ایران میں بغاوت آسان کیوں نہیں؟



2017 کے آخری دنوں میں ایران کی سڑکوں پر جمع احتجاجیوں نے دنیا بھر کی توجہہ اپنی جانب کھینچ لی۔ بھلے ہی احتجاج کرنے والوں کی تعداد بہت محدود رہی ہو لیکن چونکہ ایران میں 2009 کے بعد سے کوئی بڑا احتجاج نہیں ہوا تھا اس لئے میڈیا کے لئے اس محدود احتجاج کو بھی نظر انداز کرنا مشکل تھا۔ احتجاج کا آغاز مہنگائی اور معاشی سست روی کے خلاف ہوا تھا لیکن جب کچھ احتجاجیوں نے حکومت اور علماء کی سیاسی بالادستی کے خلاف نعرے لگائے تو یہ مظاہرے دنیا کے لئے مزید دلچسپ ہو گئے۔ خیر تین چار دن تک احتجاجی جلسے جلوس نکالے گئے، کچھ افراد ہلاک ہوئے اور آخر میں حکومت کی حامی بڑی ریلیاں شروع ہوئیں جس کے بعد حکومت مخالف احتجاج کی خبریں آنی بند ہو گئیں۔ ایران کے با اثر ادارے پاسداران انقلاب کے سربراہ نے بھی بغاوت کو کچل دیے جانے کا اعلان کر دیا۔

اس ساری زور آزمائی میں کچھ سوالات ضرور نکل کر سامنے آئے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ایران میں 1979 کے انقلاب کے بعد سے اب تک بغاوت کی کوئی بھی کوشش کیوں کامیاب نہیں ہو سکی؟ اس سوال کو یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ ایران میں موجودہ نظام کے خلاف بغاوت آسان کیوں نہیں ہے؟ یہ سوال اس لئے بھی کھڑا ہوتا ہے کہ جب مصر اور لیبیا میں برسوں سے اقتدار پر مضبوطی سے بیٹھے ہوئے حسنی مبارک اور کرنل معمر قذافی کو عوام بغاوت کرکے معزول کر سکتے ہیں تو ایران کے ولایت فقیہ کے نظام میں ایسی کیا چیز ہے جو اس کے خلاف عوام کو متحد نہیں ہونے دیتی؟

ایران کے موجودہ نظام اور مصر یا لیبیا کی معزول حکومتوں کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ ان حکومتوں اور نظام ہائے حکومت کے کچھ مخصوص چہرے تھے۔ یہ چہرے کئی کئی عشروں سے ملک کے سیاہ و سفید امور کے مختار تھے ایسے میں عرب میں جیسے ہی آمریت کے خلاف لہر اٹھی ان ممالک کے بے چین اور غیر مطمئن عوام کی نظروں میں فورا یہ چہرے گھوم گئے۔ اسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام نے نظام حکومت کو بدلنے کے لئے ان چہروں کو معزول کر دیا۔ تیونس میں زین العابدین بن علی اور شام میں بشار الاسد کے ساتھ بھی یہی مشکل کھڑی ہوئی کہ یہ دونوں صاحبان بھلے ہی خود کو صدر مملکت کہتے ہوں لیکن طویل عرصہ تک اقتدار میں بنے رہنے کے سبب ملکی نظام کی تمام تر خرابیوں اور آمریت کا چہرہ یہی افراد قرار پائے اور ان کے خلاف شورش ہوکر رہی۔ تیونس میں زین العابدین بن علی کو معزول ہونا پڑا اور شام میں قیامت خیز تباہی کے باوجود بشار الاسد اب تک بغاوت کی آگ مکمل طور پر ٹھنڈی نہیں کر سکے ہیں۔ بحرین اور سعودی عرب میں بھی نظام کے کچھ مخصوص چہرے ہونے کے سبب ہی بغاوت کی آگ بھڑکی بھلے ہی اس سے وہاں کی حکومتوں کو کوئی خاص نقصان نہ ہوا ہو۔

اب اس پس منظر میں اگر ایران کا جائزہ لیں تو وہاں نظام کا کوئی مخصوص چہرہ نہیں ہے۔ ملک میں صدارتی نظام حکومت ہے جس کی کمان منتخب صدر کے پاس ہوتی ہے اور دو بار سے زیادہ مسلسل کوئی صدر رہتا نہیں اس لئے انقلاب کے بعد سے اب تک کسی ایک صدر کو بھی ایرانی نظام کا چہرہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر عوام میں کوئی بے چینی ہو بھی تو وہ کس کو اقتدار سے باہر کریں؟ ہاں، رہبر اعلی کے منصب کے سلسلہ میں کہا جا سکتا ہے کہ اس پر طویل عرصہ تک ایک ہی شخص رہتا ہے لیکن یہاں بھی کچھ توجہ طلب امور ہیں۔ اول تو رہبر اعلی کا خارجہ پالیسی، معاشی معاملات اور انتظامی امور سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہوا جوہری معاہدہ ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ رہبراعلی اس معاہدے کے حق میں نہیں تھے اور وہ بار بار کہتے رہے کہ امریکہ پر اعتماد نہ کیا جائے لیکن اصلاح پسند صدر حسن روحانی کی حکومت نے معاہدہ کیا۔ اگر رہبراعلی حکومتی امور میں حرف آخر ہوتے تو مغرب کے ساتھ اس معاہدے پر ایران کا رضامند ہونا ناممکن تھا۔

رہبر اعلی کو جو اختیارات حاصل ہیں ان کے باوجود بھی چونکہ وہ جوابدہی سے مبرا نہیں ہیں اس لئے ان کو نظام کا اعلی ترین، مستقل اور مختار کل چہرہ ماننا آسان نہیں ہے۔ رہبراعلی کے کام کاج پر نظر رکھنے کے لئے مجلس خبرگان نامی ماہرین کی منتخب اسمبلی ہے جو رہبر کا انتخاب اور مواخذہ دونوں کرنے کی مجاز ہے۔ اس مجلس کے ارکان براہ راست عوام کے ذریعہ منتخب ہوتے ہیں اور ان میں قدامت پسند اور اصلاح پسند دونوں ہی نظریات رکھنے والے علماء ہوتے ہیں اس لئے رہبراعلی خود بالواسطہ طور پر عوام کے نمائندوں کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس کو آسان زبان میں بھارت کے صدر کے طور پر سمجھ سکتے ہیں جنہیں عوام نہیں بلکہ پارلیمان اور اسمبلی کے ارکان چنتے ہیں۔

ولایت فقیہ کے نظام کے استحکام کا ایک اور سبب یہ ہے کہ اس میں کوئی ایک عہدہ بھی موروثی نہیں ہے۔ بانی انقلاب روح اللہ موسوی خمینی کے بال بچے ہوں یا موجودہ رہبراعلی کی اولاد، ان سب کا کسی موروثی عہدے یا حکومت میں ہونا تو دور ان کے نام تک بہتوں کو پتہ نہیں ہیں۔ اس لئے جب کبھی ولایت فقیہ کے نظام کو باقی رکھنے کی بات آتی ہے تو اس کا مقصد کسی مخصوص خاندان کو اقتدار بنائے رکھنا نہیں ہوتا۔

ایران میں حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج ہوتا بھی ہے تو حکومت کا کام امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب آسان کر دیتے ہیں۔ دراصل ایران میں احتجاج کا کوئی سلسلہ شروع ہوتے ہی امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب اسے تختہ پلٹ کا نادر موقع مان کر احتجاجیوں کی حمایت میں بیان دینے لگتے ہیں۔ اب ظاہر ہے جس ایرانی قوم کو عشروں سے یہی باور کرایا گیا ہو کہ امریکہ شیطان بزرگ ہے، اسرائیل اس کا داہنا ہاتھ ہے اور سعودی عرب انقلاب اسلامی کا ازلی دشمن ہے۔ ان ممالک کی طرف سے احتجاج کی حمایت دیکھ کر بدک جاتے ہیں اور بھلے ہی احتجاجیوں کے مطالبات معقول ہوں تب بھی انہیں مخالف کا آلہ کار مان کر اس کے خلاف خود ہی ڈٹ جاتے ہیں۔ یہی وجہہ ہے کہ 2009 میں زبردست احتجاج کے بعد جیسے ہی مغرب نے احتجاجیوں کی ذرا حمایت کی ایرانی ذرائع ابلاغ نے میر حسین موسوی اور مہدی کروبی جیسے سرکردہ افراد کو بلا دریغ استکبار کا سرغنہ کہنا شروع کر دیا۔ اس بار بھی امریکہ اور اسرائیل کی حمایت احتجاجیوں کے حق میں بری ثابت ہوئی۔ رہبراعلی کو اس مرتبہ 2009 کی طرح خطبہ جمعہ دے کر لوگوں کو سمجھانے کی بھی ضرورت نہیں پڑی اور حکومت کے حامی افراد کی زبردست ریلیوں نے احتجاج ٹھنڈا کر دیا۔

اس ساری گفتگو کے بعد ایک بات ذہن نشین رہنی ضروری ہے کہ ولایت فقیہ کے نظام سے ایرانی عوام کی زبردست یکجہتی کا یہ مطلب ہرگز نہیں نکالا جانا چاہیے کہ وہ اپنی شکایات سینے میں دبا لیں گے۔ ایرانی حکومت نے احتجاج کے اس سلسلہ پر بھلے ہی قابو پا لیا ہو لیکن اسے بہرحال معاشی سست روی اور بے روزگاری کا کوئی حل نکالنا ہی ہوگا۔ لوگوں کی عقیدت اپنی جگہ لیکن روزگار نہ ہونے کی صورت میں ان کا شاکی ہونا فطری ہے۔ جیسے جیسے دنیا بھر کے نوجوان سیاسی اعتبار سے زیادہ باشعور ہوتے جا رہے ہیں ویسے ویسے دنیا بھر کی حکومتوں کی ذمہ داری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے کہ وہ اس نوجوان نسل کو ترقی اور روزگار کے ہر ممکن مواقع مہیا کرائیں۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter