قائداعظم پاکستان کو ایک شرعی آئین دینا چاہتے تھے


پچھلے دنوں قائد اعظم پہ 62، 63 لگائے جانے اور ان کا اس پہ پورا نہ اترنے کے حوالے سے ایک دیسی قسم کے ولائتی کالم نگار کا کالم پڑھا۔ موصوف یہ فرما رہے تھے کہ قائد اعظم گو بد دیانت اور جھوٹے نہیں تھے۔ لیکن ان کے قول و فعل میں بہت زیادہ تضاد تھا۔ ان صاحب نے خود کو تاریخ کا طالب علم گردانا اور مطالعہ پاکستان میں پڑھائی جانے والی تاریخ کے لتے لیتے ہوئے اس کو جانبدار اور بوگس ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اور فرمایا کہ قائد اعظم پاکستان بننے سے پہلے اسلام، اللہ اور رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم اور دو قومی نظریے کا نام لیتے نہیں تھکتے تھے۔ لیکن جب پاکستان بن گیا تو انہوں نے 11 اگست 1947 کی تقریر میں دو قومی نظریے اور اسلام اور شریعت کو دفن کرکے لبرلیزم اور سیکولر پاکستان کی بنیاد رکھی۔ پھر کالم نگار صاحب نے کیبنٹ کی ایک عدد پارٹی کا ذکر کیا جس میں قائداعظم کی موجودگی میں شراب اور لحم خنزیر کے بے دریغ استعمال کا واقعہ بغیر کسی حوالے سے بتایا گیا اور ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ قائد کے سیکولر اور پاکستان میں مذہب کو ریاست سے الگ کرنے کے حوالے سے ایک اور واقعہ یہ بھی بتایا کہ پہلی کیبنٹ میں ایک ہندو، ایک قادیانی اور 4 میں سے تین گورنر عیسائی تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔ مجھے یہ سب پڑھ کے دھچکا لگا

۔ تاریخ کے ایک ادنی طالب علم کے طور پہ میں نے پہلے قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر پڑھی، اس تقریر سے آگے مجھے ایک اور تقریر ملی جو عظیم قائد نے 25 جنوری 1948 میں کراچی بار کونسل میں کی تھی، ایک تقریر قائد اعظم نے فروری 1948 میں سبی دربار میں کی، ایک تقریر بنک دولت پاکستان کے افتتاح جولائی 1948 میں کی۔ اس کے علاوہ مجھے department of Islamic reconstruction کے قیام اور اس کے اغراض و مقاصد اور پھر لبرل حلقوں کی جانب سے اس محکمے اور اس کے مقاصد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹانے کی کوششوں کو پڑھنے کا بھی موقع ملا۔ اس ساری عرق ریزی سے میں ذاتی طور پہ جس نتیجے پہ پہنچا وہ ذیل ہیں۔ 11 اگست کی تقریر کے بعد لبرل اور سیکولر حلقوں نے قائد کی تقریر کو جو غلط رنگ دینا شروع کیا تو اپنی اس تقریر کی وضاحت قائد نے 25 جنوری 1948 کو کراچی بار کونسل کی تقریر میں یوں کیا۔

Islamic principles today are as applicable to life as they were thirteen years ago.I could not understand a section of people who deliberately wanted to create mischief and made a propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on the basis of Shariat

سبی دربار کی فروری 1948 کی تقریر کچھ یوں فرمایا۔

It is my belief that our salvation lies in following the golden rules of conduct set for us by our great law giver, the Prophet (PBUH) of Islam. Let us lay the foundation of our democracy on the basis of truly Islamic ideals and principles

اوپر دی گئی تقاریر پڑھنے کے بعد جب میں نے department of Islamic reconstruction اور اس کے اغراض و مقاصد اور اس کے ڈائریکٹر علامہ محمد اسد کے بارے میں پڑھا تو مجھے اس محکمے کے اغراض و مقاصد اور قائد کی مندر بالا تقاریر میں دیے گیے نظریات میں کوئی تضاد نہیں نظر آیا۔ جہاں تک غیر مسلم کیبنٹ ممبرز کی بات ہے تو قائد نے اپنی پوری سیاسی زندگی مسلمان اقلیت کے حقوق کی جنگ لڑی۔ سوچنے کی بات ہے جو مسلم اقلیت کا ہندوستان کی اسمبلی اور حکومت میں حصہ مانگتا رہا وہ اپنے ملک میں اقلیتوں کو وہی حق کیوں نہ دیتا۔ اگر قائد غیر مسلموں کو اسمبلی اور کیبنٹ میں حصہ نہ دیتے تو یہ قائد کے قول و فعل میں تضاد کے طور پہ لیا جاتا اور وہ تب ہی تنقید کا نشانہ بن جاتے لیکن انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ اوپر دیے گئے حقائق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قائد کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ انہوں نے پاکستان کی تحریک اور پاکستان کے حصول کے بعد کبھی بھی دوقومی نظریہ سے انحراف نہیں کیا۔ اقلیتوں کو انصاف کے مطابق ایک برابر شہری ہونے کا حق دینا دو قومی نظریے سے انحراف نہیں گردانا جا سکتا۔ دوسرا سیکولر حلقوں کے پاس 11 اگست کی تقریر کے علاوہ اور کوئی ثبوت نہیں ہے جس تقریر کو خود قائد نے جنوری 1948 کی تقریر میں واضح بھی کردیا اور اس کی تصیح بھی کردی۔ ان سب کے باوجود بھی اگر کسی کو قائد کے دین اور نظریات پہ سیکولر اور لادینیت کی کوئی چھاپ نظر آتی ہے تو وہ اپنی رائے پر غور کریں۔

۔ آخر میں میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی کتاب ”میرا بھائی“ کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔
”وہ کسی خلل کے بغیر تقریباً دو گھنٹے تک گہری نیند سوتے رہے۔ پھر انہوں نے آنکھیں کھولی، مجھے دیکھا اور سر اور آنکھوں سے مجھے اپنے پاس بلایا، انھوں نے بات کرنے کی آخری کوشش کی اور سرگوشی کے انداز میں کہنے لگے: ” فاطی، خدا حافظ! لا الہ الاللہ۔ محمد۔ الرسول۔ اللہ“ اور ان کا سر آہستگی سے قدرے دائیں جانب ڈھلک گیا۔ ان کی آنکھیں بند ہو گئیں

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya