آج کے پاکستانی بچوں کے لیے آج کا سبق


پیارے بچو!

یہ دنیا بہت خوبصورت ہے۔
مگر اس دنیا میں بدصورت لوگ بھی رہتے ہیں۔
جنوں، بھوتوں اور بدروحوں سے بھی بدصورت لوگ۔

یہ بدصورت کیوں ہوتے ہیں؟
اس لیے کہ ان کے خون کا رنگ کالا ہوتا ہے۔
دل اور دماغ کالا ہوتا ہے۔

یہ دیکھنے میں ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے سارے آدمی ہوتے ہیں۔
جیسے گھر میں آنے جانے والے انکل، نوکر، ڈرائیور، ٹیچر، مولوی صاحب، پڑوس والے انکل، سڑک پر چلتے ہوئے انکل، محلے کے گراؤنڈ میں کھیلتے ہوئے لڑکے۔
مگر یہ اندر سے کالے سانپ ہوتے ہیں۔ سچ مچ کے سانپ۔
باہر سے پہچانے نہیں جاتے۔
کبھی کبھی یہ بچے کو پیار کرتے کرتے اُس پر حملہ کردیتے ہیں اور کبھی چور ڈاکو کی طرح ایک دم سے دبوچ کر اٹھا لیتے ہیں۔

یہ کیسا حملہ کرتے ہیں؟
یہ بچوں سے کیا چھینتے ہیں؟
دیکھو۔
ہر بچے کا ایک جسم ہوتا ہے۔ جو بہت ہی قیمتی ہوتا ہے۔

جب بچے ذرا ذرا بڑے ہوجاتے ہیں تو کوئی بھی ان کے ساتھ غسل خانے میں اندر نہیں جاتا۔ بچوں کو بھی اچھا نہیں لگتا کہ کوئی انہیں ننگا دیکھے۔ امی بھی نہ دیکھیں اور ابا بھی نہ دیکھیں۔ اس لیے کہ جسم بہت ہی پرائیوٹ چیز ہے۔ جسم صرف ہمارا ہوتا ہے۔ ہم اس لیے کپڑے پہنتے ہیں، کیونکہ ہم اپنا جسم کسی کو دکھانا نہیں چاہتے۔
پھر جسم کے جو حصّے ہم کپڑوں کے اندر چھپا کر رکھتے ہیں، وہ ہمارے جسم کے پرائیویٹ پارٹ ہوتے ہیں۔

یاد رکھو۔
کسی کو بھی بچوں کے جسم کو چھونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
کسی بھی انکل کو نہیں۔

انکل کون کون ہوتا ہے؟
سب بڑے بڑے آدمی انکل ہوتے ہیں۔ بچے ان کو رشتوں سے نہیں پہچان سکتے۔ نہ ہی پتہ لگا سکتے ہیں کہ کون سا انکل اندر سے کالا بھوت ہے، اس لیے سارے کے سارے انکل، چچا، ماموں، خالو، پوپھا اور ابو اور بھائی کے دوستوں سمیت۔ کسی کو بھی بچوں کا جسم چھونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

اسی طرح نہ نوکر یا ڈرائیور کو۔ نہ اسکول کے گارڈ کو۔ نہ کزن کو۔ نہ بھائی کو۔ نہ مولوی کو۔ نہ ٹیچر کو۔ نہ دوست کے گھر میں کسی کو۔ نہ گلی میں کسی کو۔ نہ دکاندار کو۔
صرف امی اور ابو چھوُ سکتے ہیں۔ چاہے بچہ لڑکا ہو یا لڑکی۔

یہ اندر سے کالے بھوت اور باہر سے آدمی دکھنے والے جو حملہ کرتے ہیں، وہ حملہ کیسے ہوتا ہے؟
حملہ یہ ہوتا ہے کہ یہ بچے کو یا تو کچھ کھلا کر، یا سونگھا کر، بے ہوش کرکے اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ یا پھر پیار سے بہلا پھسلا کر۔ کچھ دکھانے کے بہانے۔

پھر یہ بچوں کو لے جاکر پہلے ننگا کرتے ہیں۔ پھر ان کے جسم کو اور جسم کے پرائیویٹ پارٹس کو نوچتے ہیں۔ پھر کاٹنا شروع کرتے ہیں اور ان کا خون چوسنے لگتے ہیں اور دانتوں سے ان کے جسم کی بوٹیاں کھاتے ہیں۔ جب ان کا پیٹ بھر جاتا ہے تو بچے کا گلا گھونٹ کر یا ٹکڑے ٹکڑے کرکے کچرے میں یا گندے نالے میں پھینک دیتے ہیں۔ یوں بچے مر جاتے ہیں اور پھر کبھی واپس نہیں آتے۔

مگر اس حملے سے پہلے بھی وہ چھوٹے چھوٹے حملے کرتے ہیں۔
جب کوئی بچے کے کولہوں کو پکڑے اور دبائے۔ جب بچے کو پپی دینے کی کوشش کرے اور دبا دبا کر پپی دے۔ جب جسم پر پیار سے ہاتھ پھیرے۔ چہرے پر ہاتھ پھیرے۔ پیٹھ پر ہاتھ پھیرے۔ ساتھ لپٹا کر بٹھائے اور ٹانگوں کو دبائے یا ان پر ہاتھ رکھے۔

یہ سب اور اس طرح کی حرکتیں پیار نہیں ہوتا۔ دراصل ان کے اندر اس وقت وہ کالا بھوت موجود ہوتا ہے اور وہ بڑے حملے کی تیاری کررہے ہوتے ہیں کہ کسی دن موقع ملے تو وہ بچے کو اکیلے میں لے جاکر کاٹ کھائے۔

جب بچے مسجد میں قرآن پڑھتے ہیں تو مولوی صاحب سبق یاد نہ ہونے پر کلائی مروڑتے ہیں۔ جسم کو جگہ جگہ سے دباتے ہیں۔ گھر پر شکایت بھیجتے ہیں کہ اسے سبق یاد نہیں ہوتا۔ امی ابو مولوی صاحب کی طرف داری کرتے ہیں۔

مگر یہ بھی دراصل بچے کو کاٹ کھانے اور اس کا خون چوسنے کی تیاری ہوتی ہے۔ جیسے ہی مولوی صاحب ہاتھ لگائے فوراً قرآن چھوڑ کر مسجد سے نکل جاؤ۔ قرآن اس عمر میں بھی پڑھا جا سکتا ہے جب بچہ لوگوں کو پہچاننے لگے۔

امی ابو اگر مولوی صاحب کی طرفداری کریں تو بھی مولوی صاحب کے پاس مت جاؤ۔ صرف اس مولوی سے قرآن پڑھنا چاہیے جو بچوں کو ہاتھ نہ لگاتا ہو۔

اسی طرح ٹیوشن والا ٹیچر بھی اور اسکول کا ٹیچر بھی۔ کسی کو بچے کے جسم کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں ہے۔ ٹیچر سے تھوڑا سا دور ہوکر کھڑے ہونا چاہیے۔ ٹیوشن والے ٹیچر اور بچے کے بیچ میں ٹیبل ہونی چاہیے۔ اتنا ہٹ کر بیٹھنا چاہیے کہ ٹیچر کا ہاتھ بچے تک نہ پہنچے۔

یاد رکھو۔
کسی کے ساتھ اکیلے کمرے، خالی مسجد، خالی گھر میں بالکل بھی نہیں بیٹھنا چاہیے۔
سنسان راستوں سے نہیں گزرنا چاہیے۔

مگر یہ اندر سے کالے بھوت جیسے آدمی بھیڑ میں بھی بچوں کے جسم کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ جیسے شادی کے ہنگامے وغیرہ میں۔
کبھی کبھی تو امی ابا کے سامنے بھی بچوں کے جسم کو ہاتھ لگا رہے ہوتے ہیں۔ امی ابا کو پتہ بھی نہیں چلتا۔

بچے کو چاہیے وہ فوراً ہاتھ جھٹک دے۔
ہٹ کر کھڑا ہوجائے۔
کہے کہ مجھے ہاتھ نہ لگائیں انکل۔

اگر پھر بھی ہاتھ لگائے تو زور سے منع کرے۔ تاکہ دوسرے بھی سن سکیں۔ اگر پھر بھی ہاتھ لگائے تو چیخ پڑے۔ شور مچائے۔ چاہے امی ابو کہیں بھی کہ چپ ہوجاؤ۔ انکل یا بڑے بھائی ہیں۔ پیار کر رہے ہیں۔ مگر کہہ دو کہ نہیں۔ مجھے کوئی بھی ہاتھ نہ لگائے۔

اسی طرح نوکر سے دور رہنا چاہیے۔ نوکر صرف امی ابو کے لیے ہوتے ہیں۔ نہ انہیں کپڑے بدلتے وقت بچوں کے سامنے ہونا چاہیے۔ نہ غسل خانے میں۔ بچے امی ابو کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ ملازموں اور ڈرائیوروں کی نہیں۔
بچوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ یہ نوکر بھی بچوں کا خون چوسنے اور انہیں مار کر پھینکنے والا اندر سے کالا بھوت جیسا آدمی ہوسکتا ہے۔

اسکول وین میں بھی اگر ڈرائیور یا اس کا ساتھی ہاتھ لگاتا ہے تو اس سے پہلے کہ وہ بچے کا جسم کاٹ کھائے، اس وین میں بیٹھنے سے انکار کردینا چاہیے۔ کچھ دن اسکول نہ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر بچہ کٹ کر مرنے سے بچ جاتا ہے۔

بستر میں کسی کے ساتھ نہیں سونا چاہیے۔ نہ کزن، نہ بھائی۔ نہ ماموں۔ نہ چچا۔
امی ابو کہیں تو بھی نہیں۔

اپنے جسم کو دوسرے کے جسم کے ساتھ کبھی بھی نہیں لگانا چاہیے۔ جیسے بستر میں دو لوگوں کے جسم ایک دوسرے سے لگ کر سوتے ہیں۔
ہوسکتا ہے بچے کے جسم کے ساتھ لگ کر سوتے ہوئے، اس کے دل میں بچے کو کاٹ کھانے کا خیال آجائے!
اس لیے اپنے جسم کو دوسروں کے جسم سے الگ رکھنا چاہیے۔
بستر کے قریب کسی ملازم کو نہیں آنے دینا چاہیے۔

اسی طرح دکاندار سے کاؤنٹر سے باہر کی طرف کھڑے ہوکر بات کرنا چاہیے۔ وہ اگر اندر کی طرف بلائے تو اس دکان سے نکل جانا چاہیے۔
جب کوئی بھی جسم کو ہاتھ لگانے لگے تو اپنے امی ابو کو بار بار بتانا چاہیے۔ زور زور سے بتانا چاہیے۔ چیخنا چاہیے۔ کوئی بات نہیں اگر کوئی بھی ناراض ہوجائے۔

سب سے ضروری اپنا جسم بچانا ہوتا ہے۔
کیونکہ جسم بہت قیمتی ہوتا ہے۔

اچھے اچھے لوگوں میں گندے لوگ چھپے ہوتے ہیں جو بچوں کے جسم ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ تاکہ وہ اکیلے میں بچوں کے پیارے پیارے جسم کاٹ کر کھائیں اور ان کا خون چوس کر انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھینک دیں۔

بچو!
اپنا جسم دوسروں سے بچاؤ۔
اپنے جسم کو چھونے کی اجازت کبھی بھی نہ دو۔
کوئی ایسا کرے تو شور مچاؤ۔
زور زور سے۔
اونچی آواز میں۔

دوسرے لوگوں کو بھی بتاؤ اور دوسرے بچوں کو بھی بتاؤ۔
شور مچاؤ بچو
اپنا جسم بچاؤ

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah