کیا شادی کی خبر سب سے اہم معاملہ ہے؟


خبروں کے لیے چینل کھولا تو اصغر خان کے انتقال کی خبر ملی ایک بہت بڑے سیاست دان اور پاک فضائیہ کے کمانڈر انچیف، اور دنیائے اردو ادب میں غزل کے موجودہ بادشاہ رساء چغتائی نہیں رہے دماغ کو ایک شاک سا لگا کیونکہ ایک دن پہلے ہی زبیدہ آپا مشہور شیف اور ٹوٹکوں کی ماہر کے انتقال کی خبر سنی تھی دل سنبھلا بھی نہ تھا کہ یہ دو خبریں آگئیں۔ دماغ ماننے کو ہی تیار نہیں تھا کیونکہ رساءچغتائی کو دو ہفتے پہلے اردو کانفرنس کے مشاعرے میں سنا تھا۔ اسی دن ذرا تاخیر سے ٹی وی لگایا تو ہر چینل شادی شادی کی خبریں دے رہا تھا یعنی ہمارے ایک سیاسی لیڈر کی تیسری شادی کی خبریں وہ دن ہے اور آج کا دن ہر چینل شادی کی خبروں سے بھرا پڑا ہے۔ ہر گھنٹے کے بلیٹن میں شادی کیسے ہوئی، کب ہوئی، کون گواہ تھے، کوئی پیرنی ہیں، خلع لے لیا تھا تین ماہ پہلے، نہیں جی طلاق ہوئی تھی، کبھی جوان بیٹا بیان دے رہا ہے اب تو حد ہی ہوگئی سابق شوہر بھی بیوی کے گن گارہے ہیں اور ان کے مطابق طلاق دی تھی۔ تصاویر کے کلپس، گانوں کے ساتھ، مختلف لوگوں کے خیالات اس بارے میں غرض چینلز کو بیچنے کے لیے چورن مل گیا۔

اس وقت ملک کی سیاست، معیشت، تجارت، صنعت وحرفت، تعلیم، صحت، غربت، انصاف غرض ہر مسئلہ پس پشت چلا گیا اور سارے کے سارے ”بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ“ محاورے کی تفسیر بنے ہوئے ہیں۔ ایک سیاستدان شادی اس کا ذاتی مسئلہ ہے لیکن یہ مسئلہ چوراہوں، ہوٹلوں، ڈھابوں، محفلوں گلی محلوں اور سوشل میڈیا میں زیر بحث ہے۔ اب نیا بیانیہ کہ شادی نہیں کی شادی کی پیش کش کی ہے، کیا یہ شادی اتنا اہم اور ضروری مسئلہ ہے کہ تمام مسائل پس پشت چلے گئے ہیں۔ ایک جگہ سے تو اس قدر حتمی خبریں اس شادی کے بارے میں دی جارہی ہیں کہ دیکھ کر ہنسی آرہی ہے۔ کوئی خبر اہم نہیں کہ پشاور میں دفاع کونسل کا اجلاس ہوا اور صوبائی حکومت بھی شریک ہوئی دوسری طرف ہم امریکہ کو صفائیاں پیش کرتے پھر رہے ہین کہ ہم دہشت گردی کی جنگ میں ملوث نہیں ہم پر باہر سے حملہ ہوتا ہے۔

کراچی میں ڈاکو اور شہری دوبدو مقابلہ کر رہے ہیں لیکن اس میڈیا کو شادی کے موضوع نے پھڑکایا ہوا ہے۔ یہ ہمارے کٹھ پتلی میڈیا کا چلن ہے کہ معمولی اور غیر اہم واقعات کو اس قدر اچھالتے ہیں کہ وہ بچہ بچہ کی زبان پر آجاتے ہیں اور اہم خبریں اور واقعات ان کے پیچھے چھپ جاتے ہیں ۔ خبروں میں توازن اور شائستگی مفقود ہوچکی ہے، لچر پن اور اور بازاری زبان کا استعمال ہوگیا ہے۔ ریٹنگ کا مسئلہ ہے کہ کسی طرح بھی نمبر ون بن جائیں۔ اس شادی کی خبر کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے کیا ہوا چھوٹے معصوم بچے بھی خلع، طلاق اور شادی کا مطلب اپنے بڑوں سے پوچھ رہے ہیں۔ کوئی اخلاقیات کا پیمانہ ہے بھی یا نہیں۔ کوئی کوڈ آف کنڈیکٹ ہے بھی یا نہیں۔

ہمارے چاروں طرف اتنے مسائل پھیلے ہوئے ہیں اور ہم ان سے نظریں چرا کر غیر اہم خبروں کو اہمیت دے رہے ہیں، خدارا مہنگائی پر بات کرو، تعلیم کے شعبے میں انحطاط نظر نہیں آرہا اس پر خبر دو، دہشت گرد ہمارے چاروں طرف منصوبے بناتے پھر رہے ہیں ان کے سد باب کے لیے کیا کیا جارہا وہ بتاؤ۔ دنیا کہاں سے کہاں جارہی ہے اورہم ایک لیڈر کی شادی پر خبروں کو مرچ مسالہ لگا کر پیش کر رہے ہیں۔

شادی ایک بالکل ذاتی فعل ہے چونکہ یہ ایک اہم سیاستدان کی شادیوں کا سلسلہ تو موضوع بحث ہے لیکن کم از کم خبروں کے لیے کوئی ضابطہء اخلاق تو ہو اور ایسی خبریں میڈیا کی زینت بناتے وقت اس کا خیال رکھا جائے اور ایسے الفاظ کا انتخاب کیا جائے جو مہذب ہوں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ہر گھنٹے کے بلیٹن میں ایسی خبریں سر فہرست ہوں اور اور بار بار دہرائی جائیں۔ آپ اہم اور ضروری معاملات کو پس پشت ڈال اس طرح کی خبریں دے کر صحافت کی کونسی خدمت کر رہے ہیں۔ خدارا اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں یہ نہ ہو میڈیا کا ستون بھی ریت کی دیوار کی طرح ڈھ جائے کیونکہ اب عوام سمجھ دار ہوچکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).