پیری اور (زن) مریدی


پاکستان میں پیری فقیری بھی بزنس کی ایک قسم ہے۔ ایک گدی سنبھال لیں، سنجیدہ سی شکل بنا کر لوگوں کی واہی تباہی سنیں، اوٹ پٹانگ مشوریں دیں، امکانات و احتمالات کے علم کے مطابق کوئی نہ کوئی مشورہ تو ہِٹ ہو گا ہی۔ بس، اس کے بعد چاندی ہی چاندی۔

ہمارے ہاں کے سب سے مشہور اور وافر تعداد میں پائے جانے والے مریدوں کے پیر ان کی بیویاں ہوتی ہیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ بھائی تو تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ تو حضور والا، مسئلہ وسئلہ کچھ نہیں ہے، ایک تو عمران خان کی شادی کے حوالے سے یہ ٹاپک ذہن میں آ گیا، دوسرا ہمارا خیال ہے کہ اس پر کھل کر بحث ہونی چاہیے لہذا اس فیلڈ کے ایک مستقل ممبر ہونے کے ناطے میں اسے اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ قارئین کو اپنی ماہرانہ رائے سے مستفید کروں۔

زن مرید بننے کے لئے پہلے آپ کو ایک عدد شوہر بننا پڑتا ہے، غیر شادی شدہ ہو کر آپ زن مرید بننے کا خواب تو دیکھ سکتے ہیں مگر بن نہیں سکتے، خواب کی تعبیر تو اس آگ کے دریا میں کودنے کے بعد ہی نصیب ہوگی۔ زن مرید ہونے کے بڑی اقسام اور مدارج ہیں۔ ایک درجہ وہ ہے جس پر ہم ہیں، جیسے ذاکر خان کے مطابق ’لونڈا میں سخت ہوں، مگر پگھل گیا‘، تو بس ہم بھی بظاہر سخت ہیں مگر پگھلے رہتے ہیں۔

ہماری بیگم کو ہم سے اختلاف ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم قطعاً زن مرید نہیں ہیں۔ مگر ہمارے دوست کہتے ہیں کہ یہ روایت درایتاً درست نہیں، کہتے ہیں کہ کامن سینس کے مخالف ہے اس لئے قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ ہم نے بیگم کی بات کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے اس کوشش کو بھی زن مریدی کے ہی کھاتے میں ڈالا۔

کہیں پر ایک دفعہ پڑھا تھا کہ شریف آدمی سب سے مشورہ کرتا ہے مگر کرتا وہی ہے جو اس کی بیوی کہتی ہے۔ ہم بھی کچھ ایسا ہی کرتے ہیں، بیوی سے مشورہ کرتے ہیں پھر وہ نہیں کرتے جو وہ کہتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم شریف آدمی نہیں، حاشا و کلا۔ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ ہم رَن مرید نہیں گو ہماری والدہ کا ہمیشہ سے خیال ہے کہ ہم زَن مرید ضرور ہیں۔ ایک دن ہم نے بیگم سے پوچھا کہ سفید شرٹ کے ساتھ کالے رنگ کا آدھا بازو سویٹر پہنیں یا لال رنگ کا۔ ان کا کچن سے جواب آیا لال رنگ کا۔ ہمارے لئے کالے رنگ کا سویٹر پہننے کی وجہ مکمل ہو گئی۔ جب ہم تیار ہو کر کمرے سے باہر نکلے تو ہمیں دیکھ کر بولیں اگر مشورہ ماننا نہیں ہوتا تو پوچھتے کیوں ہیں، ہم نے کہا اِسی لئے۔

زن مریدی کا ایک درجہ وہ ہے جس پر آپ اپنی پیرنی کے ابو کو بھی ابو جی کہتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں شرم و حیا کا کوئی دخل نہیں، اس درجے میں زن مریدی کو عبادت کا درجہ حاصل ہوتا ہے، یہاں تک کہ جنت بھی ماں کے قدموں سے سرک کر بیگم کے قدموں تلے آ جاتی ہے۔

یاد رکھیں، کچھ شوہر اپنے آپ کو زن مرید نہیں سمجھتے اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہماری بیگم سب کچھ ہماری اجازت سے کرتی ہے۔ ایسے لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں۔ ان سے صرف یہ کہیں کہ ہر دفعہ سر ہلا کر اجازت دینے کی بجائے ایک دفعہ نہ کر کے دیکھ لیں پھر پورے محلے کو معلوم ہو جائے گا کہ آپ بھی اسی سلسلہ سے بیعت ہیں۔

کچھ صاحبان آفس میں خوب سخت مزاج ہوتے ہیں۔ بندہ سوچتا ہے کہ شاید گھر میں میں بھی راج کرتے ہوں گے۔ مگر میٹنگ میں گھر سے فون آ جائے تو سارا راز فاش ہو جاتا ہے۔ ’میں بعد میں کال کروں‘ کی گردان کے باوجود جب فون دس منٹ بعد بند ہو اور صاحب ہمم ہمم سے نہ بڑھ سکیں تو آپ دل کو تسلی دے لیں کہ صاحب اپنی ٹیم میں ہی ہیں۔

بیگمات کے مطابق صرف ان کا بھائی زن مرید نہیں ہونا چاہیے باقی سب پر بیعت واجب و فرض ہے۔ مگر مجال آپ اپنے سالے کی کوئی بات یا کوئی حرکت دلیل کے طور پر پیش کرنا چاہیں۔ تڑخ کر جواب آتا ہے اس کے حالات مختلف ہیں۔ (نوٹ، ہم سالے جیسی نعمت سے محروم ہیں، لہذا اس کو کسی اور کا تجربہ سمجھیں)۔

زن مرید ہونا برا نہیں ہے، مگر زن مریدی کی تبلیغ کرنا برا ہے۔ زن مرید کہتے ہیں کہ یار لوگوں نے پیار کا نام زن مریدی رکھ دیا ہے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے، پیار کا نام بچوں کے نام کی صورت رکھ لیا جاتا ہے، جبکہ زن مریدی کے حصول کے لئے بیگم کے آگے جو عاجزی و انکساری چاہیے اس کا پیار سے نہیں بلکہ ڈانٹ ڈپٹ سے تعلق ہے۔

ایک نصیحت یاد رکھیں کہ یہ جو سخت قسم کے لونڈے ٹائپ شوہروں کے لطائف بنے ہوئے ہیں وہ سب جعلی ہیں اور صوفے پر بیٹھ کر بنائے گئے ہیں۔ اگر خواب میں نہ ہو تو ایک شوہر کبھی اپنی بیگم کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ زبان سے اتار لے اگر ہاتھ سے نہیں اتر رہی۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا جی۔ مگر بیگمات والے لطائف نہ صرف حقائق پر مبنی ہیں بلکہ بہت سارے تجربات کے حصول کے بعد ایسے لطائف جنم لیتے ہیں۔ جیسے یہ انگلی کی طاقت والا لطیفہ، اس کے پیچھے دہائیوں کی زن مریدی ہے۔

آخر میں صرف اتنی سی درخواست ہے کہ ان اللہ مع الصابرین، تواڈا کج نئیں ہو سکدا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).