قصور کے بچوں کا قصور کیا ہے؟


قصور میں وقوع پذیر ہونے والا واقعہ، پہلا واقعہ نہیں ہے، اس طرح کے واقعات تواتر کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔ اس سے قبل بھی قصور میں معصوم و کمسن بچوں کاجنسی استحصال ہوا تھا لیکن ملزمان ہمیشہ کی طرح با اثر تھے، اس لیے معاملہ دبا دیا گیا ا ور متاثرین کو انصاف نہیں مل سکا۔ طیبہ تشدد کیس ہو یا اس طرح کے اور واقعات متاثرین کو انصاف کی فراہمی ممکن نہ ہوسکی۔ شاہ زیب کا قاتل بھی فتح کا نشان بناتا ہوا رہا ہوگیا اور عوام قاتل اور انصاف کا منہ تکتا رہ گئے۔ ایسی صورتحال میں جرائم پیشہ افراد کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا سیاسی اثر و رسوخ اور حکام بالا سے تعلقات، ان کے بڑے سے بڑے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔ اسی لیے آئے دن اس طرح کے واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں، چند دن الیکٹرونک، سوشل و پرنٹ میڈیا پر شور ہوتا ہے اور پھر کسی نئے واقعے کا انتظار شروع ہوجاتا ہے۔ حالیہ سانحہ زینب سے قبل قصور میں پیش آنے والے ویڈیو اسکینڈل کے ملزمان کو سزا مل گئی ہوتی تو جرائم پیشہ افراد اور جنسی مریضوں کی ہمت نہ ہوتی کہ سات سالہ معصوم بچی کے ساتھ ایسا ظلم کرتے اور اس کی جان لیتے۔

قصور کے عوام اور بچے یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ہمارا قصور کیا ہے؟ بظاہر تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ قصورکے بچوں کا قصور یہ ہے کہ وہ ایک ایسے ملک میں پیدا ہوگئے ہیں، جہاں سیاست دان اور مقتدر حلقے عوام کو اقتدار کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں، ان کو اس سے غرض نہیں کے عوام کس حال میں جی رہے ہیں اور ان کی بنیادی ضروریات پوری ہورہیں کہ نہیں۔ قصورر کے بچوں کا قصور یہ ہے کہ وطن عزیز کا ہر ادارہ، اپنی اہمیت جتانے کی فکر میں ہے، انہیں اس سے غرض نہیں کہ عوام کو تحفظ اور انصاف فراہم کرنا، ان کی آئینی ذمہ داری ہے۔ قصور کے بچوں کا قصور یہ ہے کہ جہاں مسلکی و مذہبی، لسانی و علاقائی سیاست کرنے والے رہنما، اپنے مسلک اور لسانیت کے پرچار میں لگے ہوئے ہیں، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی خودغرض سیاست کی بھینٹ معصوم عوام ہی چڑھتے ہیں کیونکہ ا ن کو تو سیاست ہی لاشوں کی کرنی ہے۔ آج بھی دومظاہرین ہلاک اور کئی افراد زخمی ہوگئے ہیں۔

قصور کے بچوں کا قصور یہ بھی ہے کہ وہ ایسے ملک میں پیدا ہوگئے ہیں، جہاں کے عوام، سیاست دان، اینکر، صحافی اور کالم نگار، عمران خان کی مبینہ تیسری شادی کے غم میں دبلے اور پتلے ہوئے جارہے ہیں اور اپنی شیریں کلامی و خوش گفتاری سے ناظرین کا دل بہلا رہے ہیں اور قلم کا جادو چلا رہے ہیں۔ قصور کے بچوں کا قصور یہ بھی ہے کہ ان کی حفاظت پر مامور ہونے والے پولیس اہل کار، ان کی نہیں حکمرانوں اور با اختیار افراد کی حفاظت پر مامورہیں۔ قصور کے بچوں کا قصور یہ ہے کہ جہاں کا وزیر اعظم، سابق وزیر اعظم کو ابھی بھی وزیر اعظم سمجھتا ہے اور خود کوئی فیصلہ کرنے میں آزا دنہیں ہے۔ قصور کے بچوں کا قصور یہ ہے کہ وہ ایسے ملک میں جنم لے چکے ہیں، جہاں کے وزراء کی توانائیاں امور مملکت میں صرف ہونے کی بجائے سابق وزیر اعظم اور ان کے خاندان کی تعریف و توصیف میں ضائع ہورہی ہیں۔ اس لیے قصور اور ملک کے دیگر حصوں کے بچوں اور عوام کو مستقبل میں اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے، اپنے طور پر خود ہی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہوں گی کیونکہ ملکی سیاست اور معاشرہ جس ڈگر پر چل رہا ہے اورحکمران و مقتدر حلقے جس طرح کے سیاسی و انتظامی فیصلے کرنے میں مگن ہیں، مسقبل میں بھی اس طرح کے واقعات کا پیش آنا عین ممکن ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).