نیا سال، کالی گھڑی اور ستاروں والے کبوتر


جمال بھائی کینیڈا میں رہتے ہیں۔ بڑے زبردست گلوکار ہیں۔ ان سے دوستی یوں ہوئی کہ انہیں یہ کالم پسند آ گئے اور فقیر ان کی سر سمرتیوں پہ مر مٹا۔ نئے سال کا موقع تھا۔ ان سے فون پہ بات ہوئی، سخت سردی میں جھلائے ہوئے تھے۔ ادھر ہم لوگوں سے دو تین سینٹی گریڈ کی سردی برداشت نہیں ہوتی اور وہاں اس وقت مائنس پندرہ چل رہا تھا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ اس برفانی ٹھنڈ میں بھی دنیا کے سارے کام وہاں چل رہے تھے۔ تو باتوں باتوں میں جمال بھائی کہنے لگے کہ یار یہ نئے سال کے میسیجز نے مت ماری ہوئی ہے، کئی لوگ ایک ہی جیسے پیغام بھیج رہے ہیں، موبائل کی میموری میں ایک طرح کی چیزوں کا ڈھیر لگ گیا ہے، کیا واقعی کسی کے پاس اتنا وقت بھی نہیں بچا کہ ہاتھوں سے ٹائپ کرکے دو لفظ بھیج دے؟

اپنا دماغ یادوں کی پٹاری ہے۔ اتنے سال نہیں گزرے جتنی عمر گزر گئی۔ اصل میں ہم لوگوں کی جنریشن وہ تھی جس نے بیس تیس برس میں صدیوں کا سفر پورا کر لیا۔ 1970ء یا 1980ء سے پہلے انسان نے جتنی ایجادیں کیں اور پھر جو اس کے بعد کیں، حساب لگا لیجیے۔ ایک دم ایسے لگے گا‘ جیسے کسی جیٹ جہاز میں بیٹھ گئے ہیں۔ کاغذ سے ای میل، اس کے بعد پیجر پھر موبائل اور اس کے بعد چھوٹے سے چھوٹا فون یا بلیو ٹوتھ وغیرہ۔ یہ سب تبدیلیاں پچھلے تیس برس میں ہوئی ہیں۔ ان جیسی چیزیں دیکھ دیکھ کے ہم لوگ حیران ہونا بھول چکے ہیں۔ کچھ بھی نیا نہیں لگتا۔ آج اگر کوئی کہے کہ امریکہ میں فلاں آدمی دم کی طرح راکٹ لگا کے اڑ گیا تو ہم اس پہ بھی آرام سے یقین کر لیں گے۔ اتنا کچھ گزر چکا ہے کہ حیران ہونے کو واقعی کچھ نہیں باقی رہا۔ تو وہ جو تجربہ ہے وہ اصل میں بہت ساری نسلوں کا ہے جس کا بوجھ ہمارے کندھوں پہ آ کے ٹھہر گیا ہے۔ سب سے بڑی مثال اس انٹرنیٹ کی ہے۔ اندازہ لگائیں کہ اگر یہ سب نعمتیں علی عباس جلالپوری یا ان سے بھی پہلے سر سید احمد خان کو حاصل ہوتیں تو وہ لوگ کیا کیا نہ کر جاتے۔ آثارالصنادید ایک کتاب تھی جس میں دلی کی پرانی عمارتوں کا ذکر ہے۔ اس کی ریسرچ کے چکر میں سر سید قطب مینار جا کے پتہ نہیں کتنے دن سیڑھیاں لگوا لگوا کر کافی اوپر تک چڑھتے رہے۔ اس طرح جیسے آج پینٹ کرنے والے مزدور لکڑیوں کے پھٹے لگا کے اونچی عمارتیں پینٹ کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ وہ ان کتبوں کو پڑھنا چاہتے تھے جو اس مینار پہ ٹائلوں کی شکل میں لگے ہوئے تھے۔ پھر وہ سب عبارتیں وہیں کھڑے کھڑے نوٹ بھی کرتے تھے تاکہ بعد میں کتاب کی نذر کی جا سکیں۔ تو کاش اگر اس وقت ان کے پاس انٹرنیٹ ہوتا تو وہ بے چارے وہی وقت کسی اور پروڈکٹو کام میں صرف کر دیتے، کتبے گوگل پہ پڑھ لیتے۔ ویسے اگر اس وقت کسی آدمی کو بتایا جاتا کہ صرف ڈیڑھ سو برس بعد تم اپنے گھر میں بیٹھے بیٹھے دنیا بھر کی لائبریریوں میں جھانک سکو گے، مریخ پہ جانے والے وائجر کو دیکھ سکو گے، قطب جنوبی میں اٹھنے والے طوفان کی خبر دسویں منٹ میں تمہارے سامنے چل رہی ہو گی، دنیا کے جس حصے میں رات ہوتی ہے، وہاں ہونے والا کرکٹ میچ تم اپنے گھر میں دن کے ٹائم بیٹھ کے لائیو دیکھ سکو گے تو وہ یا تو یقین ہی نہ کرتا یا پھر کہنے والے کو کہیں پیر فقیر کے پاس گھسیٹ کر لے جاتا کہ بابا جی اسے دم کریں یہ مالیخولیا کا شکار ہو چکا ہے۔

ہو گئی، ڈھیر ساری ترقی ہو گئی۔ ایک نقصان یہ ہوا کہ ہر چیز کسٹم میڈ آنے لگی ہے۔ ایک پیغام لکھیں اس کی ایک ہزار کاپیاں کروائیں اور بانٹ دیں۔ یہ چیز جلسوں میں یا کسی پروڈکٹ کی اشتہار بازی میں تو سمجھ آتی ہے لیکن اپنے آس پاس موجود لوگوں کے ساتھ آپ کس طرح یہ ظلم کر سکتے ہیں؟ چلیے شادی کارڈ بھی ٹھیک ہے، ایک جنرل سا کارڈ بنوا لیا، جس جس کو بلاوا دینا ہے اسے بھیج دیا لیکن جہاں آپ کسی کو اپنی نیک تمنائیں پہنچا رہے

ہیں، گڈ وشز بھیج رہے ہیں وہاں یہ چیز کیا مناسب ہو گی؟ میرے ابا سے پوچھیں گے تو بالکل مناسب ہو گی۔ وہ ایک مرتبہ امریکہ گئے، دو تین ماہ کا پروگرام تھا۔ وہاں سے ہر آٹھ دس دن بعد ایک خط امی کو آتا تھا‘ ایک دادی کو آ جاتا۔ اب وہ لوگ اپنے اپنے خط پڑھ کے آپس میں باتیں کرتے تو ایسا لگتا جیسے ابا نے وہی سب باتیں امی کو بھی بتائی ہیں جو دادی سنا رہی ہیں اور امی کے پاس بھی کچھ نیا نہیں ہوتا تھا۔ آخر ایک دن جب دونوں خط ایک ساتھ رکھے گئے تو معلوم ہوا کہ خط ابا ایک ہی لکھتے تھے، بس نیچے کاربن پیپر رکھ لیتے تھے اور سلام یا مخاطب کرنے کی لائن کے ساتھ خدا حافظ/ والسلام والا خانہ بھی خالی رکھتے تھے۔ اس میں ضرورت کے حساب سے القاب ڈالے اور اللہ اللہ خیر سلا۔ ایک ہی خط میں بیوی اور ماں‘ دونوں خوش ہو جاتے تھے۔

لیکن یہ ایک آدمی کی ذاتی چوائس کا معاملہ تھا۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا، ہر ایونٹ پہ ایسے پیارے پیارے کارڈ بازار میں نظر آتے تھے کہ بندہ دل و جان سے خریدتا تھا، اس پہ اپنی مرضی کا پیغام لکھتا اور منزل کی طرف روانہ کر دیتا تھا۔ کسی پہ شعر لکھے جاتے، کسی پہ سامنے والے کو متاثر کرنے کے لیے انگریزی کی مشکل مشکل کوٹیشنیں لکھ کے بھیجی جاتیں، کسی کارڈ پہ لکھنے کے لیے بازار سے خطاطی والے قلم خریدے جاتے، اپنے نام اور عہدے کی مہریں بنتیں، پتہ نہیں کیا کیا جتن کرکے خوبصورتی کا ایک مرقع بنایا جاتا اور اسے بھیجنے کے بعد کنفرمیشن کا بھی انتظار رہتا کہ مل گیا ہے تو پسند آیا کہ نہیں اور اگر نہیں ملا تو کہاں غرق ہو گیا۔ بازار والے کارڈ بھی ویسے کوئی اتنی پرانی روایت نہیں ہیں، جن دنوں یہ اتنے سستے اور فریلی اویلیبل نہیں تھے تو یہ سب کام خود اپنے ہاتھوں سے بھی کیے جاتے تھے۔ گڈی کاغذ، گتہ، سریش، وہ کپڑوں پہ ٹانکنے والے ستارے، ابرق اور دنیا جہان کی چیزیں ملا کر ایک شاندار قسم کا تہنیتی کارڈ بنایا جاتا تھا، رجسٹریوں سے ڈاک بھیجی جاتی اور منتوں سے جواب آتا۔

تو اب جو ہے ایسا وقت ہے کہ بھائی دو ٹکے کا ٹائم نکال کے آپ کسی کو وِش نہیں کر سکتے۔ میسج تک کرتے ہوئے ہماری انگلیاں ٹوٹتی ہیں۔ قسم سے کتنی عیدوں اور نئے سال کی مبارکبادوں پہ ایسے فارورڈ میسج بھی آئے ہیں جن میں بھیجنے والے نے پچھلے آدمی کا نام تک مٹانے کا تکلف نہیں کیا، محمد حمزہ میسج بھیجتے ہیں اور آخر میں فرام احمد بلال لکھا ہوتا ہے۔ ابھی اس بار نئے سال کی مبارک باد دینے کے لیے وہ گھڑی والا میسج آپ کو بھی آیا ہو گا۔ وہ جو کالی سی گھڑی کی سوئیاں گھومتے گھومتے سارے دکھ درد پریشانیاں وائپ آئوٹ ہو جاتی ہیں اور نیا سال جگمگانے لگتا ہے، یا وہ ستارے چھوڑتے ہوئے کبوتر والا میسج… ایک منٹ، ابھی جا کے موبائل کی وڈیو میموری چیک کریں، نہ آیا ہو تو آپ مریخ پہ رہتے ہوں گے، فانی انسانوں کی اس دنیا میں وہ دو میسج ہی نئے سال کی چالو مبارک باد تھے۔ تو ایسی مبارک باد بھیجنے کا فائدہ کیا ہے یار؟

کیا ہم دو تین لائنیں خود سے لکھ کے نہیں بیج سکتے؟ مثلا، اے عزیز من! میری طرف سے تمہیں اور تمہاری پوری آل اولاد کو نیا سال مبارک ہو، خدا ہر نیا سال ڈھیروں کامیابیوں کا منہ دکھائے اور ناکامیاں تم سے کوسوں دور بھاگیں، وغیرہ وغیرہ، حسنین جمال! ایسا کرنے سے جو پرسنل ٹچ آئے گا وہ سامنے والے کو یقین دلائے گا کہ ہاں وہ آپ کے لیے واقعی کوئی اہمیت رکھتا ہے اور اسے ایرے غیرے میسیجوں سے نہیں ٹرخایا گیا۔ باقی جو مزاج یار میں آئے۔ ویسے اتنا سب کچھ لکھا ہی گیا ہے تو اے جملہ دوستانِ من، نیا سال آپ سب کے لیے مبارک ثابت ہو اور پچھلے جیسا منحوس بالکل نہ ہو۔ آمین!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain