ہاں میں لنڈے کی لبرل ہوں


میں نے اپنے گزشتہ کالم ’’لبرل معتوب کیوں ہیں‘‘ میں لفظ لبرل اور لبرلزم کی اصطلاح کی تعریف کی ہے اور اس تعریف پر پورے اترنے والے کچھ اشخاص اور سیاسی جماعتوں کا ذکر کیا ہے۔ اس پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا۔ پاکستان میں کچھ مارکسسٹ نے میرے ان کو لبرل کہنے پر اختلاف کیا۔ لبرل کی اصطلاح کی تعریف و توضیع کرنا مشکل اس لیے ہے کہ یہ ہر دور اور ہر سوسائٹی میں ایک علیحدہ وضع اور شناخت اختیار کرتی ہے۔ ان سب کو ایک خانے میں بند کرنا آسان نہیں ہے۔ امریکہ کے سابق صدرجان ایف کینڈی نے اس بارے میں کہا تھا،

’’ اگر لبرل وہ ہے جو پیچھے چلنے کی بجائے آگے کی طرف دیکھے، جو نئے خیالات کو تنگ نظری سے دیکھنے کی بجائے خوش آمدید کہے۔ جو اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کا سوچے، اُن کی صحت، گھر، سکول، نوکری، شہری حقوق، شہری آزادی کا خیال کرے۔ جو اس بات پر یقین رکھے کہ ہمارا ملک دوسرے ملکوں کے ساتھ شک و شبہ کی پالیسیوں کے تعطل کو توڑنے کے قابل ہے۔ اگر یہ سب باتیں لبرل ہیں تو میں فخر سے کہتا ہوں کہ میں لبرل ہوں۔ ‘‘

“If by a “Liberal” they mean someone who looks ahead and not behind, someone who welcomes new ideas without rigid reactions, someone who cares about the welfare of the people-their health, their housing, their schools, their jobs, their civil rights and their civil liberties-someone who believes we can break through the stalemate and suspicions that grip us in our policies abroad, if that is what they mean by a “Liberal”, then I’m proud to say I’m a “Liberal.”

امریکہ میں اس وقت سوشل لبرل اور مالیاتی لبرل کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ عرب ممالک میں سوشل لبرل اور سیاسی لبرل کی اصطلاح زیرِ استعمال ہیں۔ سوشل لبرل وہ ہیں جو عورتوں کی برابری، انسانی حقوق اور مذہبی برابری کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں اور مو جودہ عرب حکومتوں کے ساتھ مل کر ایسا کرنے کو تیار ہیں۔ سیاسی لبرل بھی ان قدروں کے حامی ہیں مگر موجودہ حکومتوں کو عوام کی نمائندہ نہیں سمجھتے اور ان حکومتوں کے ساتھ کام کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ پاکستان کے موجودہ لبرل کو آپ سیاسی لبرل کہہ سکتے ہیں کہ وہ ریاست کے امور میں عوام کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ پاکستان کے لبرل گُمشدہ افراد کی بحالی سے لے کر انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ وہ پاکستان کے ہمسایہ ملکوں جن میں بھارت بھی شامل ہے سے امن کے حق میں ہیں جو اس وقت سٹیٹ کی پالیسی نہیں ہے۔

میری کی گئی پاکستانی لبرل کی تعریف پر بے شک اعتراض کریں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہیئت مقتدرہ کی پالیسوں اور اُس کے مجوزہ بیانیے کے خلاف بات کرنے والا محفوظ نہیں ہے۔ دو دسمبر سن سترہ کو انڈیا امن دوستی کے تنظیم کے ایک رکن رضا محمود خان کو اغوا کر لیا گیا ہے اور ابھی تک ان کا پتہ نہیں ملا۔ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ امن کی بات کرنے والوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور جو لوگوں کے قتل پر دوسروں کو اکساتے ہیں وہ کھلے پھرتے ہیں۔ گم شدہ افراد کا سلسلہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا۔ لبرل، ترقی پسند، رجعت پسند، قدامت پرست، مولوی، مدرسے کا طالب علم یا کسی اور پاکستانی شہری کا اگر کوئی جرم ہے تو اُسے عدالت میں لے جا کر ثابت کریں یا پھر پاکستان کو مکمل طو ر پر پولیس سٹیٹ قرار دے دیں۔

اس کالم میں میں پاکستان کے لبرل پر ان کے نظریاتی مخالفین کی طرف سے لگائے گئے اعتراضات اور القاب کو زیرِ بحث لاؤں گی۔ ان القاب میں لبرل فاشٹ، لنڈے کے لبرل، دیسی اور جعلی لبرل اور اب خون کے پیاسے لبرل شامل ہیں۔

پاکستان کے لبرل کے لئے لبرل فاشٹ کا لقب سب سے پہلے مشہور صحافی حامد میر نے لگایا تھا۔ وہ اس اصطلاح کے بکثرت استعمال کو امریکی منصف، جوناہ گولڈ برگ کی کتاب
Liberal Fascism: The Secret History of the American Left, From Mussolini to the Politics of Change

سے ماخوذ کرتے ہیں۔ اس کتاب میں منصف نے جو امریکہ کے رجعت پسند ہیں، امریکہ کے لبرل پرفاشزم کا الزام لگایا ہے۔ فاشزم 1920 اور 1930 کی دہائیوں میں ایک معاشی نظام کے طور پر ابھرا تھا۔ اس میں کلاسیک کمیونزم کی طرح حکومت کے ہر شعبے پر ریاست کا کنٹرول ہوتا ہے۔ اس میں اور کمیونزم میں یہ فرق ہے کہ کمیونزم کی اپیل آفاقی ہے اور اس میں غریب انسان کی مجبور معاشی حالت کے تدراک کے لیے ریاست کا کنٹرو ل ضروری سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ فاشزم وطنیت اور نسل پرستی کو اپنی بنیاد بناتا ہے۔ فاشزم کا نظامِ حکومت اٹلی کے مسولینی اور جرمنی کے ہٹلر کی فاشسٹ نیشنلزم کی ناکامی کے بعد ختم ہو گیا تھا مگر یہ اصطلاح ابھی بھی زبان زد عام ہے۔ امریکہ میں لبرل اور کنزروٹیو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ایک دوسرے پر فاشسٹ ہونے کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔

امریکہ کے لبرل اپنے آپ کو انسانی حقوق کے علمبردار سمجھتے ہوئے ملک کے ہر شہری کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو جس میں علاج معالجہ بھی شامل ہے ریاست کی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ریاست قومی اور بین الاقوامی تجارت کے قاعدے بھی مقرر کرے۔ جوناہ گولڈ برگ کا کہنا ہے کہ لبرل کی ریاست کے ہر شعبے میں کنٹرول کی خواہش فاشزم کے برابر ہے لہٰذا امریکہ کے لبرل فاشٹ ہیں۔ امریکہ کے لبرل اپنے ملک کے اُن رجعت پسندوں کو فاشٹ کہتے ہیں جو اس ملک کے قوانین میں کرسچن مذہب کو شامل کرنا چاہتے ہیں۔ لبرل کے خیال میں کسی ایک خاص مذہب کے ریاستی امور میں عمل دخل سے اُس مذہب کے ماننے والوں کو فوقیت ملتی ہے اور ایک خاص قسم کی نسل پرستی وجود میں آتی ہے جو فاشزم کے مترادف ہے۔ اس تعصب یا نسل پرستی کی امریکہ جیسے ترقی یافتہ ریاست میں کوئی گنجائش نہیں ہےکہ ماڈرن ریاست اپنے شہریوں کو بلاتفریق، رنگ ومذہب کے برابری کے حقوق دیتی ہے۔

پاکستان کے لبرل کو فاشٹ کہنے کی نہ جانے کیا وجہ ہے کہ وہ تو شہریوں کے برابری کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں اور عوام کی بالا دستی کے حق میں ہیں۔ لگتا ہے یہ لقب اُن پر زیادہ سوچ سمجھ کر نہیں لگایا گیا ہے۔

میں نے سوشل میڈیا پر کئی لوگوں کو لبرل پر اپنے آپ کو برتر سمجھنے اور تکبر کرنے کے کمنٹس پڑھے ہیں لبرل بھی انسان ہیں اور اُن میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ البتہ لبرل کی تعریف یہ ہے کہ وہ تحریر و تقریر کی آزادی کا علمبردار ہے۔ اس طرح کے حربے دوسروں کی تحریر و تقریر کی آزادی میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور یہ لبرل قدروں کی خلاف ورزی ہے۔

دیسی، اور نقلی اور لنڈے کے لبرل کا خطاب وہ دیتے ہیں جو ولایتی لبرل کے ساتھ اپنے خیالات کی ہم آہنگی ظاہر کرتے ہیں۔ ولایتی لبرل (یورپ اور امریکہ کے لبرل) اپنے وطن کی اقلیتوں کے خلاف نا انصافیوں کو بیان کرتے ہیں۔ اپنی تاریخ کے تاریک پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ وہ اپنے ملک کی خارجہ پالیسوں پر تنقید کرتے ہیں۔ پاکستان کے وہ لوگ جو ولایتی لبرل سے اپنا تعلق جوڑتے ہیں بھی اُن کے ملکوں پر مندرجہ بالا تنقید کرتے ہیں۔ البتہ اپنے ملک پر کسی قسم کی تنقید کو برداشت نہیں کرتے۔ اُن کے خیال میں ہماری تاریخ میں کوئی تاریک پہلو نہیں ہے لہٰذا اس پر تنقید کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستانی لبرل جب اپنے ملک میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات کرتے ہیں تو پاکستان کے وہ لوگ جو ولایتی لبرل سے اپنا تعلق جوڑتے ہیں، پاکستانی لبرل کو جعلی اور نقلی اور لنڈے کا لبرل قرار دیتے ہیں۔

خون کے پیاسے لبرل پر تو اپنے دیسی لبرل نے اتنا شور مچایا ہے اور اتنا لکھا ہے اور اتنے کارٹون بنائے ہیں کہ اس پر مزید بات کرنا فضول ہے۔ رہ گیا لنڈے کا لبرل۔ پاکستانی لبرل کو اس لیے لنڈے کے لبرل کا لقب ملا ہے کہ انہیں یورپ اور امریکہ کے اصلی لبرل کے برعکس لبرل کی اترن کے برابر سمجھا جاتا ہےجیسے پاکستان کے انسانی حقوق پر بات کرنے والا اصلی نہیں ہوسکتا۔ اصلی پاکستانی لبرل شاید وہ ہونے چاہیں جو دوسرے ملکوں پر تنقید کرتے ہوں۔

مجھے لنڈے سے پہلے کا پاکستان یاد ہے۔ سویٹر، کمبل اور جوتے اتنے مہنگے ہوتے تھے کہ غریب کے بچے سردی میں کانپتے پھرتے تھے۔ دو، دو، تین، تین پرانی قمیضیں اور کاٹن کی چادریں بھی اُن کی سردی ختم نہ کر سکتی تھیں۔ بھلا ہو لنڈے کا، اُس نے بہت سوں کے سینوں کو سویٹروں سے گرم کیا۔ اُن کے سر پر سستی اونی ٹوپی، ہاتھوں میں دستانے اور پیروں میں جوتے دیے۔ یہ لنڈا اُس بازار سے کہیں بہتر ہے جہاں غریب کے پاس نیا لباس خریدنے کی استطاعت نہیں ہے۔

پاکستانی لبرل کو ایسے لوگوں کی فکر ہوتی ہے جو کہ اپنی آواز ملک کی طاقتوں کو سنانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ پاکستانی لبرل غریب کسانوں، بانڈد لیبرز، گم شدہ لوگوں کے حق میں بولتے ہیں۔ وہ اُس عورت کی آواز بنتے ہیں جسے غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ وہ چھوٹے صوبوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔ وہ ملک کے ہر شہری کو برابر کے حقوق دلانے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ وہ علاقائی امن کی بات کرتے ہیں۔ اگر یہ لنڈے کے لبرل ہیں تو میں فخر سے کہتی ہوں کہ ہاں میں لنڈےکی لبرل ہوں ۔

لبرل کیوں معتوب ہیں؟

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi