خبردار جو کسی نے بلاول کی شادی کی خبر دی


ہمیں معتبر ذرائع سے یہ اطلاع ملی ہے کہ مستقبل میں بلاول بھٹو زرداری کی شادی ہو سکتی ہے۔ ایک طرف یہ خوشی ہے کہ پیپلز پارٹی کو خاتونِ اول مل جائے گی تو دوسری طرف یہ غم بھی ہے کہ اس شادی کو لے کر میڈیا خبث باطن کا مظاہرہ کرے گا اور ایک قومی لیڈر کی نجی زندگی میں بے وجہ کی دخل اندازی کرے گا۔ اس کی جتنا جی چاہے اتنی مذمت کی جانی چاہیے۔

چلیں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شادی کی پریس کوریج کے معاملے میں ہم میڈیا کی یہ تاویل مان لیتے ہیں کہ وہ جنرل ضیا الحق کے تاریک مارشل لا کا سیاہ دور تھا اور اس وقت پریس کو ڈکٹیٹر کے احکامات ماننے پڑتے تھے۔ اس لئے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شادی کی نہ صرف میڈیا میں بھرپور کوریج کی گئی بلکہ مختلف شہروں دیہاتوں میں جشن بھی منائے گئے۔ ظالم ڈکٹیٹر تو چاہتا ہی یہ تھا کہ اس وقت کی سب سے بڑی عوامی لیڈر کی نجی زندگی کو نجی نہ رہنے دیا جائے۔

مگر جب بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جب ایک خاتون کی تصویریں دکھا دکھا کر یہ دعوی کیا جانے لگا کہ وہ آصف علی زرداری کی بیگم ہیں اور ان کے پاس موجود ایک چھوٹے سے بچے کو آصف زرداری کا بچہ قرار دیا جانے لگا تو پھر بھی ہمیں نہایت افسوس ہوا کہ ایک سیاسی لیڈر کی نجی زندگی کو زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ ہمیں ٹھیک سے علم تو نہیں ہے مگر ہمیں یقین ہے کہ سیاسی لیڈر کی نجی زندگی کو زیر بحث لانے کے مخالف افراد نے اس وقت آصف زرداری کے ساتھ یہ سلوک کیے جانے کی بھرپور مذمت کی ہو گی۔ ظاہر ہے کہ کسی ثبوت کے بغیر ہی اس خاتون کو آصف زرداری کی بیوی بنا دینے پر تو سب باحیا حلقوں نے میڈیا کی خوب دھلائی کی ہو گی۔

اسی زمانے میں بلاول کے متعلق بھی میڈیا نے یہ من گھڑت خبریں دینی شروع کر دی تھیں کہ ان کا نہایت ہی رومانی تعلق ایک نہایت ہی شادی شدہ خاتون وزیر سے ہے۔ ظالم میڈیا نے اسے خوب اچھالا تھا اور ظالم میڈیا سے زیادہ اسے سوشل میڈیا کے سیاسی سیلوں نے اچھالا تھا۔ شکر ہے کہ اس وقت سیاسی لیڈروں کی نجی زندگی کے حق کے محافظین نے خم ٹھونک کر اپنے میڈیا سیلوں کی مخالفت کی تھی۔

میاں شہباز شریف کے معاملے میں بھی میڈیا نے نجی زندگی میں خوب مداخلت کی تھی۔ ان کے متعلق خاص طور پر سوشل میڈیا پر خوب خبریں چلی تھیں کہ ایک سرکاری افسر کی بیگم نے خلع لے کر میاں صاحب کو میاں بنا لیا ہے۔ خبریں چلنے لگیں کہ میاں صاحب نے بسا بسایا گھر تڑوا دیا ہے۔ اب یہ تو میاں صاحب کی قطعاً نجی زندگی ہے۔ میڈیا کو اس میں مداخلت کرنے پر معافی مانگنی چاہیے۔

ہمارے ایک مشہور کھلاڑی ہوتے ہیں۔ انہوں نے ایک مشہور کھلاڑن سے شادی کی تھی۔ اجی وہی کھلاڑن جس کی تصویر آپ کے دل پر ٹنگی ہے۔ شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی شادی پر تو پورا پاکستانی اور ہندوستانی میڈیا دیوانہ ہو گیا تھا۔ خاص طور پر پاکستانی میڈیا تو ایسے خبریں دے رہا تھا جیسے شعیب ملک پرتھوی راج سٹائل میں دہلی سے گھوڑے پر بٹھا کر سنجوگتا کو اڑا لائے ہوں۔ شکر ہے کہ اس وقت میڈیا کے اس رویے کی خوب مذمت کی گئی تھی کہ وہ دو افراد کی نجی زندگی میں مداخلت کر رہا ہے اور پورے برصغیر نے اس شادی کی خبریں دیکھنے سے انکار کر دیا تھا۔

ہمیں امید ہے کہ میڈیا آئندہ مشہور افراد کی ذاتی زندگی سے دور رہے گا اور ان کی خوشی غمی کی خبر دے کر ان کو پریشان کرنے سے گریز کرے گا۔ خبردار جو میڈیا نے بلاول بھٹو کی شادی کی خبر دی۔ بس وہ چپکے سے شادی کر لیں اور قاضی اور دو گواہوں کے سوا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ ہمیں یقین ہو چکا ہے کہ بلاول کے کروڑوں چاہنے والوں کی خوشی اسی میں ہے کہ ان کو بلاول کی شادی کی خبر نہ ملے اور اس خبر کا میڈیا پر مکمل بلیک آؤٹ کیا جائے۔ ہمیں یہ دلیل مت دیں کہ مشہور لوگوں کو اپنی شہرت کی قیمت چکانی پڑتی ہے اور خاص طور پر قوم کی راہنمائی کرنے کے خواہشمند امیدواروں کو خوب چھانا پھٹکا جاتا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar