عمران خان جان دیو، ساڈھی واری آن دیو


جناب عمران خان کی محترمہ بشریٰ وٹو سےمبینہ شادی کی خبروں کو لے کر کے پرنٹ مڈیا سے الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا اور گلی محلوں تک وہی ٹھٹھے، وہی لطیفے، وہی ہرزہ سرائیاں ہوتی دکھائی دیتی ہیں، جو ہم برصغیر کے شہریوں کا شغل ہے، خاصہ ہے، وتیرہ ہے۔

اخباری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عمران خان نے خاور فرید مانیکا کی سابق اہلیہ بشریٰ جن کا تعلق وٹو خاندان سے ہے، نکاح کرلیا ہے۔ بظاہر تو اس میں کوئی عار نہیں۔ عمران خان ہوں یا بشریٰ، شادی کرنا ان کا حق ہے۔ اس میں خبر یہ ہے کہ جس کے بارے میں خبر ہے نہ وہ اس خبر کی تردید کرتے ہیں، نہ تائید۔ یوں افواہوں سے چٹخارے لینے والوں کی چاندی ہوئی۔

فن کار ہوں، کھلاڑی، سیاست دان، یا کوئی عوامی سطح کی شخصیت؛ عوام کو ان کی نجی زندگی سے دل چسپی رہتی ہے۔ تسلیم کہ سیاسی و ادبی لطائف کا اپنا مقام ہے؛ لطیف بات میں حسن ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ عوامی شخصیت کی نجی زندگی کے بارے میں جاننا دگر بات ہے، اس کی پیٹھ سے کپڑا ہٹا کے کوڑے لگانا دگر چیز است۔

یادش بہ خیر! سوشل میڈیا کو کسی نے گٹر سے تشبیہہ دی تھی۔ ایسا کہنے والے کو ہم نے آڑے ہاتھوں لیا تھا، لیکن دیکھا جائے تو ایسے کئی مواقع پر سوشل میڈیا گٹر بن کے رہ جاتا ہے۔ ان افواہوں یا خبروں نے عمران خان کے حریفوں کے لیے میدان تیار کردیا۔ جیسی زبان عمران خان اور ان کی حامی اپنے سیاسی حریفوں کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں، ویسے ہی تیر و نشتر ان کی طرف لوٹ کے آئے۔ صد حیف!

ہم پاک و ہند کے لوگ شخصیت پرستی کے ایسے خوگر ہیں، کہ اصول بھی کچھ ہوتے ہیں، ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا؛ معلوم بھی پڑجائے تو دانستہ فراموش کردیتے ہیں۔ ہمارے لیے سب کچھ ”شخصیت“ ہے۔ ہر کوئی جسے چاہتا ہے، اسے مقدس شال اوڑھا دیتا۔ اپنی محبوب شخصیت کی ذات سے ایسے ایسے کارنامے منسوب کردیتا ہے، کہ ولی کہے بنا چارہ نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ جب کسی پر تنقید کرتے ہیں، تو اصول کہیں مٹی میں پڑے رُلتے رہتے ہیں۔ ہمارا مقصد ہوتا ہے کہ مخالف کے پیر کو کذاب ثابت کردیا جائے، تاکہ اپنا پیر حق دکھائی دینے لگے۔ مکرر ارشاد ہے، کہ اگر عمران خان نے شادی کی بھی ہے، تو یہ ان کا حق ہے۔ شادی کرنے پہ مذاق اُڑانا، تضحیک کرنا، یہ رذیل حرکت ہے۔ عوام کو بہت دل چسپی ہے، تو عوامی رہنما کا اپنی شادی خفیہ رکھنے کے سوال پر بحث ہوسکتی ہے؛ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان یوں بھی مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ سیاست دان کو عوام سے کچھ نہیں چھپانا چاہیے۔ کاروبار ہو، شادی، یا تعلق؛ یہ خفیہ ہوں تو سوالیہ نشان لگ جانا فطری بات ہے۔

پھر وہ بھی ہیں، جو کہتے ہیں اس معاشرے میں عورت کو مقام نہیں دیا جاتا، جس کی حق دار ہے۔ ان کے موقف کو دیکھا جائے تو کچھ یوں تصویر بنتی ہے، کہ عمران خان مرد ہے، ان کے لیے تو جو مرضی کہو، لیکن آنسہ بشری کو عورت ہونے کی وجہ سے کچھ کہنا دراصل عورت کی تذلیل ہے۔ ایسوں سے یہ پوچھنے کو جی کرتا ہے، کہ عمران خان کی تذلیل، مرد کی تذلیل کیوں نہیں کہلاتی؟ مرد ہو یا عورت ان کے مساوی حقوق، مساوی مقام سے انکار نہیں، لیکن یہاں ان کا مطالبہ عورت کو مرد سے افضل قرار دینے کا دکھائی دیتا ہے۔ مجھے لگتا ہے ہر مقام، جا بے جا، حقوق نسواں کا علم اٹھائے چلے آنا بھی نسوانیت کی تذلیل کروانے جیسا ہے۔ بہرحال اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہمارا معاشرہ گٹر نہیں بھی ہے تو اس سماج کو گٹر کی بدبو سے نہایت رغبت ہے۔ ”عمران خان جان دیو، ساڈھی واری آن دیو“ کہنے والے انتظار کریں، آج عمران خان کے مخالف شادیانے بجائیں، کل ان کی اور ان کے رہنما کی باری ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran