مدینة الاولیا کا سانچو پیر


ملک راشد محمود

 \"Picsart2016-26-3--23-19-51\"کیا مزے کے دن تھے جب مرے کالج کی آزاد فضاؤں میں گھومتے تھے۔ نہ پڑھنے کی فکر نہ لکھنے کی۔ کیوں کہ وہاں لکھنے پڑھنے کا رجحان ہی نہیں تھا ۔ آخر اسی آزادی میں ہم ایم۔اے۔اردو کا امتحان اعلیٰ درجہ میں پاس کر گئے۔

جب ہم نے اپنے اتنے اچھے نمبر دیکھے تو ہمارے اندر ایم۔فل۔اردو کرنے کی تحریک پیدا ہوئی۔ یہ جویاے علم مختلف جامعات سے گھومتا پھرتا جامعہ گجرات کے سب کیمپس سیالکوٹ پہنچ گیا۔ جامعہ کے معلوماتی ڈیسک سے پتا چلا کہ یہاںایم۔فل۔ اردو والوں کے لئے اردو زبان کے ماہر سرائیکی بزرگ ملتان سے تشریف لائے ہوئے ہیں ، جن کے ادبی فیض کا ڈنکا برصغیر پاک و ہند کی سر زمین میں بج رہا ہے۔اتنا سننا تھا کہ دل بے تاب ہو گیا اب پیر صاحب سے ملے بغیر ہم نہیں جائیں گے۔ چوں کہ پیر صاحب کا تعلق مدینةالاولیا (ملتان) سے تھا اور ہم وہاں کے پیروں کی بہت سی کرامات پہلے بھی سن چکے تھے۔ اتنے میں پیر صاحب نے ملاقات کا شرف بخشا۔ ہماری خوش قسمتی دیکھئے کہ پیر صاحب کی جب پہلی نظر ہم پڑی تو انھوں نے ہماری منت سماجت کے بغیر ہی ہمیں اپنی مریدی میں قبول فرما لیا۔ہم نے بیعت نامہ پر کر کے جمع کروایا پھر اس کے بعد ہمارے اوپر انوار کی بارش شروع ہو گئی۔

اس کے بعد دنیائے ادب کی ایسی ایسی ہستیوں سے ہمارا تعارف ہوا جن کا نام شاید ہم مستقبل بعید میں بھی دور دور تک نہ سنتے۔

\"anwaar\"ہمارے سیال کوٹ کے عوام میں کتابیں پڑھنے کا رواج نہیں اور نہ ہی ہمارے اساتذہ بچوں کی ایسی تربیت کرتے ہیں کہ ان کو کتاب کی طرف مائل کیا جائے۔ یہاں نوٹس کلچر نے اساتذہ اور طلبہ کو اصل متن اور کتاب سے بہت دور رکھا ہوا ہے اسی لئے یہاں کے کتب فروش خاص طور پر ادبی کتابیں نہیں رکھتے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم صرف شاعر اور ادیب پیدا کرتے ہیں یہاں کے قاری سے ہمیں کوئی سابقہ نہیں۔اقبال اور فیض جیسے بلند پایہ شاعر اس مٹی نے پیدا کر دیے بس یہی کافی ہے اب ان کو پڑھنا اہل سیال کوٹ کے لئے ضروری نہیں لہٰذا پڑھنے والا یہ نیک کام سیال کوٹ کے علاوہ باقی علاقوں کے عوام کریں….

اسی ماحول سے ہمارا بھی تعلق تھا ہم سیال کوٹ کے بیس مرید پیر صاحب کی زندگی کے تجربات اور ان کی ادبی گفتگو سننے کے لئے جمعہ کے دن جامعہ میں اکٹھے ہو جاتے۔پہلے ہی دن ہمیں مغربی ناقدین سے روشناس کروایا گیا جن میں سے کچھ سے تو ہم واقف تھے چونکہ ہم ایم۔اے۔ میں ان کے نوٹس پڑھ چکے تھے لیکن کچھ نقاد ایسے بھی تھے کہ جن کا نام ہم زندگی میں پہلی دفعہ سن رہے تھے ان میںکروچے، کرسٹوفر کارڈویل، ایڈورڈسعید اور ٹیری ایگلٹن زیادہ اہم ہیں اس بات میں میرا حسن ظن ہے کہ ان چاروں مغربی ناقدین کا جتنا تذکرہ شہرِ اقبال میں ہوا اور چھ ماہ تک ان کی تحریروں کو جس قدر مقدس سمجھ کر پڑھا گیا ، شاید ہی روئے زمین پر کوئی ایسی جگہ ہو….
ایک دن پیر صاحب کروچے کی جمالیاتی تنقید کے حوالے سے ہمیں مستفید فرما رہے تھے بات چلتی چلتی خورشید الاسلام کی کتاب ”تنقیدیں“ جس میں” امراؤ جان ادا“ ان کا مضمون تھا ، تک پہنچی جو تخلیقی تنقید کی بہترین مثال تھا۔ پیر صاحب نے ہم سے مخاطب ہو کر ہم سے پوچھا:

”امراؤ جان ادا“ تو سب نے پڑھ رکھا ہو گا؟

ہمارے نادم چہروں پر لکھا ہوا تھا کہ ہم نے بس نوٹس پڑھے ہوئے ہیں ، مکمل ناول تو دور دور تک دیکھا بھی نہیں ہوا۔ ہماری گردنیں شرم کے مارے جھک گئی۔اسی دن ایک مرید مہینہ بھر کے بعد جماعت میں آیا۔ پیر صاحب کے پوچھنے پر موصوف نے بتایا کہ وہ عمرہ کی ادائیگی کے لئے گئے ہوئے تھے۔ اس پر پیر صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا:

”ہر بڑا اور نیک کام قبولیت کے لئے قربانیاں مانگتا ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس مقدس سفر میں آپ کی اس قربانی میں یہ ناول(امراؤ جان ادا) پڑھنا، لکھا ہوتا۔“

جس پر ساری جماعت ہنسنے لگی ۔خیر یہ تو ان کے مزاح کی چاشنی سے لبریز جملے ہوتے تھے جو وہ کبھی کبھار ہماری بوریت کو دور کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔

پیر صاحب کتابوں پر تبصرے لکھوانے کے بڑے دلدادہ تھے۔ وہ مرید جو یہ نیک کام بروقت اور زیادہ سے زیادہ کرتا تھا اس کا شمار اوّل درجے کے مریدوں میں ہوتا تھا۔اور یہ اوّل درجہ رکھنے والے دو تین مرید ہی تھے۔ ان پرخاص دستِ شفقت تھا۔

ان کا وہ جملہ آج بھی کانوں میں گھومتا ہے کہ:

”حضرت جی! ہم فرض کرتے ہیں کہ آپ نے یہ چیز بھی پڑھ رکھی ہو گی“

جس پر ہمیںہر بار شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔ لیکن وہ اپنی چشمِ بینا سے ہمارے قلوب و اذہان کو دیکھ رہے ہوتے تھے کہ میرے یہ پرستار بالکل صاف کاغذ کی طرح ہیں۔ قربان جاو¿ں اپنے پیر پر کہ اس کے باوجود انھوں نے ہمیں محبت بھری نظروں سے ہی دیکھا اوریہ محبتیں بانٹنے والی ہستی ڈاکٹر انوار احمد کی ہے جو جامعہ گجرات کے سب کیمپس سیال کوٹ کے ڈائریکٹر جنرل اور صدرِ شعبہ اردو بھی تھے۔

انوار صاحب کی صحبت ہم نے بہت کچھ سیکھا سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم نہ صرف دنیا بھر کے ادیبوں، شاعروں اور ناقدین سے آشنا ہوئے اور بلکہ انھوں نے ہمارے اندر کتاب پڑھنے کا ایک جذبہ بھی پیدا کیا۔ پورے کیمپس میں وہ ہر دل عزیز تھے جس کی وجہ سے آج بھی یہاں سب ان کو یاد کرتے ہیں۔

سیال کوٹ کیمپس میں انوار صاحب کے دوکام بہت اہمیت کے حامل ہیںجن کو شہرِ اقبال کے غیور اور غریب طلبا ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

ایک ”امام بی بی انڈوومنٹ فنڈ“ کا قیام…. جس کے لئے انھوں نے اپنی خاکوں پر مشتمل کتاب ”یادگارِ زمانہ ہیں جو لوگ“کی اشاعت سے ایک خطیر رقم اکٹھی کر کے اسے غریب اور مستحق طلبا کی تعلیمی امداد کے لئے وقف کر دیا۔ شبانہ روز محنت سے انھوں نے یہ دیا جلا کرمحبّا نِ اقبال کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ اللہ کرے یہ ہمیشہ جلتا رہے اور انوار کی کرنوں سے طلبا مستفید ہوتے رہیں۔

دوسرا شہرِ اقبال میں ایم۔ فل۔ اردو کی کلاسز کا اجرا بھی انوار صاحب کی اَن تھک محنت کا نتیجہ تھا۔لیکن افسوس کہ وہ پودا جس کو اس ملتانی پیر نے دن رات کی تگ و دو سے لگایا تھاآج یہ مرجھاتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

یہ ہماری زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ہے کہ ہمیں ایک سال کا عرصہ ایسے شخص کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا ہے جس نے اپنی ترقی پسند سوچ کے ذریعے ہمارے اندر اردو زبان سے محبت کا انقلاب برسوں اور مہینوں کی بجائے دنوں میں برپا کر دیا۔

اللہ آپ کی عمر، علم اور عمل میں برکت عطا فرمائے۔ (آمین)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments