پنچایتوں سے سوشل میڈیا تک کے حیوانوں کا ایک ہی شکار۔ ۔ ۔ عورت


ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک سولہ برس کی لڑکی کو برہنہ کر کے گلیوں میں پھرایا گیا، یہ عمل کرنے والے کون لوگ تھے؟ یقینا طاقتور اور با اثر، کیوںکہ آپ کا کسی سے کتنا ہی اختلاف اور رنجش ہو یہ ہمت آپ میں نہیں کہ اپنے دشمن کے گھر کی عورت کے ساتھ آپ یہ سلوک روا رکھیں۔ یہ کرنے کی طاقت وہ رکھتا ہے جو یہ سمجھتاہے کہ اس کا عمل جائز ہے وہ کسی اخلاقیات، تربیت اور معاشرتی تقاضوں کو پورا کرنے کے دائرے میں نہیں آتا ´ ایسے لوگوں کو اگر آپ کوئی دلیل دیں، نصیحت کریں تو یہ ان کے لئے بے معنی ہے۔

”میں ان کے گھر کی عورتوں سے بات نہیں کروں گا“، ”خود سامنے آؤ گھر کی خواتین کو سامنے مت بھیجو“، ”راستہ دیدو کوئی خاتون آرہی ہیں“، ”محترمہ پہلے آپ“، ایسے کئی جملے آپ کی سماعت سے روز ٹکراتے ہوں گے ان کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ یہ مرد کمزور ہیں یا مرد ہی نہیں۔ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی مردانگی اس بات میں نہیں کہ یہ کسی عورت کی عزت تار تار کریں۔ اسے سرعام مغلظات سے نوازیں، ان کی عدم موجودگی میں ان کے حوالے سے گھٹیا مذاق اور تبصرے فرمائیں۔

جو مرد یہ نہیں کرتے وہ لائق تحسین بھی ہیں اور قابل احترام بھی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عورت عزت کی محتاج نہیں لیکن اگر وہ اس کا احترام کرتے ہیں تو یہ بات ان کی عزت و تکریم میں ضرور اضافہ کرتی ہے۔ یہاں بات مذہب کی ہے ہی نہیں جہاں یہ کہا جائے کہ ہمارے دین میں عورت کا بڑا مقام ہے جو کسی دوسرے مذہب میں نہیں دیا گیا۔ اس بات کو مذاہب سے جوڑنا اس لئے میرے نزدیک درست نہیں کہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی ہمارے معاشرے میں وہ سب ہورہا ہے جس کی اجازت نہ تو ہمارا دین دیتا ہے نہ ہی رسولؐ۔ پھر بھی ہم کھلے عام، سر عام عورت کی تذلیل اور توہین کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اگر بات عزت کی ہے تو جس مغربی دنیا کو ہم اٹھتے بیٹھے کوستے اور جہنمی ہونے کا سر ٹیفیکیٹ جاری کرتے ہیں وہاں عورت کا احترام موجود ہے۔ وہاں آپ کسی عورت کی کردار کشی کریں تو وہ اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے آپ کو عدالت میں کھینچ سکتی ہے۔ لیکن بات اگر پاکستان کی ہو تو یہاں ہم جہاں بہت سے کاموں میں دنیا بھر میں مقبول ہیں وہیں اب ہم ایک تاریخ رقم کرنے جارہے ہیں جہاں سوشل میڈیا ہو یا ٹی وی ہم ببانگ دہل عورت ذات پر کیچڑ اچھالنے کا موقع جانے نہیں دیں گے۔

عمران خان کی تیسری شادی کی خبر جب میڈیا کی زینت بنی تو ہر جانب سے ملے جلے تاثرات آنے لگے ایک دن گزرا خبر مزید گرم ہوئی تو سوشل میڈیا پر دو مخالف پارٹیوں کے ورکرز کے درمیان جو گفتگو منظر عام پر آئی وہ اسقدر اخلاق باختہ تھی کہ جو پچھلی ساری حدیں پار کر گئی۔ بشری مانیکا کا نام لے لے کر جس طرح کے مذاق، جگتیں، طنز، توہین ٹویٹس اور فیس بک اسٹیٹس کا حصہ بنائی گئیں اس نے ان کے کے سابقہ شوہر اور بیٹوں کو ویڈیو پیغام دینے پر مجبور کردیا۔

ایک لمحے کو سوچیں اس بیٹے کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی جس کی ماں کو یوں سر عام ہزیمت اور توہین سہنی پڑے۔ وہ بیٹا اپنی ماں سے وہی رشتہ رکھتا ہے جو آپ کے بیٹے کا آپ سے ہوگا آپ ساری زندگی اپنی اولاد کے سامنے سر اٹھا کر رہنا چاہتی ہیں اور ایک باپ بھی یہی خواہش رکھتا ہے لیکن اس سب میں یقینا گفتگوا اب یہی ہوتی ہوگی کہ کس طرح سے ان سب کا مقابلہ کیا جائے۔ ماں پر ہونے والے تبصرے کیسے روکے جائیں۔ ایسی کون سی چادر لائی جائے جس سے ماں کو ڈھانپ دیا جائے جس سے وہ خود کو محفوظ سمجھ سکے۔ ایسی کون سی دیوار کھڑی کی جائے جو گھر تک آنے والے پتھروں کو باہر ہی رہنے دے۔ نکاح کا حق تو دین نے دیا ہے لیکن اس خبر کو جس طرح سے چسکے لگا کر میڈیا کی زینت بنایا گیا وہ صحافت کے معیار پر بھی سوالیہ نشان ہے۔

2016 میں ہی ریحام خان کے حوالے سے بھی خبریں سوشل میڈیا کا حصہ بنیں۔ عمران خان سے شادی کے دس ماہ بعد علیحدگی ہوجانے کے بعد مخالف پارٹی میدان میں بعد میں اتری اپنی ہی پارٹی کے جوانوں نے ریحام خان کی کردار کشی کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ ریحام خان کے بچے متاثر ہوئے، کسی اینکر نے اصل واقعے کی کھوج لگانے میں سابقہ شوہر سے انٹر ویو کر ڈالا تو کسی نے بیڈ روم کی کہانیاں بتا کر اپنے بڑے اور نڈر صحافی ہونے کا ثبوت دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی جان بخشی ہوئی تو جمائمہ نے سابقہ شوہر کو بچانے کے لئے پرانی رسیدیں نکال کر عدالت بھیج دیں۔ ہونا کیا تھا، کل کی یہودی ایجنٹ اور عمران کو دھوکہ دینے والی رنگ رلیاں منانے والی برطانوی حسینہ کو تحریک انصاف نے اعلی مرتبے پر پہنچادیا وہیں ن لیگ نے ان کے خلاف ایک بار پھر سے سینہ سپر ہوکر جہاد شروع کیا۔ ن لیگ والے بھی حق پر تھے ان کی نڈر لیڈر مریم نواز کو کم طعنے ملتے ہیں۔ مریم کی شادی کو آج کی تاریخ تک اتنا ڈسکس کیا جاتا ہے کہ اب اس ملک کا بچہ بچہ واقف ہوگا کہ انھوں نے کس رنگ کا عروسی جوڑا اور کیپٹن صاحب نے کونسی شیروانی زیب تن کی تھی۔ یہ نفرت انگیز مہم جب شروع ہوئی تو مریم نواز کو اپنی شادی کی تصویر سوشل میڈیا پر شائع کرنی پڑی۔ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ تاکہ کسی حد تک الزامات کی بوچھاڑ میں کمی آسکے پر ایسا نہ ہوسکا۔ جب کوئی ٹھان لے کہ اس نے دوسرے کی ذاتی زندگی میں دخل دینا ہے، ذاتیات پر حملہ کرنا اپنا فرض سمجھنا ہے تو بھلے جتنی وضاحتیں آئیں یا ثبوت اگلا نہیں رکے گا۔

الزام تراشی اور عورت کو تضحیک کا نشانہ بنانے کا سلسلہ آج سے نہیں بہت عرصے سے جاری ہے جب بھٹو کی بیٹی بے نظیرنے عملی سیاست میں قدم رکھا اور تہیہ کیا کہ وہ اس آمر کے سامنے نہیں جھکے گی جس کے سامنے بقول اس کے کوئی نہیں ٹھہر سکتا تھا اس وقت بھی اسے نہ صرف کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ہر سطح پر اس کے خلاف فتووں سے لے کر الزام تراشی کا سلسلہ شروع کیا گیا لیکن ان سب کے باوجود وہ ڈٹی رہی، نہیں رکی لیکن تھی تو عورت، اپنے اوپر اچھلنے والے کیچڑ کے دھبے صاف کرتے کرتے زندگی گنوادی لیکن اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹی۔ یہی نہیں اس سے قبل محترمہ فاطمہ جناح کو بھی ایک ایسے ہی آمر کا سامنا رہا جس نے باضابطہ ان کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جس کسی نے بھی محترمہ کا ساتھ دیا اسے بد ترین تنائج کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کا نام بھی ان کو ان سب سے بچا نہ پایا سوچتی تو ہوں گی کہ اتنا طاقتور آدمی ایک عورت سے خوفزدہ کچھ نہ بن پڑا تو حواریوں کو میدان میں اتار بیٹھا بزدل کہیں کا۔

دور حاضر میں جہاں دنیا بھر کی خبر منٹوں میں نہیں سکینڈوں میں ہم تک پہنچتی ہے وہاں سوشل میڈیا نے جہاں زند گی کو سہل کیا وہی لوگوں کے سکھ چین کو بھی درہم برہم کر ڈالا۔ سیاسی تبدیلیوں اور رکن سازی سے لے کر رائے عامہ ہموار کرنے میں جو تبدیلی اس فورم کے ذریعے آئی وہ مثبت ہے لیکن مخالف پارٹی کی خواتین اور خاندان کی عورتوں کی جس طرح کردار کشی دیکھنے کو مل رہی ہے وہ یہ بتاتی ہے کہ عورت کی تذلیل کسی چوراہے پر ہو یا سوشل میڈیا کے بازار میں۔ عزت تار تار کرنے کی واردات مختلف تو ضرور ہوسکتی ہے لیکن مقصد ایک ہی ہے۔ اس بات سے کیا گلہ کرنا کہ فلاں گاؤں کی پنچایت میں مردانگی کے دعویداروں نے ایک عورت کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا، یا گلیوں چوراہوں پر بر ہنہ گھمایا۔ اس سوشل میڈیا کے بدبو دار جوہڑ میں بھی تو روز کئی خواتین کی عفت پامال کی جاتی ہیں۔

جو خاتون ان سب سے نالاں ہوکر آواز بلند کرنے کا حوصلہ کرے اسے بھی ایسے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ کچھ وقت کے بعد اسے اپنا وجود کسی صلیب پر لٹکے اور تیر کھاتے محسوس ہونے لگتا ہے۔ عمران خان کی شادی کے خبر پر ہونے والی چرچا پر ایک خاتون اینکر کی ٹویٹ کے جواب میں نوجوانوں کی جانب سے جو مغلظات بکے گئے وہ یہ بتا رہے تھے کہ ہم جتنی ترقی کر جائیں ذہنی سطح پر اب بھی پسماندگی کا شکار ہیں۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو پڑھے لکھے بھی ہیں، کچھ کرنے کا جذبہ بھی رکھتے ہیں بس اس شعور سے عاری ہیں کہ عورت کی تذلیل کر کے یہ جو نیک نامی کما رہے ہیں اس کی بازگشت بہت دور تلک ہے۔ امریکہ میں فیلو شپ کی غرض سے جب سینٹ لوئس میں امریکی صحافیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا تو وہاں کے مقامی پاکستانی نژاد نے یہ سوال کیا کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر دی جانے والی گالیاں اور اخلاق باختہ جملوں کے خلاف کیا کوئی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے؟ اس حوالے سے میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا کیونکہ انھوں نے اس لمحے ٹویٹرپر مجھے تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے متحرک نوجوانوں کی ٹویٹس دکھائیں جنھیں پڑھ کر مجھے بے حد شرمندگی کا سامنا ہوا۔ دونوں جانب سے پارٹی کی اور سیاسی گھرانوں کی خواتین پر حملے جاری تھے اور ان کی تصاویر کے ساتھ ساتھ عبارتیں درج کر کے جو گالم گلوچ کا طوفان برپا تھا وہ یہ بتارہا تھا کہ ان کی تربیت کس سطح پر ہوئی ہے۔

شادی کسی کا ذاتی معاملہ ہے بیشک، اس سے انکار نہیں لیکن عمران خان کی پارٹی نے اپنی جلد بازی سے اس معاملے کو جس طرح پیش کیا ہے وہ ایک بھونڈا مذاق بن چکا ہے۔ یہاں تک کہ جن خاتون سے انھیں منسوب کیا گیا، پریس ریلیز میں نام دیا گیا اب ان کے نام سے سوشل میڈیا کے سپاہیوں نے ایک جعلی اکاونٹ بنا ڈالا ہے جس پر سے ایسی ٹوٹئیٹس آرہی ہیں جو پارٹی کی ساکھ کے ساتھ ساتھ بشری مانیکا کے خاندان کی ساکھ کو بھی متاثرکیے بناءنہیں رہ سکتی۔ اس سے قبل عمران خان کی سابقہ اہلیہ کے نام سے بھی ایک ٹویٹر اکاونٹ بنایا گیا تھا۔ میں یہ سب دیکھ کر صرف اتنا سوچتی ہوں کہ کیا ہمارے ملک کے مسائل ناپید ہوگئے؟ یا سیاستدانوں کے پاس اب بات کرنے کو کچھ بچا نہیں کہ وہ میڈیا ٹاک میں بھی کسی بھی عورت کے حوالے سے کوئی بھی بھڑک مار کر ہیڈ لائن میں آجاتے ہیں۔ کیا یہ سیاستدان اس بات سے لاعلم ہیں کہ ان کے چاہنے والے تعمیری سیاست یا مثبت بات کرنے کے بجائے لوگوں کی ماں بہنوں کی عزت کو تارتار کرنا فخر سمجھ رہے ہیں۔

جس معاشرے میں عورت کو محاز پر مر د سپاہیوں کی موجودگی میں جنگ لڑنے کی اجازت نہ ہو، آج بھی گھروں میں یہ تلقین کی جاتی ہو کہ بہن اگر رات کو گھر سے نکلے گی تو باپ یا بھائی کی موجودگی لازمی شرط ہے، دروازے پر دی جانے والی اجنبی دستک پر آج بھی گھر کی عورت کو اپنا دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھنے کی فکر رہتی ہو وہاں یہ کون لوگ ہیں جو دوسروں کے گھر کی دیواروں اور دروازوں سے اندر تانک جھانک کرتے ہیں۔ سنگسار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ بے دھڑک بے خوف کوئی بھی الزام اور گالی عورت کو دے کر فخریہ انداز سے کہتے پھرتے ہیں کہ ’تجھے کپتان نے نہیں پوچھا تو تجھے بڑی تکلیف ہے اس کی شادی کی‘ یہ ایک مثال ہے جو میں لفظوں کی ہیر پھیر کے ساتھ یہاں دینے کے قابل ہوں۔ ورنہ جو کچھ کہا اور لکھا جاتا ہے وہ قابل بیان اور تحریر نہیں۔

گزارش صرف اتنی ہے کہ ”اگلی واری فر شیر“ اور ”تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے“ کا نعرہ لگانے والے اگر اس برس الیکشن ہونے سے قبل اپنی سیاست میں سے عورت کی توہین کرنے کی عادت کو نکال دیں تو شاید صحیح معنوں میں اسے تبدیلی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ورنہ شیر بھی جانور ہی ہے اور بلا بھی اپاہج کے لئے سہارے کا کام کرنے لائق ہی ہوتا ہے۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar