عورت طوائف پیشے سے نہیں، مزاج سے ہوتی ہے


کس قدر حسین اور پر اعتماد لہجہ تھا میری اُس سٹوڈنٹ کا جو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کالج کے آڈ یٹوریم میں تقریر کر رہی تھی۔ اُس کا دمکتا چہرہ، آواز کا اتار چڑھاؤ اور خود شناسی کا اعتماد!

’’ ربّ زوالجلال کی سب سے خوبصورت تخلیق عورت کا وجود ہے۔ ایک لمحے کو اس حسین و جمیل کائنات میں سے عورت کا وجود حذف کر کے دیکھئے، رنگ، خوشبو، چاشنی، زندگی۔۔۔ سب یک لخت غائب ہو جائیں گے۔ اس کائنات کے رب نے ذرہ ذرہ تخلیق کیا، سورج، چاند، ستارے، سیارے، پہاڑ، میدان، نہریں، ندیاں، سمندر، صحرا، سب بنا ڈالے۔ ان سب کو سراہنے والا انسان بھی تخلیق کر لیا، پر ابھی تخلیقات میں کہیں تشنگی سی باقی تھی۔ وسیع و عریض کائنات میں تنہائیاں اور ویرانیاں دکھتی تھیں۔ آواز تھی، نغمگی نہ تھی۔ پھول تھے، خوشبو نہ تھی۔ رنگ تھے، رنگینی نہ تھی۔ روشنی تو پیدا ہو گئی، رعنائی نہ تھی۔ وجودِ انسان تو مٹی سے اُٹھ گیا پر زندگی جینے کی لذّت معدوم تھی۔ پھر رب نے ایک اور ’کُن‘ کہا۔ اور اب کی بار ایسا وجود تخلیق ہوا کہ جنّت ہری بھری ہو گئی۔ پرندے چہچہانے لگے، پھول کھلنے لگے، دریاؤں میں ترّنم آگیا۔ وادیوں میں بہاریں اُتر آئیں۔ صحراء میں حُسن در آیا۔ سورج، چاند، ستارے سیارے سب چمکنے لگے۔۔۔  ‘‘

مجھے آج بھی اُس بچی کا انداز یاد کر کے اُس پہ پیار آتا ہے۔ یوں لگتا تھا جیسے زندگی کی ناتجربہ کاری کے باوجود اسے یہ گیان تھا کہ اُسے اپنے وجود کے لئیے تمام عمر یوں ہی ایقان حاصل کرتے رہنے کی یہ جنگ لڑنا ہے۔ جیسے وہ جانتی تھی کہ بے کرداری اور بدکرداری کے نشتر جب بھی کسی عورت پر برستے دیکھے گی تو ان جیسے الفاظ ہی کمزور کے حق میں بولنے کو اُس کے کام آئیں گے۔

چند روز سے لفظ ’کنجری‘ میرے اعصاب کو جھنجھلاتا رہا ہے۔ مجھے اس بات سے بھی الجھن ہے کہ لفظ ’طوائف‘ جو صرف عورت ہی کے لئے مخصوص ہے، اس کے معنی صرف ’رقاصہ ‘ نہیں لئے جاتے۔ اس لفظ کے سہارے ہمیشہ عورت کے کردار پر بات کی جاتی ہے۔ اگر اس لفظ کا مفہوم کردار ہے تو اس کا مذکر کیوں نہیں۔ حالانکہ جتنے چکر مرد، عورت کے در کے کاٹتا ہے۔ لفظ طوائف مرد کے لئیے بھی استعمال ہونا چاہئے۔ جس مرد کی وجہ سے ایک عورت کنجری یا رنڈی کہلاتی ہے، اُس کو تو کوئی اس سے بھی بڑے اعزازی نام سے پکارا جانا چاہئے۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ جس طرح مرد کو کوئی نام نہیں دیا جاتا اُس کی ہزار دل لگی، نظربازی، فراڈ اور بے وفائی کے باوجود، اُسی طرح چند بے حیا اور بے وفا حسیناؤں کو بھی محتاط الفاظ میں برا بھلا کہہ کر بخش دیا جائے۔۔۔ اپنی حیا دکھانے کو ہی سہی؟

ایک زمانے میں اس لفظ طوائف کا بڑا خوف میری عمر کی ہر لڑکی کے ذہن میں رہا کرتا تھا۔ جس میں کچھ charisma تب پیدا ہوا جب دلکش اداکارہ ریکھا کی وہ فلمیں آئیں جن میں انھوں نے اکثر کردار طوائف کے ادا کئے۔ عام گھروں کی پاکیزہ اور معصوم لڑکیا ں بھی کبھی تنہائی میں اور کبھی سہیلیوں کی محفل میں ’ ان آنکھوں کی مستی کے، مستانے ہزاروں ہیں‘ اور کبھی ’.سلامِ عشق‘ جیسے گانوں پہ اپنے حسن کا احساس کرنے لگیں تو یہ خوف قدرے کم ہوا۔ مگر چونکہ کبھی کسی طوائف کو ریئل لائف میں نہ دیکھا تھا تو وہ ایک امیج ذہن میں قائم ہی رہا کہ طوائف ’گندی‘ عورتیں ہوا کرتی ہیں۔ زندگی کے دیگر معاملات، خوشی اور غم سے ان کا تعلق عام انسانوں سے مختلف ہوتا ہے پر یہ کبھی سمجھ نہ آیا تھا کہ اللہ تعالی نے جذبات تو بس وہی پیدا کئے تھے جن سے ہم واقف تھے۔ کوئی مختلف احساسات تو ان کے لئے تخلیق کئے نہ تھے۔۔ پھر مجھے ایک طوائف سے ملنے کا اتفاق ہوا۔

میرے منجھلے ماموں کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ہی دبی دبی آوازیں خاندان کے ہم نوجوان بچوں پہ بھی واضح ہونے لگیں تھیں کہ ماموں نے ہیرا منڈی کی ایک طوائف سے شادی کر رکھی ہے۔ ماموں کا جب انتقال ہوا تو وہ قریب 55 برس کے تھے۔ جنازے پہ رونے دھونے کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سنائی دی کہ ’ وہ ‘ بھی آ رہی ہے۔ بڑی دلچسپ و عجیب جستجو تھی ایک طوائف کو دیکھنے کی۔ اور پھر وہ آ گئییں۔ ململ کا سادہ سا دوپٹہ لپیٹے۔ خاموش آ نسو بہاتی۔ خالی نظروں سے اپنے شوہر کا دیدار کرتی۔ خود کو اس خاندان میں اجنبی محسوس کرتی، کونے سے لگی بڑی دیر روتی رہیں۔ ان کے جانے کے بعد اپنی امُی اور خالہ کے منہ سے یہ الفاظ سُنے کہ وہ یہ کہہ کہ روتی رہیں کہ ’مجھے عزتیں دینے والا چلا گیا‘۔ نکاح کے بعد سے ماموں نے انھیں سمن آباد میں بہت احترام سے رکھا ہوا تھا۔ سننے میں یہ بھی آیا کہ وہ صحیح معنوں میں تائب ہوئی تھیں اور اب صوم و صلوۃ کی بے حد پابند تھیں۔ یوں تو صوم و صلوۃ کی پابند طوائف کوٹھے پر بیٹھ کر بھی ہو سکتی ہے پر ہم شریفوں کی یقین دہانی کے لئے اسے اپنے رب سے قرب حاصل کرنے کو چند سیڑھیاں اترنا ہی پڑتا ہے۔ اُس عورت کا اصل حسن ’عزت کی زندگی‘ کی قدر کرنے میں پنہاں تھا۔ مجھے اُن الفاظ کا درد آج بھی محسوس ہوتا ہے۔ میں بصد احترام اُن کو اپنی ممانی مانتی ہوں گو کہ اُس دن کے بعد نہ کبھی وہ ہمارے گھر آئیں، نہ ہی کبھی کسی نے اُن کا ذکر کیا۔

زندگی کچھ آگے بڑھی تو طوائفوں سے منسوب بہت سے خصائل کے بارے میں ادراک بڑھتا گیا۔۔ ناز نخرے، ادائیں، ہٹ دھرمی، شاہ خرچی، امورِ خانہ داری سے اجتناب، سجنے سنورنے کو ہر شے پہ اوّلیت دینا اور سب سے بڑھ کر مرد سے پیسے بٹورنے کا ہنر رکھنا۔۔۔ اپنے ارد گرد نظر ڈالی تو یہ تمام اوصاف اچھے اچھے گھروں کی خواتین میں بھی پائے۔ فرق بس یہ پایا کہ ان اداؤں کا شکار شوہر حضرات کو پایا۔ ایسے بے شمار گھر ہیں جہاں خواتین کو امورِ خانہ داری اور بچوں کی تربیت میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ یہ سب دیکھتے ہوئے بھی آپ ایسی عورت کو طوائف یا کنجری تو نہیں کہتے نا؟ عورت ہر روپ میں صرف اور صرف عزت کی ہی مستحق ہے۔ صرف پیشہ دیکھ کر گالی دینے کی جلدی مت کیجئے۔ ایک نظر ارد گرد ڈالئے تو خود کو مشکل میں پائیں گے کہ اس گالی کا صحیح ٹھکانہ کہاں ہے۔ اور نہیں دے پائیں گے آپ یہ طوائف، کنجری یا رنڈی جیسی گالی کسی بھی عورت کو۔ میں یہ ضرور کہوں گی کہ عورت کنجری یا طوائف پیشے سے نہیں ہوتی، اپنے مزاج سے ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).