امتحان میں نقل نہ کرنا جرم ٹھہرا ہے


وہ بہت تھکا ہوا گھر لوٹا تھا۔ ڈھیلے ڈھالے قدموں سے چلتا ہوا اپنے بستر تک آیا اور اوندھے منہ گرگیا۔
”اف شکر خدا کا امتحانوں سے جان چھوٹی“۔ تکیے میں منہ دے کر اس نے زور سے آنکھیں میچ لیں۔

تھکن زدہ ذہن فوری نیند کی وادیوں میں کھوگیا۔ وادیاں بھی کہاں تھیں بھول بھلیاں سی تھیں۔ کبھی خود کو فزکس کے جنگلوں میں بھٹکتے دیکھتا تو کبھی کیمسٹری کے زینے سے لڑھکنے لگتا۔ کبھی انگریزی کی کال کوٹھڑی میں خود کو بند پاتا جہاں نکلنے کی کوئی جگہ نہ تھی۔ کبھی ہاتھ میں جو سوال نامہ نظر آتا اس پہ لکھی زبان سمجھ نہ آتی اور دیکھتے دیکھتے سارے الفاظ نکل کے سامنے ٹھمکنے لگتے۔ شاید ان کا رقص مزید جاری رہتا کہ پیٹ میں گدگدی ہونے لگی۔ پہلے تو نیند کی زیادتی سے سمجھ ہی نہیں آیا پھر دماغ کچھ ہوش میں آیا تو اندازہ ہوا کہ پیٹ کے نیچے کھسک آنے والا سیل فون وائبریٹ ہورہا ہے۔

موبائل فون اٹھایا ہی تھا، کھولنے کی بھی نوبت نہ آئی کہ باہر سے ابو کی آواز آگئی۔

”کہاں ہے یہ نالائق؟ بلاو زرا باہر۔ اس لیے پیدا کیا تھا اسے کہ آج یہ دن دیکھنے کو ملے“؟ سیل فون مسلسل وائبریٹ ہورہا تھا؛ وہ بھی کال کی وجہ سے نہیں، لگاتار آتے ٹیکسٹ میسجز کی وجہ سے۔ باہر سے ابو کی آواز کا حجم بھی غصے کے ساتھ ساتھ بلند ہورہا تھا۔ پہلے سوچا جا کر دیکھوں کہ ابو کیوں غصے میں ہیں پھر خیال آیا کہ ایک دفعہ ان کی ڈانٹ سننے میں لگ گیا تو موبائل دیکھنے کا موقع گھنٹوں بعد ملے گا۔ کیا پتا پہلے ہی سزا کے طور پہ ضبط ہوجائے، وہ بھی اس جرم کی سزا جو ابھی پتا بھی نہیں۔

اس نے پہ پہلا میسج چیک کیا۔ ”ابے تو تو مشہور ہوگیا۔ پارٹی دے۔“ اس نے بھنویں اچکا کر دوسرا میسج دیکھا۔
”اوئے کیا کر کے آ گیا۔ عزت ڈُبا دی یار“۔

اسے سمجھ نہیں آیا کے یہ لوگ کس حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ صبح سیدھا امتحانی مرکز گیا تھا اور وہاں سے واپس گھر۔ کیا وہ نیند میں کچھ الٹا سیدھا کر آیا؟ اسے کئی کہانیاں اور فلمیں یاد آگئیں جن میں اسی طرح بندہ اپنی زندگی کے کئی دن سرے سے بھول ہی جاتا ہے۔ اس نے گھبرا کے موبائل فون پہ وقت اور تاریخ دیکھی۔ جس کے مطابق اسے واپس آئے تین گھنٹے ہی ہوئے ہیں اور تاریخ بھی وہی ہے۔ اُس نے اگلا میسج دیکھا۔
”بادشاہو فیس بک تو چیک کر“۔
”ٹی وی چلا کے دیکھ بھائی، تو تو چھاگیا“۔ کئی اور میسجز بھی اسی قسم کے تھے۔

پھر ایک میسج پڑھ کے اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اس کی زندگی، جان سے پیاری فوزیہ عرف فوزی کا میسج تھا۔
”میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی تم ایسے نکلو گے آیندہ مجھ سے رابطے کی کوشش نہ کرنا“۔

اب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا؛ اس نے موبائل بند کر کے جیب میں ڈالا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ ابو ٹی وی لاونج میں تھے اور وہیں سےغصے کا پروگرام نشر ہورہا تھا۔ وہ کمرے میں داخل ہوا تو پتا چلا کہ سب ہی ٹی وی کے آگے گھیرا لگائے ہیں۔ اسے ٹی وہ تو نظر نہیں آیا مگر اینکر کی چیختی چنگھاڑتی آواز سنائی ضرور دے رہی تھی۔

”جی ناظرین یہی ہے وہ نوجوان جو دن کے اجالے میں وہ کرتا پکڑا گیا جو آج کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ طالب علم کا روپ دھارے، چہرے سے معصوم نظر آنے والا یہ لڑکا کیا کررہا ہے۔ ہمیں ابھی ابھی یہ فوٹیج موصول ہوا ہے۔ یہ ایکسکلوسیو فوٹیج سب سے پہلے جی ہاں سب سے پہلے ہمارے چینل سے نشر ہورہی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح دسیوں طلبا کی موجودگی میں ایک قابل احترام استاد کے سامنے یہ لڑکا دیدہ دلیری سے بغیر نقل کے خود پرچا حل کررہا ہے“۔

یہ سنتے سنتے وہ ٹی وہ کے قریب آ گیا۔ ٹی وی پہ کمرائے امتحان کا منظر چل رہا تھا، جس میں کسی موبائل سے بنی وڈیو میں وہ بیٹھا پرچا حل کرتا صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اردگرد کے طلبا کے سامنے موٹی موٹی گائیڈیں کھلی ہوئی تھیں۔ موبائل فونز پہ پرچے کے تصاویر لے کر بھیجی جارہی تھیں۔ کچھ طلبا فون کال ہی پہ سوال پوچھ پوچھ کے حل کررہے تھے اور ان کے بیچ وہ اکیلا بیٹھا بغیر کسی بیرونی مدد کے پرچا حل کرنے میں مگن تھا۔ انھی میں سے شاید کسی طالب علم نے اپنا پیپر چھوڑ کے اس کی وڈیو بنالی تھی اور نیوز چینل کو بھیج دی تھی۔

وہ پیچھے کھڑا شرمندگی سے سب دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں ابو کی نظر اس پہ پڑ گئی۔

”لو آگئے لاٹ صاحب، ہاتھ ہلاتے۔ پوچھو زرا اس سے۔ اس لیے اس کے استادوں کو پیسے کھلائے تھے۔ مٹھائیاں بھجوائی تھیں کہ یہ سارا پرچا خود لکھ کے آئے“۔

”ابو بالکل آسان تھا تو میں نے“۔ وہ شرمندگی سے منمنایا۔

”کیا مطلب آسان تھا؟ کتاب کھولی تھی کیا تم نے؟ آئی کہاں سے تمھارے پاس کتاب؟ کسی دن اسکول تو نہیں چلے گئے تھے“؟

”نہیں وہ! فیس بک پہ پوسٹس سے پتا چل گیا تھا“۔ اس نے سر جھکالیا۔

”شاباش۔ واہ۔ دیکھ رہی ہو بیگم لچھن اپنے لاڈلے کے؟ اب یہ فیس بک پہ وقت ضایع کرنے کی بجائے معلوماتی پوسٹس یاد رکھتے ہیں۔ کیا کرے گا یہ آگے جاکر؟ زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا یہ محترم پڑھ پڑھ کے پرچے دے رہے ہیں اب تک“۔

”بیٹا کچھ بہنوں ہی کا سوچ لیا ہوتا۔ جوان بہنیں ہیں، گھر میں۔ خبر چلتے ہی ناہید کی سسرال سے فون آ گیا، کہ اگر خبر سچ ہوئی تو ہم منگنی کی انگوٹھی واپس بھجوا دیں گے۔ ہم ایسے خاندان کی لڑکی گھر میں نہیں لاسکتے، جہاں کے لڑکے بغیر نقل کے پرچا کرکے آتے ہوں۔“ امی نے روایتی امیوں والی جذباتی گولا باری کی۔

”بھائی اب تو آپ کی تصویر کے میم بھی بن گئے ہیں۔ میں اسکول کیسے جاوں گا سب میرا مذاق اڑائیں گے“۔ اس سے دو سال چھوٹے بھائی زوہیب نے اپنا موبائل آگے کردیا جس پہ اس کی پرچا حل کرتے کی تصویر کے نیچے لکھا تھا۔
”ایک ہوتے ہیں احمق۔ ایک ہوتے ہیں اس سے بھی بڑے یعنی چغد، اور ایک ہوتے ہیں جو بغیر نقل پیپر کرتے ہیں“۔

ٹی وی اینکر نے کسی تجزیہ کار کو بلا لیا تھا۔ ”جی ذاکر صاحب آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں اس سے کیا اندازہ ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے کے نوجوان ایسا رویہ دکھانے پہ کیوں مجبور ہوئے“؟
”دیکھیں محترمہ، سارا مسئلہ حکومت پہ قابض تنظیم کا ہے۔ ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ان کی حکومت آئے گی تو معاملات خراب ہی ہوں گے۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ ملک کے مسائل سے مجبور ہو کر نوجوان نسل پرچا خود حل کرنے پہ مجبور ہوگئی ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو ہم دھرنا دینے پہ مجبور ہوجائیں گے“۔
اینکر نے بیچ میں ہی اس محترم کی بات کاٹ دی۔
”جی ہمارے ساتھ لائن پہ عینی شاہدین موجود ہیں، جنھوں نے اپنی آنکھوں سے یہ سانحہ ہوتے دیکھا“۔
کیمرا کٹ ہوا اور نیوز رپورٹر بہت سے طلبا کے بیچ میں گھرا نظر آیا، جو ایک دوسرے کو دھکیل دھکیل کے کیمرے میں آنے کی کوشش کررہے تھے۔

”جی محترمہ ہمارے ساتھ اس لڑکے کے ساتھ کمرائے امتحان میں موجود باقی طلبا ہیں اور وہ بہادر اور جانباز طالب علم بھی ہے جس نے کمال جرات کا مظاہرہ کر کے یہ اہم راز فاش کیا اور اپنے موبائل سے وڈیو بنائی۔ جی آپ بتایے کہ آپ کو ڈر نہیں لگا؟ اگر وہ آپ کو بھی کوئی سوال خود کرنے پہ مجبور کردیتا؟ آپ نے اتنی جرات کیسے دکھائی“؟
”مجھے پتا تھا کہ وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ میرے پاس ہونے کی سیٹنگ پہلے ہی ہوچکی ہے وہ کچھ بھی کر کے مجھے پرچے پہ کچھ لکھنے پہ مجبور نہیں کرسکتا تھا۔ مگر مجھے بہت دکھ ہوا یہ دیکھ کر کہ اتنے سارے طلاہ کے بیچ وہ اتنی دیدہ دلیری سے بغیر نقل کے پیپر کر رہا تھا“۔
”جی محترمہ آپ نے سنا یہ کہہ رہے ہیں بغیر نقل یعنی بالکل بغیر نقل۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ اس کہ پاس کوئی پھرا کوئی گائیڈ یا ہیڈ فون نہیں تھا اور وہ جو لکھ رہا تھا بغیر نقل کے لکھ رہا تھا“؟
”جی جی بالکل بغیر نقل لکھ رہا تھا آپ میرے ساتھیوں سے پوچھ سکتے ہیں“۔
اردگرد کھڑے سب طلبہ ہاں میں ہاں ملانے لگے۔

”محترمہ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ہم اس دیدہ دلیر لڑکے کے گھر کی گلی میں کھڑے ہیں اور اب سے کچھ لمحوں بعد ہم اس کے دروازے پہ ہوں گے۔ آج اسے قوم کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔ جس برق رفتاری سے وہ بغیر نقل جی ہاں بغیر نقل پرچا حل کررہا تھا اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ عادی ہے۔ افسوس ہے ایسے والدین پہ جنھیں یہ تک نہیں پتا ہوتا کہ ان کی اولاد کمرائے امتحان جیسی مقدس جگہ آکر یہ سب کچھ کرتی ہے“۔ رپورٹر مخصوص مشینی انداز میں ماجرا سنارہا تھا۔ ابو نے تاسف اور جتاتی نظروں سے اسے دیکھا۔

اسی وقت دروازے پہ بھونچال آ گیا۔ ٹی وی پہ اس کے گھر کا دروازہ نظر آرہا تھا جسے وہ لوگ دھڑدھڑا رہے تھے اور اندر شور سا مچ گیا تھا۔
”جاو جاو جاکر اور نام روشن کرو باپ کا۔ یہی کسر رہ گئی تھی کہ گھر تک چینل والے آجائیں وہ بھی اس لیے کیونکہ ہمارے سپوت نے بغیر نقل پرچا حل کیا ہے۔ بلکہ کرتے رہتے ہیں، اور سنو مجھ سے کسی مدد کی امید نہ رکھنا“۔
وہ بے جان ہوتے قدموں سے دروازے تک آیا۔ دروازہ کھولا ہی تھا کہ مائک اس کے منہ میں گھسیڑ دیا گیا۔

”کیا تمھی ہو جس نے بوڑھے باپ اور بیوہ ماں کی عزت کی لاج نہیں رکھی“۔
”جناب میری ماں بیوہ نہیں ہے“۔

”بات بدلنے کی کوشش مت کرو چالاک انسان تم ہماری نئی نسل کے ماتھے پہ کلنک کا ٹیکا ہو۔ تم نے نا صرف اپنے بوڑھے غریب باپ، بیوہ ماں، معذور بھائی اور پاگل بہن کی ہی عزت نہیں بلکہ پوری قوم کی عزت ڈبوئی ہے“۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے۔
”محترم میرے والد نہ غریب ہیں نہ ماں بیوہ ہے، نا بھائی معذور ہے نہ بہن پاگل“۔

”ناظرین آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس دیدہ دلیری سے یہ چالاک لڑکا  بات بدل کےعوام کی نظروں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہا ہے مگر آج ہم اس سے پوچھ کے رہیں گے کہ اس نے اتنا بڑا قدم کیسے اٹھایا۔ بتاو کیا تم نے نقل کے بغیر پرچا حل کیا ہے۔ کیا تم سوال کے جواب خود لکھتے ہو؟ کیا تم کتاب پڑھتے ہو“؟

اس کا سر جھک گیا۔ ”جی میں یہی نہیں سب پرچے بنا نقل کیے حل کرتا ہوں۔ مجھے بچپن ہی سے کتابیں پسند ہیں۔ میں گھر والوں سے چھپ چھپ کر اپنے کورس کی کتابیں امی کی الماری کی چابی چرا کر پڑھا کرتا تھا“۔
”ناظرین میرا اندازہ درست نکلا یہ لڑکا نا صرف بغیر نقل کیے پرچا دینے کا عادی ہے بلکہ کتاب پڑھنے جیسے قبیح فیل میں بھی مبتلا رہا ہے“۔ رپورٹر بولتے بولتے جذباتی ہوگیا اس نے مائک پھینک کے اسے بازو سے پکڑ کے جھنجھوڑنا شروع کردیا۔

”بتاو تم نے یہ کیوں کیا؟ کیا تم کسی ذہنی بیماری کا شکار ہو یا تم نے پڑوسی ملک سے یہ کرنے کے پیسے لیے ہیں۔ بتاو تمھیں آج بتانا پڑے گا بتاو؛ بولو۔ تم بول کیوں نہیں رہے عوام سچ سننا چاہتی ہے۔ بتاو بولو زبان کھولو“۔ نیوز رپورٹر اسے جھنجھوڑ رہا تھا اور آہستہ آہستہ اس کی آواز بدل کے زوہیب کی آواز جیسی ہوگئی۔

”اٹھیں۔ بتائیں۔ اٹھیں تو۔ بھائی۔۔۔۔۔ امی پوچھ رہی ہیں کھانا کھارہے ہیں یا نہیں“؟ اس کا ذہن ایک دم شعور میں آیا۔ پسینے سے جسم تر تھا۔ اس نے سکون کی سانس لی۔
”اف یہ سب خواب تھا“۔

آج پرچا حل کرتے ہوئے جب اس نے سب کو دیدہ دلیری سے نقل کرتے دیکھا تھا تو بس یونھی اس کے ذہن میں آگیا کہ جو یہاں کا احوال ہے کسی کو یہ بتانے کی بجائے کہ کھلی نقل ہورہی ہے یہ بتایا جائے کہ کسی ایک نے اپنی عقل سے پرچا حل کرلیا تو زیادہ بڑی بریکنگ نیوز بن جائے گی۔

اس نے سر جھٹکا۔ ان گائیڈوں کی مرہون منت ڈگریاں لینے والوں کی تعلیم کا جو احوال ہے وہی احوال ہمارے ملک کے نظام کا ہے۔ اس کا اب خدا ہی نگہبان۔ سوچنے کی بات ہے کہ اساتذہ کو بچوں کو پڑھانے کے زیادہ پیسے ملتے ہیں یا نہ پڑھانے کے؟ یا یہ بھی پڑوسی ملک کی سازش ہوگی۔ اس کے چہرے پہ ایک طنزیہ مسکراہٹ آگئی۔ وہ بستر سے اٹھ کر ڈھیلے قدموں منہ دھونے صحن میں نکل گیا۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima