔ لیفٹی بجھے دل کے ساتھ اپنے دوست کی لاش کے ساتھ رینچ پر واپس آتا ہے اور قاتلوں کو پکڑنے کا عزم کرتا ہے لیکن سبھی اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ اکیلا ہی قاتلوں کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔

ایڈورڈ جانسن کے قریبی دوست گورنر جم اور یو ایس مارشل ٹام اس کی موت پر تعزیت کے لئے آتے ہیں اور یہاں ہمیں امریکہ کے اس وقت کے ایک عجیب و غریب قانون کا علم ہوتا ہے جب ایڈورڈ کی بیوہ انہیں بتاتی ہے کہ ایڈورڈ کوئی وصیت چھوڑکے نہیں گیا اور چونکہ اس کی کوئی اولاد بھی نہیں ہے اس لئے اب امریکی قانون کے مطابق یہ رینچ ایڈورڈ کے کسی بھی رشتہ دار کو ملے گا۔ حیرت ہے کہ اس وقت کے امریکی قانون کے مطابق بیوہ کو جائیداد میں سے کوئی حصہ نہیں ملتا تھا۔ اس موقع پر ٹام کہتا ہے کہ اسے ڈر ہے لیفٹی پھر کوئی حماقت نہ کر بیٹھے اور اس کو تلاش کرنے کے لئے نکلتا ہے۔

بنیادی طور پر فلم انہی چار دوستوں کے گرد گھومتی دکھائی دیتی ہے۔ فلم ہمیں بتاتی ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ملک کی ترقی اور فلاح میں آپ کا کوئی بہت قریبی ساتھی رکاوٹ بنا ہوا ہے تو اس وقت آپ کے سامنے دو آپشن ہوتے ہیں۔ یا تو آپ ملک کی ترقی کی خاطر اپنے اس قریبی ساتھی کو رستے سے ہٹا دیں یا پھر ملک کی ترقی کو بھول جائیں۔ سیاست آپ سے بے رحمانہ فیصلے چاہتی ہے۔ جو نہ چاہتے ہوئے بھی کرنے پڑتے ہیں اور سیاست کا یہی ُرخ اس فلم کا اہم موضوع ہے۔

فلم کی ایک اور اہم بات ویسٹ کا طریقہ انصاف کو پیش کرنا ہے جس کے تحت قاتل کو فوری طور پر پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے یا اسے گولی مار دی جاتی ہے۔ ویسٹ کا یہ طریقہ آج کے جدید طریقہ ہائے انصاف سے بہت بہتر ہے جہاں قانون مجرم کو زیادہ بہتر طور پر بچ نکلنے کے رستے مہیا کرتا ہے۔ وکیل جھوٹ کا سہارا لے کر اسے بچا لیتے ہیں۔ کبھی ایک صحیح الدماغ شخص کو ذہنی مریض ثابت کر دیا جاتا ہے تو کہیں مقتول کے ورثاء کو صلح پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ویسٹ کے فوری انصاف کا یہ طریقہ دنیا کے بیشتر قبائل میں آج بھی رائج ہے۔

ایک اور دلچسپ بات ریاست کے گورنر کا اپنے دوست کی بیوہ کی درخواست پر اس کے لئے ایڈورڈ جانسن کی جعلی وصیت تیار کرنا ہے۔ جس کے تحت ایڈورڈ کی جائیداد اس کے کسی دور دراز کے کزن کی بجائے اس کی بیوہ کو مل جاتی ہے۔ یعنی دوست احباب کے لئے اس طرح کی جعل سازی کرنا ایک معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔

فلم کے ہیرو بل پُل مین (لیفٹی براون ) بتاتے ہیں کہ جب انہیں فلم میں ان کے کردار کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے کوئی توقفکیے بغیر اسے قبول کر لیا۔ فلم کے ہدایتکار جیرڈ موشے اس سے پہلے بھی کئی مشہور فلموں کی ڈائریکشن دے چکے ہیں اور انہوں نے یہ فلم صرف 20 میں مکمل کر لی۔ فلم میں انہوں نے کئی دلچسپ سین فلمائے۔ لیفٹی براؤن اپنے گندے ہاتھوں سے جرمیاہ کے پیٹ میں لگی گولی تلاش کر کے نکالتا ہے۔ فلم کے ہیرو لیفٹی براؤن کو ایک ایسے کردار کے طور پر دکھایا ہے جسے کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ فلم میں ریاست مونٹانا کے وسیع لینڈ سکیپ کو بہت خوب صورتی سے فلمایا گیا ہے۔

مجموعی طور پر یہ ایک عمدہ ویسٹرن مووی ہے جس میں کمپیوٹر کی مدد سے سین تیار نہیںکیے گئے بلکہ اصلی لوکیشن پر ہی فلمائے گئے ہیں۔ انسانی نفسیات اور کشمکش بہت خوب صورتی سے پورٹرے کیا گیا ہے۔ اگرچہ کہیں کہیں لیفٹی براون سے کیا گیا سلوک کافی حقارت آمیز محسوس ہوتا ہے اس کے عزم و حوصلے کو دیکھتے ہوئے یہی خواہش ہوتی ہے کہ کاش اس کو ایک بہتر ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا۔ فلم کا انجام دیکھنے والوں کو اسی کشمکش میں مبتلا کرتا ہے کہ ایک بڑے مفاد کی خاطر کسی قریبی شخصیت کو رستے سے ہٹانا بہتر عمل ہے یا نہیں۔ اور یہی کشمکش فلم کا ایک عمدہ تاثر بناتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).