پاک سر زمین پر غربت کی کھاد اور خود کشی کی فصل


یہ واقعہ کچھ پرانا ہے لیکن چونکہ پاکستان میں بھوک کبھی پرانی نہیں ہوتی لہذا یہ بات بھی نئی ہی سمجھیے کہ جب ستمبر 2013 میں پنجاب کے ضلح میلسی کےعلاقہ میں رہنے والی پانچ کنواری سگی بہنوں نے دریائے ستلج میں کود کر خود کشی کر لی۔ انہوں نے یہ قدم اپنے غریب مزدور باپ بشیر احمد سے جھڑپ کے بعد اٹھایا۔ یہ سب لڑکیاں شادی کی عمروں میں تھیں۔ تاہم ان کے گھر کی چوکھٹ اور بارات کی شہنائی کے بیچ غربت کی موٹی سی دیوار حائل تھی۔

اس سے ملتا جلتا واقعہ لاہور کی عالیہ کا ہے۔ جس نے مارچ 2012 کو پنکھے سے لٹک کر جان دے دی۔ 28 سالہ عالیہ کی شادی طے تھی۔ اور رخصت کے دن قریب تھے۔ لیکن اس سے اپنے مجبور غریب بوڑھے باپ کی سخت مشقت نہ برداشت ہو سکی جو وہ اس کی شادی کے سلسلے میں کر رہا تھا۔ وہ ایک مزدور تھا۔

ایک اور دل خراش واقعہ ہے۔ سندھ کے رہنے والے بیروزگار تیس سالہ مزدور نے اسلام آباد پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے خود پر تیل چھڑک کر اپنے آپ کو نذرِ آتش کر دیا۔ اس کا نام والدین نے راجہ خان رکھا تھا۔ وہ پورے دس سال کے انتظار کے بعد پیدا ہوا تھا اور بہت لاڈلا تھا۔ راجہ اس امید پر اسلام آباد آیا تھا کہ عوامی حکومت کے نمائندے آصف علی زرداری ان کو نوکری دیں گے کیونکہ اس نے الیکشن میں ان کی پارٹی کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ پولیس کے مطابق مرنے کے بعد ملنے والے نوٹ میں راجہ نے لکھا تھا کہ وہ غربت سے تھک چکا ہے۔ اگر حکومت اس کے گھر والوں کی دیکھ بھال اس کے مرنے کے بعد کرے تو اس کو سکون مل جائے گا۔ جس کا خیال انتظامیہ نے اس کی زندگی میں نہیں کیا۔۔۔ عین اس وقت جب راجہ کو دفنایا جا رہا تھا، اس کی بیوی نے تیسرے بچے کو جنم دیا۔

اسی طرح فیکٹری مزدور آصف نے بھی 2010 میں اپنے تین بیٹوں اور بیوی سمیت خود کشی کر لی۔ مرنے کے بعد اس کے ہاتھ سے لکھا یہ نوٹ نکلا میں ان تمام پانچ اموات کا ذمہ دار ہوں۔ میں غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں یہ کرنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔ اگر ہو سکے تو میری ماں مجھے اور میری بیوی کو معاف کر دے۔

اگرچہ بڑھتی ہوئی خود کشی کی شرح ایک عالمگیر مسئلہ ہے لیکن گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں اس کی تعداد خطرناک حد سے تجاوز کرچکی ہے۔ اگر دنیا میں سالانہ دس لاکھ افراد خود کشی کرتے ہیں جو 2020 میں پندرہ لاکھ متوقع ہے۔ پاکستان میں ہونے والی آغا خان یونیورسٹی کی ریسرچ (2010 ) کے مطابق یہ تعداد سالانہ چھ ہزار سے آٹھ ہزار ہے۔ (2015 میں بھی یہی تناسب برقرار رہا) یہ تناسب ہمیں دعوتِ فکر دیتا ہے کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں کہ جہاں مذہبی تعلیمات کے مطابق خود کشی حرام موت قرار دی جاتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ یہ تعداد اس حد تک پہنچ چکی ہے۔ مشہور جرمن فلاسفر شوپنہار کا کہنا ہے۔ جب زندگی کے عذاب موت کے عذابوں سے تجاوز کر لیتے ہیں تو انسان خود کشی کر لیتے ہیں۔ اس طرح خود کشی ایک پیچیدہ عمل ہے جس کے وقوع پذیر ہونے میں نفسیاتی، جینیاتی، حیاتی اور ماحولیاتی عوامل کے علاوہ سماجی، معاشی اور ثقافتی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ اپنی جان لینے کا انتہائی قدم، انتہائی فرسٹریشن اور مایوس کن ذہنی کیفیت میں اس وقت ہوتا ہے۔ کہ جب کوئی انسان اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کو شدت سے محسوس کرتا ہے۔ ٰاور ان لمحات میں وہ دنیا کے افراد سے تعلق کو یا تو بہت کمزور یا تقریبا لاتعلق اور خود کو شدید تنہا محسوس کرتا ہے.

یوں تو نفسیاتی مسائل، منشیات رومانوی یا نفسیاتی مسائل بھی خود کشی کی اہم وجوہات ہیں۔ لیکن غربت کا خود کشی سےخاصا گہرا سمبندھ رہا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ کئی برس سے معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ جس کا براہ راست اثر مہنگائی اور افراط زر کی بڑھتی شرح ہے۔ جس نے غریب طبقہ کی کمر توڑ دی ہے۔ لہذا ریجنل ڈائریکٹریس آف منسٹری آف لا، جسٹس اینڈ ہیومین رائٹس کے مطابق پچاس فیصد خود کشیاں غربت اور معاشی بدحالی کا نتیجہ ہیں۔

پاکستان تقریبا بیس کروڑ کی آبادی کی وجہ سے اس وقت دنیا کے چھٹے نمبر پر فائز ہے۔ اور اس کا شمار اس وقت دنیا کے ان 43ممالک میں ہوتا ہے۔ جو غربت کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ جہاں افراط زر کی شرح 12 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور کھانے پینے کی اشیا کے دام آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ غذائی اشیا تو ہیں لیکن ان کو خریدنے کی سکت نہ ہونے کی وجہ سے غربت کا رقص ہے۔ جس کا نتیجہ خود کشیوں کی بڑھتی شرح سے ظاہر ہے۔ غربت کے باعث جسم کے اعضا اور خون کی تھیلیاں فروخت کرنے سے بات بڑھ کر اپنی اولادوں کو فروخت کرنے اور اس سے بھی زیادہ اجتماعی خود کشیوں کی صورت ہے کہ جہاں والدین اپنے ساتھ اپنے بچوں کو بھی موت کی چادر اوڑھا کر سکون کی نیند سو جاتے ہیں۔ جو مایوسی کی بدترین شکل ہے۔ اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے اس ملک میں غربت کے ہاتھوں خود کشی کا تناسب دوسرے اسلامی ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

خود کشی کا عمل پیچیدہ صورتحال کا نتیجہ ہے تو اس سے بچاؤ کا طریقہ بھی اتنا ہی گھمبیر ہے۔ ہمیں سر جوڑ کر ان تمام عوامل کا جائزہ لینا ہو گا۔ جو خود کشی کے ارتکاب کا سبب بنتے ہیں۔ جن میں وسائل کی کمی، ثقافت اور روایات کا اثر،سیاسی ابتری، سماجی اور معاشی حالات و غیرہ شامل ہیں۔ ملکی سطح پر پلاننگ کمیٹی کی تشکیل کے بعد ان درج بالا مسائل پہ عبادت کی طرح کام کرنا ہو گا۔ اگر آج اس معاملے کو ہاتھ میں نہیں لیا گیا تو اگلا قدم خانہ جنگی ہی نظر آتا ہے۔ پاکستانی حکومت کو دوسرے ممالک سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ پانی بالکل ہی سرسے اونچا ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).