غلط ڈرائیونگ کر کے انسانی جان کو خطرے میں مت ڈالیں


منیر نیازی نے کیا خوب کہا تھا
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کے حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

کراچی کی بڑی شاہراہوں اور چھوٹی سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے مجھے یہ شعر بہت شدت سے یاد آتا ہے۔
کبھی کبھی تو روح فرسا حادثات میں اتنی شدت سے اضافہ ہو جاتا ہے کہ مجھے مشہور ناول نگار ہوسے ساراماگو کا شہرہ آفاق ناول بلائینڈنیس یاد آجاتا ہے۔

جس میں شہر کے تمام لوگ اندھے پن کی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کو کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم بھی اسی اندھے پن کی بیماری کا شکار ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ اندھا پن آنکھوں کا تھا اور ہمارا ضمیر اندھا ہو چکا ہے۔ ہم اس قسم کی ڈرائیونگ کرتے ہوئے کیوں نہیں گھبراتے جس کا انجام ہماری اپنی یا کسی بھی دوسرے بے قصور کی موت ہوتا ہے؟ شہر کی سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے آس پاس دیکھتے ہوئے بھی خوف آتا ہے کے خدا جانے ہر کسی کو گھر پہنچنے کی اتنی جلدی کیوں کے ہے وہ اپنی اور دوسروں کی جان تک داوءپر لگانے کو تیار ہے۔ کیا دوسری گاڑی کو خطرناک حد تک اوور ٹیک کرنے والے نوجوان کی آنکھوں میں اپنی ماں کا چہرہ نہیں آرہا ہوتا جو کھانا بناتے ہوئے بھی بار بار دروازے کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہے اور اپنے لاڈلے کی منتظر ہوتی ہے۔ کیا شاہ فیصل کالونی میں 3 معصوم سگے بہن بھائیوں کو اپنے ٹینکر تلے کچلنے والے ڈرائیور کو اس تیز رفتار اور ایک نسل اجاڑ دینے والی ڈرائیونگ کے دوران اپنے ان معصوم بچوں کی شکلیں ذہن میں نہیں آئیں تھی جن کی خاطر وہ روزی کمانے کے لیے اپنے گھر سے ہزاروں میل دور آیا تھا اور کسی اور کا گھر اجاڑ بیٹھا۔

خدا کے لیے سنبھل جائیں۔ ہوش سے کام لیں۔ پندرہ بیس منٹ تاخیر سے بخدا کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔ آپ کے کام رکیں گے نہیں۔ کسی کا گھر اجڑنے سے بچ جائے گا۔ آپ کی وجہ سے کوئی ماں اپنی بیٹے کے خون آلود کپڑے دیکھ دیکھ کر سسکیاں نہیں لے گی۔ کوئی خاتون بھری جوانی میں بیوگی کا روگ نہیں پالے گی۔ کوئی بچہ ایسا نہیں ہوگا جس کے لب پاپا کہنے کو ترسیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو سوچنا ہوگا کے ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہر موٹر سائیکل سوار سے سے لے کر کار۔ بس۔ ٹرک اور ٹرالے والوں کو۔ عمومی طور پر یہی نظر آتا ہے کہ جس کے پاس بڑی گاڑی ہے۔ وہ دوران ڈرائیونگ اتنا ہی پاگل پن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت شہر میں آئے دن ہونے والے واٹر ٹینکر اور ٹرالرز کے ہونے والے حادثات ہیں۔ جن میں بہت سے لوگ اپنی بیش قیمت جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ میرا قیوم آباد چورنگی سے روز کا گزر ہوتا ہے۔ آخری دس دن میں وہاں تین ایک ہی نوعیت کے واقعات ہو چکے ہیں۔ لیکن حیرت ہے کہ لوگ ایک دفعہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی سبق نہیں سیکھتے اور اسی حرکت کے خود مرتکب ہو جاتے ہیں۔ ہم سب کو مل کر اس برائی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اور اس کے لیے نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگی کو بھی قیمتی سمجھنا ہوگا
اللہ تعالی ہمیں آسانیاں پیدا کرنے اور تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).