قصور میں مجرم محفوظ ہیں


میں جو سچ کہوں تو برا لگے، میں دلیل دوں تو ذلیل ہوں
یہ سماج جہل کی زد میں ہے۔ یہاں بات کرنا حرام ہے

قصور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اچانک ایک مرتبہ پھر اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور گذشتہ 6 ماہ کے دوران صرف قصور شہر میں 5 سے 10 سال کی عمر کے 10 کم سن بچوں کو ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا۔

رواں سال جنوری سے شروع ہونے والے ان حولناک واقعات میں ریپ کا نشانہ بنائے جانے والے 10 متاثرہ بچوں میں ایک 8 سالہ لڑکی بھی شامل ہے، جسے حال ہی میں درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔
ہمارا معاشرہ اس حد تک گر گیا ہے کہ حیوانیت بھی دور کھڑی صرف دیکھتی رہ گئی ہے درندگی کا یہ عالم کہ زید ہسپتال میں علاج کے لئے لائی گئی بچی کو ہسپتال کی انتظامیہ کے درندے ہی اپنی ہوس کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔ گوجرانوالہ کا 23 سالہ شیطان اپنے ہمسائے کی8سالہ پھول جیسی کلی کو نوچ لینے کے بعد چھت سے نیچے پھینک دیتا ہے
ملتان کا ظفر نامی درندہ اپنے ہی استاد کی7سالہ اکلوتی بیٹی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد گلہ گھونٹ کر مار دیتا ہے

وطن عزیز کے ہر کونے میں ایسے دردناک واقعات آپ کو دیکھنے کو ملیں گے اور ویاں کی انتظامیہ اور پولیس ایسے واقعات کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے مگر ضلع میں یہ واقعات رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے

ضلع قصور میں کم سن بچے بچیوں سے زیادتی کے دلخراش واقعات نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس واقعے کی حساسیت اور سنگینی کا اندازہ اس حقیقت سے بھی ہوتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو سکول پڑھنے تک نہیں بھیج رہے

چند برس قبل بھی قصور ہی کے نواحی علاقے حسین خاں والا میں 100 سے زائد بچے بچیوں اور خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جس پر حکومت اور دوسری جماعتوں کی جانب سے مذمت بھی کی گئی اور حکومت کی جانب سے ان ملزمان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی یقین دہانی بھی کرائی گئی

یہ کارروائی کہاں تک ہوئی اور زیادتی کے واقعات کہاں تک کنٹرول ہوئے اس بات کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ 2017 کے ایک سال کے مختصر عرصے میں 10 سے زائد کمسن اور معصوم بچیوں کو زیادتی کے بعد انتہائی بے دردی سے قتل کر دیا گیا

یہی واقعہ اب پھر قصور میں ہی ہوا
پولیس کو مذکورہ لڑکی کی لاش 8 جولائی کو شاہ عنایت کالونی کے ایک زیر تعمیر مکان سے ملی، یہ لڑکی اپنے گھر سے ٹیوشن سینٹر کے لیے نکلی تھی جس کے بعد لاپتہ ہوگئی۔
مقتولہ تیسری کلاس کی طالبہ تھی اور اس کے والد ایک گھریلو ملازم ہیں۔
گذشتہ 6 ماہ میں جن بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، ان میں 7 لڑکیاں اور 3 لڑکے شامل ہیں۔

بچوں کو نشانہ بنانے کے واقعات رواں سال جنوری میں شروع ہوئے، پہلا واقعہ کوٹ پروین میں پیش آیا تھا جس میں 5 سالہ لڑکی کو ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا تھا اور اس کی لاش زیر تعمیر مکان سے ملی تھی، تاہم پولیس اس کے قاتلوں تک پہنچنے میں ناکام رہی۔

فروری میں ایک کم سن لڑکی کی لاش علی پارک سے برآمد ہوئی تھی اور یہ لاش بھی زیر تعمیر مکان سے برآمد کی گئی تھی، ان واقعات نے لوگوں میں تشویش پیدا کردی ہے۔
شاہ عنایت کالونی کے رہائشی محمد اکبر کا کہنا تھا کہ ’ان واقعات کے بعد میں نے اپنی بیٹیوں کو ٹیوشن سینٹر جانے سے روک دیا ہے، یہ خوفناک اور دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہے‘۔

پانچ دن سے لاپتہ بچی کی لاش پولیس کو آج کوڑے کے ڈھیر سے ملی
پولیس پھر مصروف تفتیش ہے
چند دن بعد پھر کسی نشئی یا چور کو پکڑر مار دیا جائے گا
پولیس کی جانب سے یہی بتایا جائے گا کہ بچی کے قتل اور زیادتی اور دیگر وارداتوں میں ملوث تھا

یوں ملزم ایک مرتبہ پھر بچ جائے گا اور ایک بے گناہ کی پھر جان لے لی جائے گی
ملزم اب ایک اور پھول کو روندنے کو تیار ہو جائے گا
اور ہم ایک مرتبہ پھر خاموش ہو جائیں گے

2016 ء میں پورے ملک میں لگ بھگ 100 بچوں کو جنسی نشانہ کا زیادتی بنا کر قتل کیا گیا ہے اور اب رواں سال چھ ماہ کے اندر صرف قصور میں 10 بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ہے۔ پولیس کی تحقیقاتی کا مناسب نا ہونا، لوگوں کو بروقت انصاف نا ملنا یہ ایسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ایسے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مگر افسوس ہمارے منتخب نمائندے اب کی بار بھی خرگوش کی نیند سوتے رہیں گے اور اس کارروائی میں کوئی عمل دخل نہیں دیں گے ہاں ایک دفع فوٹو سیشن کے لیے بچی کے والدین کے پاس جا کر مگرمچھ کے آنسو بہا دیں گے مگر اسمبلی میں قرارداد لے کر نہیں جائیں گے

بلکہ پچھلی بار کی طرح حسین خاں والا واقعہ کی طرح ہو سکتا ہے ملزمان کی پشت پناہی کریں آخر الیکشن کے لیے فنڈز کی بھی ضرورت ہوتی ہے

پولیس کارروائی کی تفصیل

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya