بہادری اور بزدلی کی حقیقی پہچان


چار برس قبل ہمارے ملک میں دہشت گردی اپنے عروج پر تھی۔ ریاست دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے مذاکرات کا راستہ ڈھونڈ رہی تھی۔ چار برس قبل یہی دن تھے جب طالبان سے مذاکرات کے لئے ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ جس کے ارکان مولانا سمیع الحق، عرفان صدیقی اور پروفیسر محمد ابراہیم تھے۔ مولوی یوسف نام کے ایک صاحب سرکاری ہیلی کاپٹروں میں اڑے اڑے پھرتے تھے۔ طالبان دہشت گردوں کے موقف کے حامی ٹیلی ویژن اور اخبارات میں کھلم کھلا دہشت گردی کا جواز پیش کرتے تھے۔ ایسے میں ہنگو کے ایک پندرہ سالہ بچے اعتزاز حسن بنگش نے اپنے اسکول کے باہر دہشت گرد حملہ آور سے دوبدو لڑائی میں ہزاروں بچوں کی جان بچائی تھی۔ اعتزاز حسن نے اپنی جان دے کر بتایا تھا کہ دہشت گردی کا مقابلہ مذاکرات کر کے نہیں، دہشت گردوں سے لڑ کر کیا جاتا ہے۔ اس بچے کی دلاوری کے اعتراف میں ایک کالم درویش بے نشان نے گیارہ جنوری 2014ء کو روز نامہ جنگ میں لکھا تھا۔ ہم سب پڑھنے والوں کی باز آفرینی کے لئے حاضر خدمت ہے مبادا ہم بھول جائیں کہ طالبان کو ریاست پاکستان سے لڑنے کے نسخے کون سمجھاتا تھا اور طالبان اپنی مذاکراتی ٹیم کے لئے کن صحافیوں اور سیاست دانوں کے نام دیتے تھے۔

٭٭٭     ٭٭٭

جنوری کی چھ تاریخ تھی اور پیر کا دن۔ ہنگو کے گاﺅں ابراہیم زئی میں گورنمنٹ ہائی سکول کے تین طالب علموں کو سڑک پر ایک اجنبی شخص نظر آیا جو سکول میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ سکول میں صبح کی دعا ہو رہی تھی اور ایک ہزار کے قریب طالب علم کھلے آسمان تلے صحن میں موجود تھے۔ دو طالب علم مشکوک شخص سے خوفزدہ ہو کر بھاگ نکلے لیکن پندرہ سالہ سید اعتزاز حسین نے لپک کر اسے پکڑنے کی کوشش کی۔ اس کشمکش میں خودکش حملہ آور کی جیکٹ پھٹ گئی ۔ اعتزاز حسین نے اپنی جان دے کر بہت سے بچوں کی جان بچا لی۔ نویں جماعت کے اس بچے کی بہادری حیرت انگیز ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ خودکش حملہ آور کسی تلقین،ذہنی تطہیر اور نفسیاتی تربیت کے نتیجے میں اس خوفناک حرکت کے لیے تیار ہوا ہو لیکن کمسن اعتزاز حسین صرف ایک سادہ اصول کی پیروی میں اپنی جان پر کھیل گیا۔ مذہبی یا سیاسی مقاصد کے لیے دوسرے انسانوں کی جان سے کھیلنا ناجائز ہے اور اس طرح کی ہر کوشش کی بھرپور مزاحمت کی جانی چاہیے۔

خیبر پختونخوا کی زمین نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت سے عظیم کردار پیدا کیے ہیں۔ ٹانک کے سکول کا پرنسپل جس نے اپنے طالب علموں کے اغوا کی مزاحمت کرتے ہوئے جان دی، سوات کے لالہ افضل خان جو برسوں تک طالبان کے خلاف مزاحمت کی خونچکاں داستان رقم کرتے رہے لیکن جن کی اپنی سیاسی جماعت اے این پی نے انہیں سینٹ کا ٹکٹ دینے کی بجائے اعظم ہوتی کا انتخاب کیا۔ فرنٹیئر کانسٹیبلری کا سربراہ صفوت غیور جو اپنے جوانوں کے درمیان شہادت سے ہمکنار ہوا، میاں افتخار حسین جس نے اکلوتے بیٹے کی قربانی دے کر بھی طالبان کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ بشیر احمد بلور جس نے باچا خان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے جان دی۔ پاکستانی فوج کے وہ بہادر جوان جنہوں نے سوات میں طالبان کے ہاتھوں اغوا ہونے کے باوجود خالی ہاتھوں سے دشمنوں کی گردنیں توڑ ڈالیں۔ سوات کی کم عمر بچی ملالہ یوسف زئی جس نے بچیوں کی تعلیم کا پرچم بلند کیا۔ طالبان کے ظالمانہ تسلط کے دوران سوات کے زمینی حقائق سے بے خبر لوگ اب بھی ملالہ کی بین الاقوامی پذیرائی پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔اب اس درخشاں فہرست میں ایک معصوم اور بہادر بیٹے کے نام کا اضافہ ہوا ہے۔

تقویم میں سب دن ایک جیسے ہوتے ہیں۔ انسان اپنے شعوری فیصلوں اور افعال سے کسی دن کو عظمت عطا کرتے ہیں اور کوئی دن کسی کوتاہی کے بوجھ تلے قعر مزلت میں ڈوب جاتا ہے۔ جس روز اعتزاز حسین انسانی عظمت کے درجہ ¿ اولیٰ کو پہنچا، اسی روز، چھ جنوری ہی کو دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے ترجمان نے ذرائع ابلاغ کے خلاف ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ مدرسے کے ”چانسلر“ مولانا سمیع الحق نے پولیو کی ویکسی نیشن کے حق میں جو فتویٰ دیا تھا ، ذرائع ابلاغ اسے بار بار دہرا کر امن مذاکرات کے ضمن میں مولانا سمیع الحق کی مفروضہ کوششوں کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ کیوں صاحب یہ کیسے؟ گزشتہ برس 10دسمبر کو مدرسہ حقانیہ نے پولیو کے قطرے پلانے کے حق میں ایک فتویٰ جاری کیا تھا۔بعد ازاں 20دسمبر کو مولانا سمیع الحق نے نوشہرہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پولیو کے خلاف مہم کی حمایت کی تھی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی بچوں کو قطرے پلاتے ہوئے ایک تصویر میں مولانا کی موہنی صورت بھی نظر آئی۔ پھر عمران خان کو ان عناصر کی طرف سے دھمکی ملی جن کے بارے میں ہمارا مو ¿قف ہے کہ وہ ڈرون حملوں کے ردعمل میں دہشت گردی پر آمادہ ہیں۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی پیغام زبانی حضرت مولانا سمیع الحق کو بھی پہنچا ہے۔ سو اب مولانا کا علم لدنی کہتا ہے کہ ان کے فتوے کو بار بار نشر کرکے ذرائع ابلاغ ان کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ مولانا کو ہمت کرنی چاہیے ،فتویٰ تو الاعلائے کلمتہ الحق ہوتا ہے۔ کلمہ حق مدرسہ حقانیہ کو بہت زیب دیتا ہے۔ کلمہ حق کی تشہیر تو ذرائع ابلا غ کی طرف سے کار خیر میں شرکت ہے۔ یہ عجیب بات کہی جا رہی ہے کہ کلمہ حق کی تشہیر ایک سازش ہے۔ مولاناسمیع الحق کی منشا غالباً یہ ہے کہ جناب سیاسی تقاضوں کے پیش نظر اگر کوئی بیان یا فتویٰ دے ہی دیا تھا تو اسے بار بار بیان کر کے ان کے گلے کا طوق نہ بنایا جائے۔ کچھ تقاضے سیاسی ہوتے ہیں اور کچھ بشری۔ مولانا سے بہتر یہ کون جانتا ہے۔ مولانا آپ تو بہت بہادر عالم دین ہیں۔ امریکا کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرتے ہیں۔ پہلے آپ نے دفاع افغانستان کونسل بنائی تھی اب آپ دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ ہیں۔ اسلام آباد کے بحر ظلمات میں آپ کے گھوڑے بلا امتیاز صنف دوڑتے ہیں۔ طالبان تو آپ کے اپنے بچے ہیں۔ اگرچہ آپ نے کبھی یہ صراحت نہیں کی کہ طالبان کے افعال آپ کی دی ہوئی تعلیمات کے مطابق ہیں یا آپ سے تدریس میں کچھ کوتاہی ہوئی ہے۔ ہنگو کا ایک پندرہ سالہ نہتا بچہ خودکش بمبار سے جا بھڑتا ہے ، اپنی جان قربان کر دیتا ہے ، درجنوں ماﺅں کی گود آباد رکھتا ہے ۔ عامی بچہ تھا ۔حکومت کے کھولے ہوئے سکول میں تعلیم پاتا تھا۔ روحانی ارتفاع کی اس سے توقع نہیں تھی۔ وہ کیسی اعلیٰ منزلوں کو پہنچ گیا۔ مائیں اسے دعائیں دیتی ہیں۔ بہنیں اس پہ فخر کرتی ہیں۔ بھائی اس کے نام کی مالا جپتے ہیں۔ اس کا باپ مجاہد علی متحدہ عرب امارات کے صحراﺅں میں مزدوری کرتا ہے مگر اس کے سینے میں انسانی محبت کی حرارت موجود ہے۔اسے اپنے بیٹے کی شہادت کا معنی معلوم ہے۔ اہل دنیا میں ایسی استقامت اور منبر و محراب کے رکھوالے ایسے متزلزل کہ اپنے علم کی روشنی میں فتویٰ دے کر مراجعت کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔

اس میں کچھ سبق ریاست کے فیصلہ سازوں کے لیے بھی ہے ۔ پاکستان میں پولیو کے مزاحمتی قطرے پلانے کی مہم 1994ءمیں شروع ہوئی تھی۔ ہم پاکستان میں اس موذی مرض کو قریب قریب ختم کر چکے تھے۔ پھر طالبان آئے اور پولیو ویکسی نیشن کے خلاف مزاحمت شروع ہوئی۔ تاریخ کو مسخ مت کیجئے۔ یہ مت کہئے کہ شکیل آفریدی والا معاملہ سامنے آنے کے باعث پولیو ویکسی نیٹر مارے جا رہے ہیں ۔ کوئٹہ میں پولیو ویکسی نیٹر 2004ءمیں بھی مارے جا رہے تھے۔ تب کوئٹہ شوریٰ کی خبریں عام تھیں۔ 2007ءمیں خیبر پختونخوا میں پولیو ویکسی نیٹر اغوا کیے گئے اور انہیں قتل کیا گیا۔ پاکستان کے مختلف حصوں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کو خوف ہے کہ گھر گھر مہم کے نتیجے میں ان کی نشان دہی ہو سکتی ہے۔ گزشتہ برس پاکستان میں پولیو کے بیس ویکسی نیٹر مارے گئے جنہیں اپنے فرض منصبی کی ادائی پہ 245 روپے روزانہ کی خطیر رقم ملتی تھی۔ 2013ء کے دوران پاکستان میں پولیو کے 45 کیس سامنے آئے۔ صرف ستمبر کے مہینے میں خیبر پختونخوا کے 35 ہزار سے زیادہ گھرانوں نے اپنے بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کیا۔ حیرت ہے کہ پولیو کے قطروں کے منفی اثرات کے بارے میں والدین کا یہ شعور خیبر پختونخوا میں پایا جاتا ہے یا کراچی میں جس کے متعلق طالبان رہنما مسلم خان نے 2006ءمیں دعویٰ کیا تھا کہ ہم کراچی میں موجود ہیں۔ ایس ایس پی اسلم خان کی شہادت کے بعد بھی ہم نہیں جانتے کہ کراچی میں طالبان موجود ہیں؟ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ حکومتوں کے معاملات فتوﺅں کی روشنی میں نہیں چلائے جاتے۔ ریاست کو اپنے استحکام کے لیے فتوﺅں پر بھروسہ کرنے کی بجائے اعتزاز حسین سے سبق سیکھنا چاہیے۔ اس بچے نے اپنی جان دے کر بتایا ہے کہ بادشاہ ننگا ہے۔

( بشکریہ روز نامہ جنگ، 11 جنوری 2014ء)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).