ہمارا آسمان سرخ کیسے ہوا؟


آج صبح ایک ناشتے کی دکان کے بورڈ پر نظر پڑی، لکھا تھا ’’پین دی سر ی پائے‘‘۔ نام رکھنے والے کے تخلیقی وفورکی داد اپنی جگہ مگر قومی مکالمے کی سطح کو بھی ’سراہنا‘ پڑے گا، جہاں سے یہ نام اخذ کیا گیا ہے۔ بدزبانی کا معاملہ بھی ’حادثہ‘ کی طرح ایک دم نہیں ہوتا، وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔

آغاز میں تو یہ بدزبانی ہمارا مسئلہ ہی نہیں تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو وہ پہلے قومی سیاست دان تھے جو نسبتاً جارحانہ زبان استعمال کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کے حامی اُن کے اس طرز گفتار کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کیونکہ وہ پہلے قومی سیاستدان تھے جنہیں براہ راست عام انتخابات اور عوام سے واسطہ پڑا تھا اس لئے وہ عوامی سیاست کر تے تھے اور عوامی زبان استعمال کر تے تھے۔

بھٹو صاحب کے بعد عمران خان وہ قومی راہ نما ہیں جو اپنے درشت لہجے کے باعث تنقید کا نشانہ بنتے ہیں اور ان کے سیاسی مخالفین انہیں پاکستان میں ’اوئے تو ئے ‘ کی سیاست کا امام قرار دیتے ہیں۔ اور پھر یکبارگی خادم حسین رضوی طلوع ہوتے ہیں اور اپنی گل افشانی گفتار سے چند دنوں میں ہماری سیاسی لغت کو اس قدر مالامال کر دیتے ہیں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اپنے سیاسی و مسلکی مخالفین کے لئے ’خنزیر ‘ اور ’دلّے ‘ جیسے جواہر استعمال کر تے ہیں اور اُن کے معتقدین انہیں ’سبحان اللہ‘ کہہ کر داد دیتے ہیں۔

ٹی وی مذاکروں کی رونق بھی اسی طرزکی رنگین بیانی ہے۔ پھیپھڑوں کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے، شرکأ کا بس نہیں چلتا کہ مخالفین کی محرمات کے فضائل بیان کریں۔

کیا یہ سب عدم برداشت کے شاخسانے ہیں؟ کیا ہم بطور معاشرہ عدم برداشت کے مریض بن چکے ہیں؟ ہم ایسے تو نہیں تھے۔

اور آج ہم جس عدم برداشت کا ماتم کر رہے ہیں وہ فقط سیاست و صحافت کے شعبوں تک محدود نہیں ہے بلکہ تمام معاشر ے کو اپنے پنجوں میں جکڑ چکی ہے۔ حتیٰ کہ عدالتی فیصلو ں کی زبان بھی غیظ و غضب کی غماز ہے۔ ہماری 70سالہ عدالتی تاریخ کے کئی فیصلے متنازع ٹھہر ے مگر آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ کسی جج کے فیصلے کی زبان متنازع ٹھہری ہو۔ ہمہ گیر زوال شاید اسی کو کہتے ہیں۔ کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلیس یا جسٹس محمد رستم کیانی اپنے فیصلوں میں ایسی ’لطیف ‘ زبان استعمال کرتے۔

پھر طر فہ ستم یہ ہے کہ یہ تضحیک آمیز زبان عدالت اپنے زبانی ریمارکس میں استعمال نہیں کرتی بلکہ اپنے تحریری فیصلے میں کرتی ہے، یعنی اس کے دفاع میں فوری اشتعال (Sudden Provocation) کی دلیل بھی نہیں پیش کی جا سکتی۔

یہ عدم برداشت کی انتہائی شکل ہے۔ ہم نے 70سال ریاستی سطح پر عدم برداشت کو فروغ دیا ہے اور آخر کار اس عفریت نے سارے معاشر ے کو اپنی گرفت میں جکڑ لیا ہے۔ شہر کا کیا حال ہے، پوچھو خبر۔ آسمان کیوں لال ہے، پوچھو خبر۔

ہمارے بنیادی مسائل ایک مدت سے جوں کے توں ہیں۔ اور ہم نت نئے، خود آفریدہ مسائل سے نمٹنے میں اپنی توانائیاں ضائع کر رہے ہیں۔ ہم نے کئی سال کی غفلت سے کراچی کی دہشت گردی اور ملک میں توانائی کا بحران پیدا کیا۔ پھر برس ہا برس کی کوشش سے ان مسائل پر بڑی حد تک قابو پایا، اور آج پھر وہی صورت حال ہے۔ آج ہمیں پھر ایک موذی مرض لاحق ہے اور مریض کی اوّلین ضرورت تعلیم یا تھانہ کچہری نہیں، علاج ہوتی ہے۔ وہ تعلیمی نصاب جو تنگ نظری اور عدم برداشت کے اصول پر استوار ہو گا، مزید مسائل کو جنم دے گا۔

معاشرے میں رواداری کے فروغ کی بنیادی شر ط یہ ہے کہ ہر طر ح کے سٹیریو ٹائپ کی نفی کی جائے کیونکہ سٹیریوٹ ائپ کی کوکھ ہی سے عدم برداشت جنم لیتی ہے۔ سیاہ فام نسل سے یہودیوں تک انسانی تاریخ سٹیریوٹائپنگ اور عدم برداشت کے بھیانک نتائج کی گواہ ہے۔ ہمارے معاشر ے کے مقبول سٹیریو ٹائپ کیا ہیں؟ بر یلوی شرک کرتے ہیں، وہابی اولیا اللہ کے گستاخ ہیں، نواز شریف کے سب حامی کرپٹ ہیں، عمران خان کے سب سپورٹر نشئی ہیں اور آزادانہ جنسی اختلاط پر یقین رکھتے ہیں۔

20ویں صدی کے عظیم مفکر کارل پوپر کے بقول معاشرے میں عدم برداشت پھیلانے والو ں سے نپٹنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ’ عدم برداشت ‘ یعنی عدم برداشت پھیلانے والوں کو ایک خاص حد سے آگے برداشت نہ کیا جائے، ورنہ ایک تنگ نظر اقلیت ایک وسیع القلب اکثریت کو نگل جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).