میکسیکو شیطان کے اتنا قریب کیوں ہے


ایک دفعہ میکسیکو کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے دیواروں پر ہسپانوی زبان میں لکھی ایک عبارت متواتر نظروں سے گزری تو تجسس بڑھ گیا، ترجمہ پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہ ایک شکوہ ہے کہ میکسیکو خدا سے اتنا دور اور شیطان کے اتنا نزدیک کیوں واقع ہے۔ بہ الفاظ دیگر میکسیکو والے سمجھتے ہیں کہ ان کی تمام مشکلات سر زمین مقدس یعنی یروشلم اور فلسطین سے دوری اور امریکہ کے نزدیک ہونے کی وجہ سے ہیں۔ کچھ ایسا ہی تاثر گیارہ ستمبر کے واقعات سے پہلے جاپان میں بھی دیکھا جب تفریح گاہوں میں سکول کے بچے ہمارے دوست خالد رسول کے ارد گرد جمع ہوتے تھے اور تصویریں بنواتے ہوئے خوشی اور مسرت سے چیختے چلاتے تھے۔ خالد رسول بھی اپنے بڑے بھائی کی قمیص اور چھوٹے بھائی کے پاجامے میں ملبوس سر پر عمامہ شریف سجائے بغیر مونچھوں کے چہرے پر بلا روک ٹوک بڑھی داڑھی کے ساتھ ان بچوں کے اپنے ساتھ تصویریں کھینچوانے پر بالکل بھی معترض نہیں ہوتے تھے۔

مجھے، راحیلہ درانی اور رحیم چنگیزی کو ملاّخالد سے حسد کچھ زیادہ ہی ہو گیا اور اس دلداری کی وجہ معلوم کرنا چاہی تو پتہ چلا کہ جاپانی ایسے لوگوں سے مل کر بہت خوش ہوتے ہیں جو امریکہ سے نہیں ڈرتے ہیں۔ اس وقت افغانستان میں مجاہد ملاّ عمر کی سرکردگی میں بامیان کے بت توڑ کر جہاد کا اعلان ہوا تھا اور ایمان کی قوت سے روس کے بعد امریکہ کو سرنگوں کرنے کے عزم کا چرچا عام تھا۔ ہمارے خالد رسول سے بھی اس حلیے میں ملّا عمر کا بھائی نہیں تو کم از کم دور پار کا کزن فرض کرکے ہی سہی اظہار عقیدت کیا جارہا تھا۔ زبان تو ان کی سمجھ نہیں سکے مگر ان کے چہرے کے تاثرات سے صاف نظر آرہا تھا کہ وہ بھی اپنی حکومتوں کو بڑی بے غیرت سمجھتے تھے جنھوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب تک امریکی فوجوں کو یہاں رہنے کی اجازت دے رکھی تھی جن کے ہاتھوں ایک مفتوح علاقے کی طرح ان کی قومی حمیت تاراج ہورہی تھی۔

خیر باقی کا نہیں پتہ مگر ہمں جاپان میں اپنے دوست کی اہمیت کا پتہ چل گیا تھا اور ہم نے اس کا دامن تھامے رکھا جہاں گئے جاپانیوں نے اپنے سروں کو کچھ زیادہ ہی جھکا کا کر اس کی وجہ سے ہمارا بھی خوب سواگت کیا۔ جاپان میں ہمارے امریکی دوست رینڈی گزشتہ کئی سالوں سے مقیم تھے جن کی جاپانی بیوی سے تین بچے ہونے کے باوجود انھیں یہاں کی شہریت یا مستقل رہائش کی اجازت نہیں دی گئی تھی وہ بھی خالد رسول کے لئے جاپانیوں کی پسندیدگی دیکھ کر چہرے کی حجامت مونچھوں تک محدود رکھنے کا مشورہ کرنے لگے۔

ہم بھی اس بات پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں کہ ہماری بھی ساری مشکلات صرف امریکہ کی وجہ سے ہیں۔ امریکہ کی تاریخ اور جغرافیہ سے ہم بھلے واقف نہ ہوں مگر ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ وہ ایک سازشی، مسلمانوں اور اسلام کا ازلی دشمن، لالچی، مطلبی اور خود غرض ملک ہے۔ جوانی میں انقلابی سوشلسٹ تحریکوں میں وابستگی کے دوران ہر فکری نشست میں امریکہ کا تعارف بطور عالمی سامراج کے سرخیل کے ہوتا تھا جو اپنے معاشی مفادات کے لئے دنیا بھر میں ہونے والی جنگوں کا ذمہ دار ہے اور دنیا کے تمام ملکوں میں حکومتوں کوبر سر اقتدار لانے اور معزول کرنے کے پیچھے امریکہ کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔

امریکی ویزے کے لئے لائن میں میرے دوست خالد رسول کی شکل و شباہت والی ایک پوری ٹولی بھی کھڑکی کے سامنے کھڑی تھی۔ جب ان کا نمبر آیا تو کھڑکی کے اندر سے ایک افسر نے کہا کہ باری باری ہر آدمی کے بجائے صرف ایک آدمی سب کے پاسپورٹ اور دیگرتفصیلات جمع کرکے ان کو دیدے تاکہ سب کا ویزہ لگایا جا سکے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی اس پورے گروپ نے ویزے کے لئے لگی قطاروں کے بیچ میں ہی ایک دائرہ بنا ڈالا اور اپنی اپنی جیبوں سے درکارکاغذات نکال کر اپنے امیر کے حوالے کر دیے جو کھڑکی کے اندر ویزا افسر تک پہنچا دیے گئے۔ میں نے بعد میں معلوم کیا تو پتہ چلا کہ یہ جماعت بغرض تبلیغ امریکہ جارہی تھی۔ میرے ذہن میں ایک طرف مسجدوں کے لاوڈ سپیکروں سے اٹھتی امریکہ کے خلاف تقریریں، امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ اور سڑکوں پر جلتے ٹائر اور گاڑیوں کے ٹوٹے شیشے تھے جو ہمارے مذہبی طبقات کی امریکہ دشمنی کی پہچان بن گئے ہیں۔ مگر یہاں جس انداز میں اس تبلیغی جماعت کی آؤ بھگت ہوئی وہ میرے لئے ناقابل فہم تھی۔

امریکہ جاکر معلوم ہوا کہ دین بہت تیزی سے نہ صرف وہاں پھیل رہا ہے بلکہ امریکی مسلمانوں کی دریادلی کی بدولت پوری دنیا میں دین کی ترویج دن دوگنی اور رات چگنی ممکن ہو پائی ہے۔ اس وقت صرف ایک نیو یارک سے شہر سے ایک درجن کے قریب اردو روزنامے شائع ہوتے تھے جو بغیر کسی ہدیے کے قارئین تک پہنچا دیے جاتے تھے۔ ماتمی مجلس ہو یا تبلیغی اجتماع یہاں بلا خوف و خطر منعقد کیے جاتے ہیں۔ گیارہ ستمبر کے بعد فرق اتنا پڑا ہے کہ اب کھلے عام چندہ جمع کرنے اور اس کی ترسیل کی اجازت نہیں مگر ہنڈی جیسی دیسی ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے یہ بھی باعث تفکر نہیں۔

جاپانی بھی بڑی تعداد میں یہاں پائے جاتے ہیں جن سے بات کرکے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ امریکہ کو بطور ایک آزاد معشیت کے اپنے لئے بہتر سمجھتے ہیں جہاں ان کے بچے نسبتاً اچھے سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان کو رہائش اور گھومنے پھرنے کے زیادہ اچھے مواقع میسر ہیں۔ امریکہ جاپانی مصنوعات کی ایک بہترین منڈی ہے جس کی سڑکوں پر گاڑیاں، گھروں میں ائیر کنڈیشنڈ، فریج اور ٹیلی ویژن سب جاپان سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ جاپانی امریکیوں سے شادی کرکے بہ آسانی شہریت لے لیتے ہیں حالانکہ ان کو بغیر شہریت کے بھی امریکہ آنے جانے میں کوئی دقت بھی نہیں۔

امریکہ اور میکسیکو کے درمیان بحیرہ اوقیانوس سے بحیر الکاہل تک پھیلی ہزاروں میل لمبی سرحد جو دریاوں، صحراوں، جنگلوں اور شہری علاقوں کے علاوہ خلیج میکسیکو کے ساحل سے گزرتی ہے جو دنیا میں تعداد کے حساب قانونی طریقے سے عبور کرنے والوں کی سب سے بڑی سرحد ہے۔ اس کے علاوہ میکسیکو میں کہاوت ہے کہ جو زندگی سے تنگ آتا ہے وہ اس سرحد کو غیر قانونی طور عبور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر بچ کر نکل گیا تو امریکہ پہنچ کر کچھ نہ کچھ کر لیتا ہے وگرنہ مرنا تو اس نے ویسے بھی تھا۔ غیر قانونی طریقے سے سرحد عبور کرکے لاکھوں کی تعداد میں امریکہ پہنچ جاتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ دریاوں، پہاڑوں اور جنگلوں میں بھٹک کر مر جاتے ہیں یا سرحدی محافظوں کے ہاتھوں مار ے جاتے ہیں۔

براعظم شمالی امریکہ کا ملک ریاستہائے متحدہ امریکہ اٹھارویں صدی تک خود برطانوی نو آبادیاتی نظام کے اندر جکڑا ہوا تھا اور اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا۔ یہ جنگ اس خطے میں آکر آباد ہونے والے برطانوی اور دیگر یورپی ممالک کے لوگ اپنے ہم نسل و مذہب سے اپنی آزادی کے لئے لڑ رہے تھے۔ اپنے بنیادی حقوق اور شہری آزادی کے لئے لڑی جانے والی جنگ جیت کر پناہ گزینوں اور مہاجرین نے اتنی ترقی کی کہ آج ان کے آبائی وطن میں رہ جانے والے شرفأ اور امراء ان کے اشاروں پر چلتے ہیں۔

بیسویں صدی میں امریکہ دینا کی واحد سپر پاور کے طور پر ابھرا کیونکہ دوسری جنگ عظیم میں برطانوی اتحاد کو تگنی کا ناچ نچانے والا جاپان بھی امریکہ کے ہاتھوں ہی دھول چاٹنے پر مجبور ہوا اور روس کے حصے بخرے بھی امریکہ کے ہاتھوں ہوئے۔ امریکہ کایہ بھی دعویٰ ہے کہ روس کے بکھر جانے کے بعد اٹھنے والے اسلامی شدت پسندی کے طوفان سے بھی اسی نے دنیا کو نجات دلائی ہے۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ یورپ اور ایشیائی ممالک آج چین کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو روکنے کے لئے بھی امریکہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

امریکہ کی سفید فام آبادی سے تعلق رکھنے والے ایک خاص طبقے کا خیال یہ ہے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کو اب ایک محفوظ جزیرے کی طرح ہونا چاہیے جہاں کے رہنے والے باقی دنیا سے بہتر زندگی سے لطف اندوز ہو سکیں جس کو وہ امریکی خواب کہتے ہیں جو امریکہ میں پیدا ہونے والوں کا حق ہے۔ ایسے امریکیوں کے نزدیک سیاہ فام نسل سے تعلق رکھنے والے بارک حسین اوباما کا امریکہ کا صدر بننا ان کی شکست کے مترادف تھا۔ اس شکست کا بدلہ ایسے سفید فام امریکیوں نے ڈانلڈ ٹرمپ کو امریکہ کا صدر منتخب کرکے لیا۔ ڈانلڈ ٹرمپ نے اپنے صدر بننے سے پہلے ہی اپنے ہم نسل اہل وطن کو یہ یقین دلایا تھا کہ وہ جاپان کی معاشی برتری، میکسیکو سے مزدوروں اور غیر قانونی تارکین وطن کی آمد اور پاکستان جیسے ممالک سے درپیش اسلامی بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے مسائل کا تدارک کرے گا۔ اس کے لئے اس نے جہاں جاپان کی برتری کو روکنے کے لئے پہلے امریکہ کا نعرہ لگایا تو وہاں میکسیکو اور امریکہ کے درمیان ہزاروں میل لمبی سرحد پر دیوار امریکہ تعمیر کرنے کا وعدہ کیا اور پاکستان سمیت دیگر ایسے ممالک سے لوگوں کا امریکہ آنے پر مکمل پابندی کی یقین دہانی کرا دی۔

امریکی معیشت کے اپنے زمینی حقائق بھی بڑے دلچسپ ہیں۔ یہاں مزدوروں کی اجرت اور سماجی تحفظ کے اعلیٰ معیار کی وجہ سے صنعتی پیداوار اب درآمد کرنازیادہ فائدہ مند ہے۔ جاپان اور چین کی صنعتی پیداوار امریکی معیشت کا لازمی حصہ اس لئے بھی ہے کہ اس میں امریکی سرمایہ کاری ہے جس کی وجہ سے امریکی معیشت کا پہیہ چلتا ہے۔ غیر قانونی طور پر میکسیکو سے آنے والے مزدور امریکی شہریوں کی نسبت سستے ہوتے ہیں جو یہاں صنعتی اور غیر صنعتی شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ اگر میکسیکو سے غیر قانونی تارکین وطن کی آمد رک جائے تو امریکہ میں گھریلو کام کاج سے لے کر کھیت اور صنعتوں میں کام رک جائے گا اور ایک بحران پیدا ہوجائے گا۔ امریکہ کی چودھراہٹ اور برتری اس کی دفاعی صنعت میں ہے جس کے خریدار زیادہ تر آپس میں بر سر پیکار تیسری دنیا اور مسلمان ملک ہیں۔ پاکستان، ترکی، سعودی عرب، کویت، مصر، اعراق سمیت ایک کثیر تعداد میں مسلمان ممالک امریکی دفاعی ساز و سامان کے خریدار ہیں۔ امریکہ جب تک افغانستان میں موجود ہے اس کی مجبوری ہے کہ وہ پاکستان کی سرزمین اپنے دفاعی اور غیر دفاعی سازو سامان کی ترسیل کے لئے استعمال کرے۔

جہاں ریاستہائے متحدہ امریکہ کو دنیا میں اپنی چودھراہٹ کے بھرم کو برقرار رکھنے کے لئے جاپان جیسی معاشی طاقت، میکسیکو جیسے غریب ہمسائے اور پاکستان جیسے چالاک ملک کے نخرے برداشت کرنے ہوں گے وہاں ان ممالک کی بھی مجبوری ہے کہ وہ امریکہ کی جلی کٹی کو سن لیں اور برداشت کریں کیونکہ یہاں رشتہ مہر و محبت کا نہیں جس کا تقاضا وفا ہو یہاں سوال بقا کا ہے جس کا دارومدار ایک دوسرے پر ہے۔ ایسی ہی مجبوری کو فارسی میں کہتے ہیں نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan