ملتان کی شادی ہم جنسیت تو نہیں؟


سوچتا ہوں کیا محبت اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ وہ سوتن کا رشتہ بھی برداشت کر لیتی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک گھر میں دو بہنوں کے درمیان تو تو میں میں ہونا بھی لازمی امر ہے حالانکہ وہ ایک شخص کی نکاح میں بھی نہیں ہوتیںـ پھر اُن کے درمیان چپقلش کسی نہ کسی طور موجود رہتی ہےـ مگر ملتان میں انہونی ہو گئی جب ایک لڑکی نے اپنی سہیلی کو اپنے شوہر کے ساتھ بانٹ لیا اور گھر آئی ہوئی اپنی بچپن کی سہیلی اور کزن کو اپنے شوہر کے عقد میں دے دیاـ جس کے بعد اُنہوں نے ایک ساتھ رہنے کا عہد کر لیاـ ابھی تک تو دونوں سہلیاں موج مستی میں مصروف ہیں اور میڈیا کی بھی خوراک بن رہی ہیں۔ میڈیا کے لئے چائے والا کے بعد یہ ہاٹ نیوز اور ایشو بن گیا ہے۔ جو عمران خان کی تیسری شادی اور ٹرمپ کی ٹویٹ کی طرح چھایا ہوا ہے۔ گزشتہ روز تو اے آر وائی نے اس پر مکمل پروگرام کر لیا اور پروگرام میں دونوں لڑکیوں کو دُلہا کے ساتھ بٹھا کر شادی کی تمام رسومات ادا کیں۔

یہ سب دیکھنے کے بعد سوچنے پرمجبور ہوگیا کہ کیا محبت دو لڑکوں یا دو لڑکیوں کے درمیان اتنی زیادہ ہو سکتی ہے اور پھر دو ہم جنسوں کی محبت اتنی حاوی ہو جاتی ہے کہ اپنی سہیلی کو اپنے شوہر کی نکاح میں دے جاتی ہے۔ قوم لوط کی مثال تو ہمارے سامنے ہے اور یہ روایت ہمارے موجودہ دور میں دنیا بھر کی طرح پاکستان کے اکثریتی علاقوں میں موجود ہےـ جس پر لوگوں نے لڑکوں کی محبت میں اپنے جائیداد تباہ کر لئے ہیں اور اس پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے بہت سے علاقے اور افغانستان میں اس عادت میں لوگ مبتلا ہیں۔ مگر اب خواتین کے درمیان بھی محبت کی مثالیں سامنے آ رہی ہیں جس پر بات کرنے سے تردد سے کام لیا جاتا ہے۔ اور دونوں کاموں لڑکوں اور لڑکیوں کے آپس کے اختلاط کو معاشرے میں قبیح فعل کے زمرے میں ڈالا جاتا ہے۔ جس میں لڑکیوں کی ہم جنسی پرستی پر اتنی بات نہیں کی جاتی جبکہ مردوں پر بات کرنا عام ہے۔

اسے عرف عام میں Homosexuality کہا جاتا ہے۔ یہ مجموعی طور پر دو الفاظ سے مل کر بنا ہے جس میں ایک Homo جو کہ قدیم یونانی زبان کا لفظ ہے، اور اس کے معنی ہیں Same (یکساں)، جب کہ دوسرا لفظ Sexus کا تعلق لاطینی زبان سے ہے، جس کے معنی جنسی خواہش پوری کرنا ہے اور Homosexuality کا مطلب ہے کسی شخص کا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اپنی ہی صنف کے کسی فرد کی طرف جنسی میلان رکھنا اور اس کے ذریعے اپنی شہوانی خواہش کی تکمیل کرنا جس کو اردو میں ہم جنسیت ،ہم جنسی یا ہم جنس پرستی کے نام سے جانا جاتا ہےـ اگر مرد کا مرد کی جانب جنسی میلان ہو تو اسے Gay کہا جاتا ہے اور عمل کو Gayismکہاجاتا ہے جبکہ اگر یہ میلان عورت کا عورت کی جانب ہو تو یہ جنسی میلان Lesbian کہلاتا ہے۔ اسی طرح Bisexual اُسے کہا جاتا ہے جو خواہ وہ مرد ہو یا عورت جس کا مرد اور عورت دونوں کی طرف میلان ہو۔

مغربی دنیا میں اس بات پرزور دیا جاتا ہے کہ اگر دو افراد آپسی رضا مندی (Mutual Consent) سے ایک دوسرے سے جنسی لذت حاصل کررہے ہیں۔ تو اس میں کسی دوسرے کا کیا جاتا ہے؟ یہ رضا مندی دو الگ الگ صنفوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان بھی ہو سکتی ہے اور ایک ہی صنف کے دو افراد کے درمیان بھی ہوسکتی ہے۔ جس طرح کسی مرد اور عورت کے درمیان باہم رضامندی سے جنسی تعلق پر کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی اسے قابلِ تعزیر جرم سمجھا جاتا ہے، اسی طرح اس صورت میں بھی اس کی اجازت ہونی چاہیے، جب دو مرد یا دو عورتیں باہم رضامندی سے اس فعل کو انجام دیں۔ یہ سوچ اب ہمارے وطن عزیز میں بھی سرایت کر گئی ہے۔ جس کے واقعات وقتا فوقتا رونما ہوکر ہمارے معاشرے پر بدنما داغ کی صورت ہمارا منہ چڑاتی ہے۔

ملتان میں ہونے والا مذکورہ واقعہ بھی بظاہر ہم جنسیت کاشاخسانہ ہی لگتا ہے جس میں دو سہیلیاں یا کزن بچپن سے اتنی زیادہ آپس میں انوالو ہوجاتی ہیں کہ وہ ایک دن بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں رہ سکتیں اور یوں ایک کی شادی ہونے کے بعد دوسری پریشانی کا شکار ہو جاتی ہے اور پھر اپنی سہیلی کے گھر پہنچ جاتی ہے جہاں سے وہ واپسی نہیں کرتی اور اپنی سہیلی کے شوہر کے عقد میں آجاتی ہے۔ جس پر دوسری دلہن کے گھر والے پولیس میں اغوا کا رپورٹ درج کر لیتے ہیں۔ اور تب میڈیا کی زینت بن جاتی ہے اور اسے نئے نئے اینگل سے پیش کیا جاتا ہے۔

اب اس ساری کہانی کے پیچھے کون سی محبت ہے یہ سمجھنے سے کم از کم میری سوچ قاصر ہے اگر اس کے پیچھے ہم جنسیت کی شہوانیت کارفرما ہے تو یہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ اور اس قسم کے واقعات کی رونمائی نقصان دہ ہے جس سےاپنے ہی ہم جنس سے شہوانی لذت حاصل کرنے کی خواہش کو تقویت ملے گی جو کہ حقیقت میں فطرت سے جنگ ہو گی اور ایسی جنگ کا رودار ہمارا معاشرہ نہیں ہو سکتا ….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).