جب مولانا صوفی محمد کے لئے ہلال قائد اعظم کا مطالبہ کیا گیا۔۔۔


بی بی سی کے نامہ نگار ہارون الرشید نے مولوی صوفی محمد کی ضمانت پر رہائی کے بارے میں اپنا تجزیہ ان الفاظ سے شروع کیا ہے۔ “جب میں ایک خاص قیدی سے ملاقات کے لیے ڈیرہ اسمعیل خان جیل پہنچا تو جیلر نے برطانوی راج کے بنے ہوئے قید خانے کے اپنے سرکاری کمرے میں ملاقات کا اہتمام کر رکھا تھا۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد بتایا گیا کہ چونکہ کمرے میں قائداعظم کی تصویر لگی ہے تو قیدی یہاں ملاقات نہیں بلکہ بغیر تصویر والے کمرے میں کرے گا۔”

گویا حضرت صوفی محمد کو اس کمرے میں بیٹھنا بھی گوارا نہیں تھا جہاں پاکستان نامی ریاست کے بانی اور داڑھی منڈے محمد علی جناح کی تصویر آویزاں ہو۔ صوفی محمد پاکستان کی عدالتوں کو بھی غیر اسلامی قرار دیتے تھے۔ مقام مسرت ہے کہ اب ایک “غیر اسلامی عدالت” نے اسی کرنسی میں صوفی محمد کی ضمانت منطور کر لی ہے جس پر قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر ثبت ہے۔ اس موقع پر یہ یاد دلانا نامناسب نہیں ہو گا کہ فروری 2009ء میں “سوات امن معاہدہ” طے پانے کے بعد محترم اسلم لودھی نامی ایک صاحب نے نوائے وقت کے مدیر اعلیٰ (تب) ڈاکٹر مجید نظامی کے نام ایک مکتوب میں عزت مآب مولانا صوفی محمد کے لئے ہلال قائداعظم کا مطالبہ کیا تھا۔ نوائے وقت میں شائع ہونے والے اس مراسلہ خصوصی کا متن حاضر خدمت ہے۔

٭٭٭   ٭٭٭

مکرمی! ایک ایسے علاقے میں جہاں چالیس ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کے باوجود امن قائم نہیں کیا جا سکا ان حالات میں ایک ایسے شخص نے صرف چند دنوں میں بغیر کسی جانی و مالی نقصان کے وادی سوات میں نہ صرف امن قائم کر دیا بلکہ وادی کی ساری رونقیں بحال کر دیں اگر یہی کام کوئی انگریز کرتا تو نوبل انعام کا حق دار ٹھہرتا دنیا سے تو ہمیں اس کی توقع نہیں ہے لیکن پاکستانی حکمرانوں سے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ایسا عظیم شخص ہلال قائداعظم کا مستحق نہیں ہے۔

میں تو سمجھتا ہوں صوفی محمد نے تحریک نفاذ شریعت محمدی کے پلیٹ فارم پر عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ جس سے نہ صرف سوات میں امن قائم ہو گیا بلکہ پورے ملک میں خود کش حملوں کا سلسلہ بھی رک جائے گا۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو صوفی محمد نے تحریک طالبان کو جن چند شرائط پر ہتھیار پھینکنے، علاقے میں اپنی تمام چیک پوسٹیں ختم کرنے، فوج اور انتظامیہ کے خلاف حملوں کو روکنے، تمام تعلیمی اداروں سمیت کاروباری اداروں کو تحفظ فراہم کرنے پر آمادہ کر لیا ہے ۔

پاکستانی حکمرانوں سے میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اس معاہدے کو سوات میں ہی کیوں برقرار رکھا جائے بلکہ اس کا دائرہ کار باجوڑ سمیت تمام قبائلی علاقوں تک پھیلا کر پور ے ملک کو خود کش دھماکوں سے نجات دلائی جائے۔ امریکہ کو خوش کرنے کی ضد اور خیرات مانگنی چھوڑ دیں خدارا اپنے ملک اور اپنے ہم وطنوں پر رحم کھائو فوج، پولیس اور فرنٹیر کانسٹبلری میں بھی ہمارے ہی بھائی ملکی دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں ان کو بھی امریکی مفادات کی بھینٹ نہ چڑھائو اور سوات، باجوڑ سمیت تمام قبائلی علاقوں میں مقامی لوگوں کا من پسند اسلامی نظام نافذ کر کے وہاں زندگی کی سہولتیں فراہم کرو تاکہ جو لوگ پاک فوج کے ہاتھوں یا امریکہ کے ہاتھوں اپنے بچے اور گھر بار تباہ کروا چکے ہیں ان کو بھی قومی دھارے میں لا کر اس ملک کو بچایا جا سکے۔

(محمد اسلم لودھی، بک رائٹر کالم نگار، لاہور)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).